پاکستان میں یہ ایک عام روایت ہے کہ جیسے ہی عوامی فلاح و بہبود کو سامنے رکھ کر کوئی بڑا منصوبہ شروع کیا جاتا ہے کچھ لوگ اس منصوبے کو متنازع بنانے کے لیے شور مچانا شروع کر دیتے ہیں۔ لیکن اس کے برعکس، اشرافیہ کو مراعات و سہولیات فراہم کرنے کے کسی منصوبے کے خلاف کبھی کوئی ایسا تنازعہ پیدا نہیں ہوا۔ اس سلسلے کی دو تازہ مثالوں میں سے ایک دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کا معاملہ ہے اور دوسرا ارکانِ پارلیمان اور وزراء وغیرہ کی تنخواہوں میں اضافے کا فیصلہ ہے۔ اول الذکر کے خلاف مسلسل شور مچا کر یہ باور کرانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اس معاملے سے صوبوں کے مابین نفرتیں پیدا ہوں گی اور سیاسی اختلافات مزید بڑھ جائیں گے جبکہ ثانی الذکر ایک دو روز زیر بحث آ کر منظر سے غائب ہوگیا۔ یہ بات درست ہے کہ دونوں معاملات کی نوعیت ایک دوسرے سے بہت مختلف ہے لیکن آپ کو یکساں نوعیت کے ایسے معاملات بھی مل جائیں گے جن پر مذکورہ قاعدہ لاگو ہوتا ہے۔
دریائے سندھ سے نکالی جانے والی نہروں کے معاملے پر جو شور مچا ہوا ہے اس پر بات کرنے کے لیے وزیراعظم محمد شہباز شریف سے وزیر داخلہ محسن نقوی نے ایک ہفتے میں تیسری بار خصوصی ملاقات کی ہے۔ ملاقات کے دوران گفتگو کرتے ہوئے شہباز شریف کا کہنا تھا کہ سندھ سے نہریں نکالنے کا معاملہ متفقہ ہے، اس حوالے سے سندھ کے تحفظات دور کیے جائیں گے۔ حکومتی اتحادی اپنے معاملات پارلیمان اور کابینہ میں متفقہ طور پر طے کرتے ہیں۔ چالیس منٹ تک جاری رہنے والی اس ملاقات میں شہباز شریف نے مزید کہا کہ حکومتی اتحادیوں میں بے مثال سیاسی ہم آہنگی ہے، ملکی ترقی کا پہیہ اپنے ٹریک پر چڑھ گیا ہے، اب کسی کو سیاسی تخریبی کارروائیوں کی اجازت نہیں دیں گے۔ ملک میں سیاسی ٹھہراؤ اور امن و امان کی صورتحال روز بروز ٹھیک ہو رہی ہے۔
دوسری جانب، جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی) نے سکھر بیراج پر ’سندھو بچائو، سندھ بچائو‘ مہم کے سلسلے میں احتجاجی دھرنا دیا جس میں گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) اور پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں نے بھی شرکت کی۔ اس موقع پر سندھ کے حقوق کے لیے نعرے بازی کی گئی۔ علامہ راشد محمود سومرو اور دیگر رہنماؤں نے دھرنے سے خطاب کیا۔ مقررین کا کہنا تھا کہ اسلام آباد میں بیٹھے حکمرانوں کے غلط فیصلوں نے ملک کو کمزور کر دیا ہے۔ سندھ کے حقوق کے لیے ہر محاذ پر جنگ لڑنے کے لیے تیار ہیں۔ علاوہ ازیں، نہروں کے خلاف سندھ کے مختلف شہروں میں احتجاج ہوا۔ لاڑکانہ میں بھی خیرپور پل پر دھرنا دیا گیا جس سے ٹریفک متاثر رہی۔ اس کے علاوہ سکھر، نوشہرو فیروز، سجاول اور دیگر مقامات پر دھرنے دیے گئے۔ کراچی میں بھی پریس کلب کے باہر مظاہرہ کیا گیا۔ پی ٹی آئی، جی ڈی اے اور دیگر جماعتوں کے کارکنوں نے احتجاج میں شرکت کی۔
چند روز پہلے، پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی برسی کے موقع پر پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری یہ کہہ چکے ہیں کہ سندھو پر نہریں نامنظور ہیں۔ دریائے سندھ کو فعال، بحال اور صحت یاب کرنا ہے۔ ایک زمانے میں یہ مائٹی انڈس کہلاتا تھا، ہمیں اسے بچانا ہے۔ میں دنیا کا شکرگزار ہوں کہ وہ ہمیں انڈس کو بچانے میں ٹیکنالوجی کے طور پر ہمارا ساتھ دیں گے۔ بھارت جو ہمارے پانی پر ڈاکا ڈال رہا ہے میں اس کا مقابلہ کر کے آیا ہوں، کرتا رہوں گا۔ پاکستان مسائل کا شکار ہے۔ بیرونی قوتیں پاکستان کو نقصان پہنچانا چاہتی ہیں۔ نفرت اور تقسیم کی سیاست آنے والی نسلوں کو نقصان پہنچائے گی۔ پاکستان چار بھائیوں کا مجموعہ ہے۔ یہ اکٹھے ہوں تو کوئی پاکستان کی ترقی کا راستہ نہیں روک سکتا۔ صوبوں کو لڑانے کی سازشیں پاکستان پیپلزپارٹی ناکام کرے گی۔ پانی کی منصفانہ تقسیم پر جدوجہد کریں گے اور ہر سازش کو ناکام کریں گے۔ چاروں بھائیوں کو بھائی رہنا ہے تو کینالز منصوبے پر وفاق کو عوام کی آواز سننا ہوگی۔ پانی کی منصفانہ تقسیم ہمارا حق ہے۔ اگر عوام کا مطالبہ ہے کہ کینالز نہیں بننی چاہئیں تو پیپلزپارٹی عوام کے ساتھ کھڑی ہوگی آپ کے ساتھ نہیں۔ کینال منصوبہ اب متنازعہ بن چکا ہے۔
یہ افسوس ناک بات ہے کہ پی پی پی ایک طرف وفاق میں قائم حکومت کی اتحادی ہے اور دوسری جانب وہ سندھ کارڈ کھیلتے ہوئے ایک قومی نوعیت کے معاملے کو جلسے جلوسوں میں زیر بحث لا رہی ہے۔ اس منصوبے کے حوالے سے اس کے جو بھی تحفظات ہیں ان کے بارے میں اسے اپنی اتحادی جماعت پاکستان مسلم لیگ (نواز) کے ساتھ بیٹھ کر بات کرنی چاہیے۔ جلسے جلوسوں میں اس موضوع پر تقریریں اور خطابات کرکے عوامی جذبات کو ابھارنے سے کیا یہ مسئلہ حل ہو جائے گا؟ عوام کے ان تقریروں اور خطابات کے ذریعے جو کچھ بتایا جارہا ہے اس سے صرف نفرت پروان چڑھے گی جس کا فائدہ تو کسی بھی سیاسی جماعت کو نہیں ہوگا لیکن پورے ملک کو اس سے نقصان پہنچنے کا اندیشہ ضرور موجود ہے۔
اس سلسلے میں یہ بھی تکلیف دہ بات ہے کہ وزیراعظم کی جانب سے بار بار کہا جارہا ہے کہ ہم اس حوالے سے سندھ کے تحفظات دور کریں گے لیکن ابھی تک تحفظات دور کیوں نہیں کیے گئے۔ قومی اور عوامی مفاد سے جڑے ہوئے کسی بھی منصوبے پر منفی سیاست نہیں ہونی چاہیے۔ کالا باغ ڈیم پر سیاست کر کے پہلے ہی ملک کو شدید نقصان پہنچایا جا چکا ہے جس کا کریڈٹ سندھ فخریہ لیتا ہے۔ اب نہروں کے منصوبے کو بھی سیاست کی نذر کیا جا رہا ہے۔ اگر معاملہ باہمی اتفاق رائے سے طے نہیں ہو رہا تو اسے مشترکہ مفادات کونسل میں لے جا کر حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے لیکن محض بیان بازی سے کچھ بھی ہاتھ نہیں آئے گا۔ وزیراعظم کو بھی چاہیے کہ وہ اب عملی اقدامات کی طرف آئیں اور پیپلز پارٹی سمیت تمام سٹیک ہولڈرز کو ساتھ بٹھا کر اس حوالے سے جامع مشاورت کے ذریعے یہ طے کریں کہ معاملات کو کس سمت میں لے کر جانا ہے۔