قلم زاریاں
محمد الطاف طاہر دومیلوی
altaftahir333@gmail.com
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ معاشی ترقی ہی سیاسی قوت واستحکام کی ضامن ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ معاشی لحاظ سے مستحکم خوشحال قوموں میں اخلاقی برائیاں کم ہوتی ہیں جو مفلس اور غریب قوموں کا ورثہ ہیں اسی لئے اسلام نے فقر وفاقہ کے خلاف باقاعدہ جہاد کا اعلان کیا ہے تاکہ وہ انسان کے عقیدہ ،اخلاق وکردارپر اثر انداز ہو کر کوئی خطرناک صورت حال پیدا نہ کر دے اس لئے اسلام نے یہ اہتمام کیا ہے کہ اسلامی ریاست کی حدود میں رہنے والے ہر انسان کی بنیادی ضروریات زندگی کی تکمیل کی جائے اور کوئی فرد ان ضروریات سے محروم نہ رہے ان میں غذا،لباس ،علاج اور تعلیم شامل ہیں لیکن صد افسوس یہ وطن عزیز میں غربت و افلاس نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا جا رہا ہے اس معاشی امتیاز سے کئی سوال جنم لے رہے ہیں اور حکومت کے لئے سوالیہ نشان بھی ہیں غریب کی زندگی دوبھر ہوتی جا رہی ہے اور مہنگائی نے رہی سہی کسر نکال دی اب تو سینکڑوں لاکھوں نہیں کروڑوں افراد بنیادی ضروریات زندگی سے محروم ہیں نہ غذا نہ لباس اور نہ تعلیم ان کے مقدر میں ہے حکومت کا یہ فرض ہے کہ وہ کسمپرسی میں زیست بسر کرنے والے افراد کی آہ و فغاں پر دھیان دے اور ان کو غربت وافلاس کے کنویں سے نکالے یہ پہلو بھی دل خراش ہے کہ کم سن بچے دکانوں ، کار خانوں ،فیکٹریوں،بٹھوں ہوٹلوں پر محنت مزدوری کر رہے ہیں قانون تو ہے لیکن اس کی گرفت فعال بنانے اس پر عملدرآمد کرانے کی ضرورت ہے بچوں کے حقوق زمام اقتدار پر براجمان اشرافیہ کے لئے توجہ طلب ہیں اسلام نے فقر و فاقہ کو ختم کرنے اور انفرادی قومی معیشت کے استحکام کی طرف بار بار توجہ مبذول کرائی ہے ارشاد ربانی ہے جب نماز ادا کر لی جائے تو زمین پر پھیل جاو¿ اور اللہ تعالیٰ کا فضل (روزی)تلاش کرو۔ ایک اور جگہ ارشاد ہے زمین میں غذاو¿ں کے خزانے رکھ دیئے چاردن میں جو مساوی ہیں تلاش اور جستجو کرنے والوں کے لئے
ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا فرائض کی ادائیگی کے بعد حلال رزق کمانا فرض ہے فجر کی نماز پڑھ کر طلب رزق سے غافل ہو کر سونہ رہو کچھ گناہ ایسے ہیں جو صرف غم روز گار سے دھلتے ہیں
قارئین فقہ وفاقہ اخلاق و کردار کے لئے خطرناک ہیں کہتے ہیں کہ معدے کی آواز ضمیر کی آواز سے زیادہ طاقت ور ہے ،امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں جس کے گھر میں آٹا نہ ہو اس سے مشورہ مت طلب کرو کیونکہ وہ شخص پریشان فکر ہوتا ہے اس کا فیصلہ ٹھیک نہیں ہو سکتا
فقر و فاقہ عائلی زندگی کی تشکیل میں بڑی رکاوٹ ہے اور تنگدستی بعض دفعہ میاں بیوی میں تفریق کا ذریعہ بن جاتا ہے عرب میں جاہلی دور میں والدین تنگ دستی کے ہاتھوں مجبور ہوکر اپنی اولاد کو مار ڈالتے تھے جس سے قرآن نے منع کیا ہے اسلام غربت اور افلاس کو لعنت سمجھتا ہے جس سے اسلامی معاشرے کا پاک ہونا ناگزیر ہے وطن عزیز میں غربت ایک اہم مسئلہ ہے ہم قرضوں میں جکڑے ہوئے ہیں ہمیں اپنے زرمبادلہ کا بیشتر حصہ قرضوں اور سود کی ادائیگی میں صرف کرنا پڑتا ہے اس کے باوجود ادائیگیوں کا توازن درست رکھنے کے لئے مزید قرض لینا پڑتا ہے اس سنگین صورت حال سے نکلنے کے لئے حکومت کو انقلابی معاشی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے حدیث مبارکہ میں ہے کہ فقرآدمی کو کفر کے قریب لا کھڑا کرتا ہے اس لئے حکومت کا فرض ہے کہ کہ وہ ہر شخص کو پیٹ بھر کر خوراک مہیا کی جائے عوام کو بھی چاہیے کہ محنت کو شعار بناکر اپنی ضروریات زندگی کو پورا کرنے کی کوشش کریں البتہ معذور غریب لوگوں کی ضروریات زندگی کو حکومت پورا کرے وطن عزیز اس وقت بیرونی قرضوں میں جکڑا ہوا ہے اور معاشی مسائل بڑھتے جا رہے ہیں ہماری قومی معیشت کو سمگلنگ ،،سٹہ بازی،زخیرہ اندوزی ،اور کاروباری بدیانتی جیسی بیماریاں گھن کی طرح کھا رہی ہیں ان بیماریوں کی روک تھام وقت کی ضرورت ہے ان اقتصادی مسائل کا حل اسلامی نظام کے ذریعے ممکن ہے آج اگر اقتصادی نظام کو اسلامی نظام کے سانچے میں ڈھال دیا جائے تو اللہ تعالیٰ کا ہم سے وعدہ ہے کہ وہ آسمان وزمین سے رحمتوں اور برکتوں کے دروازے کھول دیے گا اللہ تعالیٰ کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتا ہمارے جملہ مسائل کا ادراک اسلامی نظام میں ہے ملک وقوم کی ترقی خوشحالی کے لئے معاشی ،تعلیمی بنکاری اور تمام شعبوں کو اسلامی اصولوں کے مطابق ڈھالنا ہو گا یہی۔وقت کی آواز ہے اور وقت کا تقاضا ہے