حصولِ گوادار کی جدوجہد کا تاریخ ساز کردار

ہماری آزادی کی تاریخ بے انتہا اور مسلسل قربانیوں سے عبارت ہے۔ یہ سبق آموز تاریخ اس حقیقت کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے کہ جب /14 اگست 1947ء کو پاکستان معرضِ وجود میں آیا تو اس کی سالمیت کی بقاء کو دو انتہائی اہم ترین مسائل ورثہ میں ملے۔ اولاً مسئلہ کشمیر اور ثانیہً گوادر۔ بانیٔ پاکستان حضرت قائد اعظم نے کشمیر کی اہمیت کے حوالے سے صرف ایک فقرے میں قوم کو اس سنگینی کا احساس دلا دیا تھا کہ کشمیر پاکستان کے لئے شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے اور جہاں تک گوادر کا تعلق تھا یہ مسئلہ بھی کوئی کم اہمیت کا حامل نہیں تھا۔ اس کی نشاندہی وطن عزیز کے بانی کے ایک انتہائی معتمد رفیق نے اپنے الفاظ میں یوں بیان کی ہے کہ گوادر جب تک ایک غیر ملک کے ہاتھ میں تھا تب تک ہمیں یوں محسوس ہوتا تھا گویا ہم ایک ایسے مکان میں رہ رہے ہیں جس کا عقبی کمرہ کسی اجنبی کے تصرف میں ہے اور یہ اجنبی کسی وقت بھی اسے ایک پاکستان دشمن کے ہاتھ فروخت کر سکتا ہے اور وہ دشمن بھی اس سودے کے عوض بڑی سے بڑی رقم ادا کر سکتا ہے۔مطلب صاف ظاہر ہے کہ ایک طرح سے ملک کی ریڑھ کی ہڈی پر دشمن قبضہ جما سکتا تھا۔ ملکی سلامتی کے ایسے ہی خطرات کو بھانپتے ہوئے بانیانِ پاکستان ہی میں سے حضرت قائد اعظم کے ایک معتمد رفیق نامور سیاستدان ملک فیروز خان نون نے گوادر کے حصول کی دل و جان کے ساتھ جدوجہد کا آغاز کر دیا تھا۔ 
گوادر پاکستان کے انتہائی جنوب مغرب اور کرۂ ارض کے سب سے بڑے بحری تجارتی گزرگاہ پر واقع صوبہ بلوچستان کا ایک قدیم تاریخی  علاقہ ہے جو بلاشبہ اپنے نظرنواز محل وقوع اور بندرگاہ کے باعث بھی شہرت کا حامل ہے۔ تاریخ میں اس علاقے کے کو وادیٔ کلانچ اور وادیٔ دشت کا نام بھی دیا گیا۔ اس کے ڈانڈے زمانہ قدیم کی اسلامی تاریخ سے بھی ملتے ہیں، اس خطے کے لوگ شروع ہی سے باہمت، جفاکش اور مختلف قبائل کے نام  سے  جانے جاتے ہیں۔ 
کراچی سے سات سو کلومیٹر دور دو ہزار چارسو مربع میل پر محیط گوادر اٹھارویں صدی میں بلوچستان ہی کا حصہ تھا۔ اس کی اہمیت و افادیت ہی کے پیش نظر قیامِ پاکستان کے بعد حکومتِ پاکستان کیلئے اس کا حصول کشمیر کی طرح  زندگی اور موت کا مسئلہ بن چکا تھا اور اس کے سُرخیل ملک فیروز خان نون تھے۔ آپ دھیمے مزاج کے فہم و بصیرت سے مالا مال نہایت زیرک انسان تھے۔ اسی حوالے سے پاکستان کے ایک نامور بیوروکریٹ جناب الطاف گوہر (مرحوم) نے اپنی کتاب ’’لکھتے رہے جنون کی حکایت‘‘  میں گوادر کے حوالے سے لکھا ہے کہ ملک فیروز خاں نون نے برطانیہ کے وزیر اعظم ہیرالڈ میکملن کو اس بات پر قائل کر لیا کہ گوادر کا دو ہزار چارسو مربع میل کا رقبہ پاکستان کو واپس کر دیا جائے یہ ایک حساس معاملہ تھا اس لئے کہ گوادر مسقط کے قبضے میں تھا اور مسقط سے برطانیہ کا انتہائی قریبی تعلق تھا۔ آج اگر گوادر پاکستان کو واپس نہ مل چکا ہوتا تو مکران کے ساحل پر ہمارے دفاعی نظام کو بڑی مشکلات کا سامنا رہتا۔
 اٹھارہویں صدی میں گوادر، خان آف قلات میر نصیر نوری بلوچ کی ملکیت میں تھا۔ مگر قبائل کی کشمکش کے باعث خان آف قلات کی گرفت وہاں ڈھیلی پڑ چکی تھی کہ 1783ء میں مسقط کے ایک شہزادے سعد سلطان کا اپنے بھائی سے جھگڑا ہو گیا۔ اس حوالے سے مؤرخین نے مختلف آراء کا اظہار کیا ہے۔ مگر واقہ یہ ہے کہ خان آف قلات میر نصیر خان نے نا صرف سعد سلطان کو پناہ دی بلکہ گوادر کا علاقہ اور وہاں کی آمدنی بھی لامحدود مدت کے لیے شہزادے کے نام کر دی۔ 1799ء میں سلطان واپس مسقط جا کر وہاں کا حکمران بن گیا مگر اس نے گوادر خان قلات کو واپس کرنے کی بجائے اس پر اپنا تسلط قائم رکھا،1804ء میں اس کی وفات  پر اس کے بیٹے حکمران بن گئے۔ 
 1838ء میں پہلی افغان جنگ میں برطانیہ کی توجہ اس علاقے پر ہوئی اس نے میجر گولڈ سمتھ کی نگرانی میں قبضہ کر لیا گوادر پر  1863ء میں  اپنا اسسٹنٹ پولیٹکل ایجنٹ مقرر کر کے برٹش انڈیا سٹیم نیویگیشن کمپنی کے جہازوں کیلئے پسنی کی بندرگاہوں کو استعمال کرنا شروع کر دیا۔ قلات کے حکمران نے 1861ء میں گوادر کی واپسی کا مطالبہ کرنا شروع کیا تھا۔ بالآخر اس معاملے کو نمٹانے کیلئے برٹش کالونیل ایڈمنسٹریشن نے ثالثی کے بہانے مداخلت کی مگر قلات خاندان کا یہ مطالبہ مسترد کر دیا گیا اور برطانیہ اس علاقے پر سوا سو برس تک  قابض رہا۔ 
قیام پاکستان کے بعد حکومتِ پاکستان نے مسئلہ گوادر کو اٹھایا مگر 1949ء میں مذاکرات بے نتیجہ رہے۔ ملک فیروز خاں نون گوادر کے سلسلے میں اس جدوجہد کا اپنی کتاب ’’چشم دید‘‘ میں احوال لکھتے ہیں:۔ ’’ میں 1956ء میں وزیر خارجہ مقرر ہوا تو گوادر سے متعلق کاغذات طلب کئے اور اس قصے کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد حکومت برطانیہ کے توسط سے سلسلہ جنبانی شروع کر دیا ۔  یہاں تک کہ میں نے 1959ء میں وزارتِ عظمیٰ کی ذمہ داریاں سنبھال لیں اور گوادر حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کر لی۔‘‘ ’’گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانا بہت بڑا کارنامہ تھا لیکن اس پر کوئی جشن منایا گیا نہ ہی اس کا کریڈٹ لیا دیا گیا۔ 
ایک کامیاب بیرسٹر کی حیثیت سے گوادر کا مقدمہ جیت لینے میں اُن کے قانونی نکات نے تاجِ برطانیہ کو مخمصے میں ڈال دیا تھا اور اس کے لئے گوادر کے پرامن انتقال کے سوا کوئی اور چارہ نہیں تھا۔ ملک فیروز خان نون نے اس پہلو کا اپنی کتاب میں یوں ذکر کیا ہے…’’میں نے اس قضیہ کی تاریخ میں پہلی بار یہ قانونی نکتہ اٹھایا کہ گوادر کی حیثیت ایک جاگیر کی ہے۔ وہ ریاست کا ایک علاقہ ہے جسے ایک شخص کو اس لئے تفویض کیا گیا تھا کہ وہ ریاست کے واجب الادا ٹیکس وصول کرے اور  اسے اپنی گزرِ اوقات کے لئے تصرف میں لائے یا اس رقم کو اپنی تنخواہ قیاس کرے اسی طرح کی امداد سے اقتدارِ اعلیٰ کی منتقلی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہم نے پاکستان میں وہ ساری جاگیریں منسوخ کر دی ہیں جو بہت سے لوگوں کو برطانیہ نے اپنی خدمات کے صلے میں یا دوسرے سیاسی اسباب کی بنا پر دی گئی تھیں۔ چونکہ گوادر بھی ایک جاگیر تھی لہٰذا اس کی تنسیخ بھی کی جا سکتی ہے اور اس علاقے پر قبضہ حاصل کرنا بھی ممکن ہے۔تاہم یہ ایک قانونی نکتہ تھا جو عدالتی چارہ جوئی کی صورت میں ہمارے کام آ سکتا تھا برطانوی حکومت بڑے مخمصے میں پھنس گئی۔ اگر پاکستانی فوج اس علاقے پر قبضہ کر لیتی تو کیا برطانوی حکومت دولتِ مشترکہ کے اس ملک پر بمباری یا فوج کشی کر دیتی جس کی علامتی سربراہ خود ملکہ الزبتھ ہیں۔ داد دینا پڑے گی بانیٔ پاکستان حضرت قائداعظم ایسے بے لوث رہنما نے یہ گوہر مقصود پرامن اور بغیر جنگ حاصل کرلیا۔اور یہ کامیابی پاکستان  نے عالمی قوتوں کے ساتھ مل کر  حاصل کی۔ نون صاحب خودنوشت میں رقم طراز ہیں…’’پاکستان کا دولتِ مشترکہ میں رہنا اس کے لئے بہت سودمند ثابت ہوا ۔ گوادر کے منتقلی پر نہایت خوش اسلوبی سے عمل ہوا۔ قدرتی بات ہے کہ اس کا معاوضہ ادا کرنا پڑا۔ لیکن جہاں ملک کی حفاظت اور اس کے وقار کا مسئلہ درپیش ہو وہاں روپیہ کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ 1958ء میں جب لندن میں تھا تو ہمارے ہائی کمشنر اکرام اللہ نے گوادر کی منتقلی کی دستخط شدہ دستاویز میرے حوالے کیں۔
لُطف کی بات یہ ہے کہ گوادر کے حصول کی خبر نے بھارتی حکمرانوں کے تن بدن میں آگ سلگا دی۔ وہ تلملا اٹھے۔ اس کا تذکرہ خود ملک فیروز خان نون نے اس وقت کیا جب انہی دنوں آپ سرحدی تنازعات کے تصفیہ سے متعلق مذاکرات کے لئے نئی دہلی گئے تو واپسی پر انہوں نے بتایا کہ دہلی میں بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے کہا تھا ’’آپ نے گوادر لے لیا؟ میں نے جواب دیا۔ 
’’جی ہاں! لے لیا‘‘ اس پر جواہر لال نہرو کا منہ تکنے کے لائق تھا۔ اس واقعہ کے بعد بھارت کی طرف سے ملک فیروز خان نون کی حکومت کے خلاف سازشوں کو بھارت کی طرف سے اچھالنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ آج بھی اگر  بلوچستان میں امن کو تہہ وبالا کیا جا رہا ہے تو بلاشبہ محب وطن پاکستانیوں کی قربانیوں کا یہ وہی تسلسل ہے جو ہماری آزادی کی بہت بڑی قیمت ہے ۔ 

ای پیپر دی نیشن