نوائے وقت کی جاوداں میراث(1)

بیسویں صدی کے افق پر طلوع ہونے والی سحر، برطانوی ہندوستان کے قدیم مگر پرشکوہ قصبے سانگلہ ہل، پنجاب میں ایک ایسے عہد کی نوید لے کر آئی جس کے دامن سے صحافت کی تاریخ میں درخشاں نقوش رقم ہونے تھے۔ اسی مٹی نے دو ایسے گوہر نایاب تراشے، جنہوں نے اپنے عزم، بصیرت اور فکری بالیدگی سے قومی صحافت کے رخ کو متعین کیا۔ حمید نظامی، جو صحافتی شعور کے مینارۂ نور بنے، اور مجید نظامی، جنہوں نے استقامت و بے باکی کا ایک عہد رقم کیا۔حمید نظامی 3 اکتوبر 1915ء کو اس عالم آب و گل میں جلوہ گر ہوئے۔ ابتدا ہی سے ان کے مزاج میں ایک فکری لطافت، علمی گہرائی اور دور اندیشی کی جھلک نمایاں تھی۔ انکی علمی تشنگی نے انہیں اسلامیہ کالج لاہور کی معزز درسگاہ تک پہنچایا، جہاں نہ صرف وہ اپنی علمی بالادستی کے سبب ممتاز ہوئے، بلکہ ان کی فطری قیادت نے بھی جِلوہ گری کی۔ یہی وہ علمی فضاء تھی جہاں انہوں نے کالج میگزین ’’کریسنٹ‘‘ کی ادارت سنبھالی اور اپنے قلم کی جولانیوں سے ایسی فکری آبیاری کی جو بعد ازاں برصغیر میں صحافت کی سمت و رفتار متعین کرنے کا پیش خیمہ بنی۔
فکری بالیدگی اور قومی شعور کے حامل حمید نظامی نے اس امر کو بخوبی محسوس کیا کہ طلبہ کے لیے ایک متحدہ آواز کی ضرورت ناگزیر ہو چکی ہے۔ اسی احساس کے تحت، 1937ء  میں انہوں نے پنجاب مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی بنیاد رکھی۔ ایک ایسا عہد ساز اقدام جس نے برصغیر کے مسلم نوجوانوں کو آل انڈیا مسلم لیگ کے جھنڈے تلے یکجا کر دیا۔یہ تحریک، جو ان کی غیر متزلزل قیادت میں پروان چڑھی، تحریکِ پاکستان کے لیے ایک مؤثر ہتھیار ثابت ہوئی۔ ان کی بے خوف قیادت اور فکری بصیرت نے نوجوانوں میں ایک ایسا ولولہ اور عزم بیدار کیا جو آزادی کی راہ میں سنگِ میل ثابت ہوا۔ یہ محض ایک طلبہ تنظیم نہ رہی بلکہ ایک فکری انقلاب کا پیش خیمہ بنی، جس نے برصغیر کے مسلمانوں میں ایک نئی روح پھونکی اور ایک خودمختار مملکت کے قیام کی بنیادیں مزید مستحکم کر دیں۔
مارچ کا مہینہ پاکستان کی تاریخ  میں ایک درخشاں باب کی حیثیت رکھتا ہے، جو قومی حیات کے فیصلہ کن لمحات، تہذیبی ارتقا، اور عظیم تحولات کا امین ہے۔ یہ مہینہ محض وقت کی گردش کا ایک حصہ نہیں، بلکہ ایک زندہ و جاوید شہادت ہے، جو آزادی کی صبر آزما جدوجہد، آئینی بالیدگی، سیاسی انقلاب، اور قومی دفاع کی بے مثال فتوحات کو اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہے۔ یہی وہ مہینہ ہے جس کی آغوش میں برصغیر کے مسلمانوں نے اپنے تشخص کی گمشدہ منزل کو بازیافت کیا، جہاں قراردادِ لاہور کی صورت میں ایک عظیم نظریہ متشکل ہوا، اور جہاں سیاسی مدو جزر نے ایک نئی تاریخ رقم کی۔ مزید برآں، قومی سلامتی و دفاع کے محاذ پر شجاعت و استقامت کی وہ داستانیں لکھی گئیں جو پاکستان کی خودمختاری اور وقار کی روشن علامت کے طور پر آج بھی تابندہ ہیں۔
1940ء میں قراردادِ پاکستان کی تاریخی منظوری، جس نے ایک خودمختار ریاست کی بنیاد رکھی، سے لے کر 1956ء میں پاکستان کے اسلامی جمہوریہ میں ڈھلنے تک، یہ درخشاں مہینہ قومی تقدیر کی تشکیل میں ایک ناقابلِ فراموش کردار ادا کرتا آیا ہے۔ مارچ محض ایک مہینہ نہیں، بلکہ وہ سنگِ میل ہے جس نے پاکستان کی تاریخ کو سنوارا اور اسکی میراث کو وقت کے صفحات پر ثبت کر دیا۔یہی وہ تقدیر ساز مہینہ تھا جب تحریکِ پاکستان کے نظریاتی سفر کو ایک صحافتی بنیاد فراہم کرنے کا تصور ابھرا، اور اس کے قیام کا محرک قائداعظم محمد علی جناح کی دور اندیش قیادت بنی۔ انہی کے ایماء پر، جلیل القدر صحافی حمید نظامی نے لاہور میں روزنامہ نوائے وقت کی بنیاد رکھی۔ ایک ایسا جریدہ جو صرف ایک اخبار نہ تھا بلکہ ایک عہد کی فکری جِلا، نظریاتی وابستگی، اور قومی حمیت کا علمبردار بن کر ابھرا۔ نوائے وقت نے نہ صرف تحریکِ آزادی کے جذبات کو مہمیز دی بلکہ قیامِ پاکستان کے بعد بھی قومی تشخص، نظریاتی استحکام، اور فکری آزادی کی شمع فروزاں رکھی۔
قائداعظم محمد علی جناح نے برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک مضبوط، دوٹوک اور غیر متزلزل آواز کی ناگزیریت کو محسوس کرتے ہوئے ایک ایسے موثر اور توانا پلیٹ فارم کا تصور پیش کیا، جو آل انڈیا مسلم لیگ کے نظریات کا پرچم بردار بنے اور انڈین نیشنل کانگریس کے بیبنیاد اور متعصبانہ پروپیگنڈے کا مدلل جواب دے۔ اسی فکری بصیرت کے زیرِ سایہ نوائے وقت ایک روشن مینار کی صورت ابھرا، جو برصغیر کے مسلمانوں کی آرزوئوں‘ جذبات اور قومی شعور کی ترجمانی کرنے لگا، اور ایک ناقابلِ تسخیر نظریاتی مورچے میں ڈھل گیا۔ قائداعظم کی غیر متزلزل حمایت اور حوصلہ افزائی نے صحافت کے اس چراغ کو مزید فروزاں کیا، اور نوائے وقت جیسے اخبارات کو جِلا بخشی، جنہوں نے اس دور کے فکری و سیاسی مباحثے کو نہ صرف تقویت دی بلکہ نئی جہت بھی عطا کی۔ یہ عظیم اشاعت محض ایک اخبار نہ تھی، بلکہ تحریکِ پاکستان کی فکری حرکیات کو متحرک کرنے والا ایک ناقابلِ تسخیر ہتھیار ثابت ہوئی، جس نے عوامی جذبات کو یکجا کیا، قومی شعور کی تشکیل کی، اور بالآخر پاکستان کے قیام کی راہ ہموار کی۔ یہی وہ میراث ہے جو آج بھی تاریخ کے صفحات میں زندہ و تابندہ ہے۔
نوائے وقت ہمیشہ قائداعظم محمد علی جناح کے نظریے کا ایک ناقابلِ تسخیر علمبردار رہا، اس امر کو یقینی بناتے ہوئے کہ تحریکِ پاکستان کی للکار پورے برصغیر میں کسی رکاوٹ یا مزاحمت کے بغیر گونجتی رہے۔ یہ محض ایک اخبار نہ تھا، بلکہ ایک عظیم فکری و نظریاتی محاذ تھا، جس نے عوامی مکالمے کو نہ صرف سنوارا بلکہ ان اصولوں کی حفاظت کا بیڑا بھی اٹھایا جن پر پاکستان کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ آج بھی مارچ کا مہینہ اپنی عظیم قومی و تاریخی معنویت کے ساتھ زندہ ہے، جو ہر گزرتے عہد کے ساتھ پاکستان کی شناخت اور تقدیر کو ایک نئی جہت عطا کرتا ہے۔ یہ مہینہ قوم کے غیر متزلزل عزم، اس کی جدوجہد اور فتوحات کا مظہر ہے، ایک ایسا استعارہ جو پاکستان کی روح میں ہمیشہ پیوست رہے گا۔ نوائے وقت کی بنیاد حمید نظامی جیسے عظیم صحافی نے اس وقت لاہور میں رکھی جب برصغیر ایک سیاسی ہلچل اور نظریاتی کشمکش کے بھنور میں تھا۔ یہ اخبار ایک سیاسی اور فکری تحریک کے طور پر ابھرا، جو نہ صرف برطانوی راج کے جبر کے خلاف تھا بلکہ مسلمانوں کے جائز حقوق، آزادی اور علیحدہ تشخص کی ترجمانی کا ناقابلِ تسخیر ہتھیار بن گیا۔ اس کی بے باک صحافت، غیر متزلزل نظریاتی وابستگی اور آزادی کی تڑپ نے اسے تحریکِ پاکستان کا ایک مرکزی ستون بنا دیا، اور آج بھی یہ اسی جوش، ولولے اور نظریاتی استقامت کے ساتھ زندہ ہے۔
نوائے وقت کا قیام محض ایک صحافتی اقدام نہ تھا، بلکہ ایک فکری و نظریاتی ضرورت تھی۔ ایک ایسی حکمتِ عملی جس کا مقصدمخالفانہ بیانیوں کو بینقاب کرنا تھا جو مسلمانوں کے جائز قومی و سیاسی حقوق کو دبانے کے درپے تھیں۔ یہ اخبار آل انڈیا مسلم لیگ کے نظریاتی محاذ کا ہراول دستہ بن کر سامنے آیا، ایک ایسا مضبوط پلیٹ فارم جس نے ان لاکھوں مسلمانوں کی ترجمانی کی جو ایک علیحدہ وطن کے خواب کو حقیقت میں ڈھالنے کے لیے کوشاں تھے۔ نوائے وقت نے اپنی جرأت مندانہ صحافت، بے خوف صداقت اور قومی عزم کے ساتھ ایک ایسا فکری و نظریاتی بیانیہ مرتب کیا جس نے تحریکِ پاکستان کو تقویت بخشی اور بالآخر قیامِ پاکستان کی راہ ہموار کی۔ پاکستان کے معزز ترین اور تاریخی اخبارات میں شمار ہونے والا روزنامہ نوائے وقت قومی صحافتی افق پر مرکزی ستون کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ اخبار نہ صرف پاکستان کی تاریخی جدوجہد کا شاہد ہے بلکہ تحریکِ آزادی سے لے کر موجودہ عہد کے چیلنجز تک ہر اہم لمحے کا امین رہا ہے۔ یہ ایک ایسا موقر صحافتی ادارہ ہے جو نہ صرف قومی تاریخ کا محافظ ہے، بلکہ اپنے بے لوث عزم کے ساتھ سچائی اور ان نظریاتی اصولوں کی پاسداری کرتا رہا ہے جن پر پاکستان کی بنیاد رکھی گئی۔ (جاری)

اپنے قیام کے اولین دن سے نوائے وقت نے خود کو حق گوئی، قومی حمیت اور نظریاتی استقامت کے ایک ناقابلِ تسخیر قلعے کے طور پر منوایا۔ اس نے مسلمانوں کے عزم و استقلال کو جِلا بخشی، انہیں ایک علیحدہ وطن کے قیام کے لیے یکجا کیا اور تحریکِ پاکستان کے فکری و سیاسی رخ کو مزید واضح کیا۔ اس کا بیباک صحافتی بیانیہ اور تحریکِ آزادی سے غیر متزلزل وابستگی بالآخر 1947ء میں پاکستان کے قیام پر منتج ہوئی۔  ایک ایسا تاریخی کارنامہ، جس میں نوائے وقت کا کردار ہمیشہ یادگار و زندہ جاوید رہے گا۔
تاہم، حمید نظامی کی درخشاں صحافتی بصیرت کو تقدیر نے وقت سے پہلے ہی محدود کر دیا۔ 25 فروری 1962ء کو جب وہ اس دنیا سے رخصت ہوئے، تو ان کے انتقال نے پاکستانی صحافت میں ایک ایسا خلا پیدا کر دیا جو ناقابلِ تلافی محسوس ہوتا تھا۔ مگر ان کی میراث ماند پڑنے کے لیے نہیں تھی۔ یہ ایک نئی آب و تاب کے ساتھ ان کے چھوٹے بھائی، مجید نظامی کی قیادت میں مزید فروغ پانے کے لیے تیار تھی۔ 13 اپریل 1928ء کو پیدا ہونے والے مجید نظامی عمر میں اپنے بھائی حمید نظامی سے تیرہ سال چھوٹے تھے، مگر ان کے اندر سچائی، حب الوطنی اور نظریاتی وابستگی کا وہی جوش و جذبہ موجزن تھا۔ انہوں نے اپنے بڑے بھائی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اعلیٰ تعلیم اسلامیہ کالج لاہور سے حاصل کی اور بعدازاں گورنمنٹ کالج لاہور سے سیاسیات میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ 1954ء میں وہ مزید علمی پیاس بجھانے کے لیے لندن روانہ ہوئے، جہاں انہوں نے قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ نوائے وقت کے سیاسی نامہ نگار کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔ دیارِ غیر سے ان کی تحریریں اور رپورٹس پاکستان کے فکری و سیاسی مکالمے کو مسلسل جِلا بخشتی رہیں، یوں نوائے وقت کی صحافتی ساکھ پاکستان سے لے کر عالمی سطح تک ایک موثر آواز کے طور پر قائم رہی۔ نوائے وقت کی قیادت سنبھالنے کا فیصلہ کن موڑ1962ء میں حمید نظامی کے سانحہ ارتحال کے بعد آیا جب مجید نظامی پر ایک عظیم ذمہ داری آن پڑی۔ وہ ایک غیر متزلزل عزم کے ساتھ پاکستان واپس لوٹے اور اپنے مرحوم بھائی کی نظریاتی اور صحافتی وراثت کو سنبھالنے کا بیڑا اٹھایا۔ بطور مدیرِ اعلیٰ ، انہوں نے اس عہد کی تجدید کی کہ نوائے وقت کی بنیاد جن نظریات پر رکھی گئی تھی، ان کی حفاظت میں کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ نوائے وقت کو ایک صحافتی ادارے سے میڈیا سلطنت تک لے جانامجید نظامی کی قیادت میں نوائے وقت ایک ناقابلِ تسخیر صحافتی قوت بن کر ابھرا۔ انہوں نے اس کی رسائی اور دائرہ کار کو مزید وسعت دی، اور اسے اردو صحافت تک محدود رکھنے کے بجائے انگریزی زبان میں بھی متعارف کرایا۔ روزنامہ Nation The کی اشاعت عمل میں آئی، جس نے عالمی سفارتی، سیاسی اور فکری حلقوں میں بھی اپنی پہچان بنائی۔ اس کے ساتھ ساتھ متعدد دیگر اشاعتی منصوبے اور ایک ٹیلی ویژن چینل بھی شروع کیا، جس نے نوائے وقت کو پاکستان کے میڈیا منظرنامے میں ایک ناقابلِ فراموش ستون بنا دیا۔ مجید نظامی صرف ایک مدیر نہیں، بلکہ پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کے ایک بیباک محافظ بھی تھے۔ انہوں نے ہمیشہ کشمیر کے مظلوم عوام کی آواز بلند کی اور پاکستان کے قومی مفادات کا زبردست دفاع کیا۔ ان کی تحریریں اور اداریے سیاسی جبر، قومی خودمختاری پر سودے بازی، اور غیر ملکی دبائو کے خلاف ایک مضبوط دیوار ثابت ہوتے رہے۔سیاسی حکمرانوں کے دبائو‘ دھمکیوں اور سختیوں کے باوجود مجید نظامی نے کبھی اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ وہ ہمیشہ غیرجانبدار، دوٹوک اور بیباک رہے، چاہے اس کی قیمت انہیں کسی بھی شکل میں چکانی پڑی۔ ان کا صحافتی مزاج خود مختار اور آزاد پاکستان کی علامت تھا، اور وہ ہر اس پالیسی کے خلاف کھڑے رہے جو قومی وقار سے متصادم تھی۔26 جولائی 2014ء کو مجید نظامی اس دنیا سے رخصت ہو گئے، مگر ان کا نام پاکستان کی صحافتی، فکری اور نظریاتی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔
 نظامی برادران نے اپنی بے مثال بصیرت، قربانی اور قائدانہ صلاحیتوں کے ذریعے نہ صرف پاکستان کی میڈیا انڈسٹری کو تشکیل دیا بلکہ قومی نظریاتی اساس کو بھی تقویت دی۔ نوائے وقت کی تاریخ ایک درخشاں یادگار ہے، جو اس کی نظریاتی استقامت، قومی خدمات اور صحافتی دیانت کی گواہ ہے۔ 1940ء سے لے کر آج تک، نوائے وقت نے صحافت کو محض خبر رسانی کا ذریعہ نہیں بنایا بلکہ ایک قومی فکری تحریک کے طور پر آگے بڑھایا ہے۔ ڈیجیٹل دور کے چیلنجز کے باوجود، نوائے وقت آج بھی اپنی غیر متزلزل صحافتی ساکھ کو برقرار رکھتے ہوئے پاکستان کے فکری و نظریاتی مستقبل کے لیے ایک مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ اخبار ہمیشہ سچائی، آزادی، قومی وقار اور صحافتی دیانت کے اصولوں پر قائم رہا ہے اور مستقبل میں بھی پاکستان کے نظریاتی و صحافتی استحکام کا ترجمان بنا رہے گا۔ رواں ماہ 23 مارچ کو نوائے وقت کی مسلسل اشاعت کے 85 برس مکمل ہو رہے ہیں اور اس ادارے کے لیئے یہ فخر کی بات ہے کہ آبرومندی والی نظریاتی صحافت کا جو پرچم حمید نظامی نے تھاما اور بلند کیا وہ مجید نظامی  نے اپنے مضبوط ہاتھوں سے مزید روشن اور مزید بلند کیا جبکہ نوائے وقت کے پلیٹ فارم پر اصولی نظریاتی صحافت کا یہ کٹھن سفر رمیزہ مجید نظامی نے اسی نیک جذبے کے ساتھ جاری رکھا ہوا ہے جسے چیف اپرٹنگ افسر نوائے وقت لیفٹیننٹ کرنل(ر) سید احمد ندیم قادری کی نوائے وقت کے اجرا سے متعلق قائداعظم کے فرمان کو نوائے وقت کی پیشانی کا حصہ بنانے کی صائب تجویز نے مزید تابناک بنا دیا ہے۔ خدا اس ادارے کوتعمیرِ ملک و ملت کے لیئے اسی طرح قائم اور جاری و ساری رکھے۔ آمین۔

عاطف محمود  ۔۔ مکتوب آئرلینڈ

ای پیپر دی نیشن