وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں مخلوط حکومت نے اپنے اقتدار کا ایک سال مکمل کرلیا ہے اور حکومت نے اس عرصے میں مہنگائی میں نمایاں کمی، برآمدات اور ترسیلات زر میں اضافے سمیت معاشی اشاریوں کی نوید دی ہے ۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مہنگائی کی شرح 28 فیصد سے کم ہوکر ساڑھے نو سال کی کم ترین سطح 1.5 فیصد تک پہنچ گئی جبکہ برآمدات، ترسیلات زر اور سرمایہ کاری میں اضافہ بھی ریکارڈ کیا گیا۔منگل کو حکومت کے ایک سال مکمل ہونے پر وفاقی کابینہ کے خصوصی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم محمد شہباز شریف نے 2029ء تک ملکی برآمدات 60 ارب ڈالر تک بڑھانے، 2035ء کے وژن کے تحت ملک کو ایک ٹریلین کی معیشت بنانے اور قرضوں سے جان چھڑانے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم 9 مئی والے نہیں 28 مئی والے ہیں۔ملک سے ضد، نفرت، گالم گلوچ اور احتجاج کی سیاست کو دفن کرنا ہو گا۔وفاقی حکومت کے ایک سال مکمل ہونے پر تاریخ میں پہلی مرتبہ کابینہ کے خصوصی اجلاس کی کارروائی نشر کر کے ایک سال کی کارکردگی عوام کے سامنے پیش کی گئی ہے۔ اجلاس میں متعلقہ وزراء نے اپنی اپنی وزارت اور دیگر شعبوں کی ایک سالہ کارکردگی پر رپورٹ پیش کی۔ خصوصی اجلاس میں زندگی کے مختلف شعبوں بشمول کاروباری حضرات، چیمبرز کے نمائندگان، صحافیوں، خواتین، طالب علموں اور دیگر شعبوں سے شہریوں کو مدعو کیا گیا تاکہ وہ اجلاس کا خود مشاہدہ کریں اور پچھلے ایک سال میں حکومتی اقدامات اور مستقبل کے لائحہ عمل سے آگاہ ہوں۔اس موقع پروزیراعظم نے بتایا کہ اس بار رمضان پیکیج کے تحت 40 لاکھ خاندانوں میں پانچ، پانچ ہزار روپے تقسیم کئے جائیں گے۔آج غزہ میں جنگ بندی کے باوجود امداد اور خوراک کو بند کرنے سے بڑا کوئی ظلم ہو نہیں سکتا۔ہمیںپاکستان کواقوام عالم میں کھویا ہوا مقام واپس دلانا ہے اور اپنے قائد نواز شریف کی قیادت میں پاکستان کو ترقی یافتہ ملک بنائیں گے۔دہشت گردی کا خاتمہ کئے بغیر ترقی و خوشحالی کایہ سفر جاری نہیں رہ سکتا۔ وزیر اعظم نے واضح کیا موجودہ حکومت کو برسر اقتدار آئے ایک سال ہو گیا ہے، 4 مارچ 2024ء کو ہم نے حکومت سنبھالی تھی۔وزیراعظم نے کہا کہ ایک سال پہلے ہماری معیشت ہچکولے کھا رہی تھی اور ڈیفالٹ کے قریب پہنچ چکی تھی، ہم نے بروقت اقدامات سے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچالیا ہے۔ جب آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات ہو رہے تھے تو آئی ایم ایف کو اپوزیشن کی جانب سے خطوط لکھے جا رہے تھے کہ پاکستان کیلئے پروگرام منظور نہ کیا جائے، اس سے بڑی ملک دشمنی کوئی نہیں ہو سکتی، آج ہم نا صرف ڈیفالٹ سے نکل آئے ہیں بلکہ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور تمام عالمی ادارے کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کے میکرو اقتصادی اشاریے استحکام کی سمت میں گامزن ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ حکومت ملک و قوم کی بہتری کیلئے کوشاں ہے، اپنے قائد میاں محمد نواز شریف اور پی ڈی ایم کے دور کے اپنے اتحادیوں کے بھی شکرگزار ہیں اس کے علاوہ موجودہ اتحادیوں صدر آصف علی زرداری، بلاول بھٹو زرداری، چوہدری شجاعت حسین، چوہدری سالک حسین، ایم کیو ایم، باب پارٹی، ڈاکٹر عبدالمالک کی جماعت اور استحکام پاکستان پارٹی کے سربراہ عبدالعلیم خان کی ہمیں بھرپور حمایت حاصل ہے۔ ان کے تعاون سے ہم نے مشکل ترین مراحل عبور کئے ہیں۔وزیراعظم نے کہا کہ آئی ایم ایف کے پروگرام کو مکمل کرنے کیلئے وفاقی وزراء اور سرکاری افسران نے دن رات محنت کی ہے، آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت پانچ ارب ڈالر کے انتظام کیلئے دوست ممالک نے ہمارے ساتھ بھرپور تعاون کیا ہے، آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے بھی معاشی بہتری کیلئے بھرپور کردار ادا کیا ہے اور ہم نے اس سلسلہ میں دوست ممالک کے دورے بھی کئے وزیراعظم نے کہا کہ کچھ دن پہلے ہی سعودی عرب نے ہماری 1.2 ارب ڈالر کی تیل کی سہولت میں توسیع کی ہے، یو اے ای کے صدر محمد بن زید النہیان نے بھی 2 ارب ڈالر رول اوور کر دیئے ہیں۔ وزیراعظم نے بتایا کہ 2018ء میں اسحاق ڈار جب وزیر خزانہ تھے تو اس وقت افراط زر کی شرح 3.1 فیصد تھی، اب وہ نائب وزیراعظم ہیں اور افراط زر کی شرح 1.6 فیصد پر آ گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ بھرپور محنت اور ٹیم ورک ہی وہ فارمولا ہے جس سے ہم ملک کو ترقی کے راستے پر ڈال سکتے ہیں، ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کی بجائے ملکی ترقی کیلئے مل کر کام کرنا ہو گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر جو ایک سال پہلے چار ارب ڈالر تھے اب 12 ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں، اسی طرح پالیسی ریٹ یعنی سود کی شرح 22 فیصد سے کم ہو کر 12 فیصد پر آ گیا ہے، اس میں مزید کمی کی گنجائش ہے۔ برآمدات میں اضافہ ہو رہا ہے، آئی ٹی برآمدات اور ترسیلات زر میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ ایک سال میں اپوزیشن کوئی جھوٹا سکینڈل بھی حکومت کے خلاف سامنے نہیں لا سکی۔ اس سے بڑی ہماری اور کامیابی کیا ہو سکتی ہے، ایک سال میں حکومت کے خلاف کرپشن کا ایک کیس بھی سامنے نہیں آیا، اس پر ا? تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کریں وہ کام ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ترقی اور خوشحالی کے سفر میں اب مزید تیزی آئے گی، تبھی اڑان پاکستان بنے گا جب ملک سے خوارج کا مکمل خاتمہ ہو گا، سکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران اور جوان قیام امن کیلئے ناقابل فراموش قربانیاں دے رہے ہیں۔
وزیر شہباز شریف نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ قربانیوں کی ایک لازوال داستان ہے، دہشت گردی کا خاتمہ کئے بغیر ترقی و خوشحالی کا سفر جاری نہیں رہ سکتا، دہشت گردی کا خاتمہ ہو گا تو ملک میں سرمایہ کاری آئے گی، پاکستان اقوام عالم میں کھویا ہوا مقام حاصل کرکے رہے گا، یہ مشکل ہے لیکن ناممکن نہیں، ہمیں دن رات محنت کرنا ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنی آمدنی بڑھانا ہو گی، سرمایہ کاری ملک میں لانا ہو گی اور قرضوں سے جان چھڑانا ہو گی۔کاروبار میں آسانیاں پیدا کرنے کے لئے بھی کاوشیں جاری ہیں، اگر ملک کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنا ہے تو بہانے اور جادو ٹونے نہیں چلیں گے، صرف اور صرف کام کرنا ہو گا۔ ہم9 مئی کے حملوں کے حصے دار نہیں، ہم 28 مئی والے ہیں، جب قائد نواز شریف نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنایا تھا۔اس موقع پر نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ محمد اسحاق ڈار نے کہا کہ موجودہ حکومت نے جب اقتدار سنبھالا تو کئی چیلنجز درپیش تھے، اپریل 2022ء میں ملکی معیشت عالمی درجہ بندی میں 47 ویں پوزیشن پر آ گئی تھی، وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں پاکستان نے کامیابیاں حاصل کیں ، ایس سی او کا کامیاب انعقاد پاکستان کی بڑی کامیابی ہے۔ دسمبرکے اختتام تک جی ڈی پی کے تناسب سے محصولات کی شرح کے حوالہ سے آئی ایم ایف کے مقررہ ہدف سے زیادہ ہدف حاصل کرلیں گے۔
وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال نے کہا کہ اڑان پاکستان منصوبے پر پوری دلچسپی سے کام کیا جا رہا ہے، سی پیک منصوبہ کی وجہ سے ملک میں بیرونی سرمایہ کاری آئی، سی پیک کے دوسرا مرحلے پر کام شروع ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم حکومت نے ملک کو ڈیفالٹ سے بچایااحسن اقبال نے کہا کہ 2018 میں سی پیک کے منصوبے کو شدید نقصان پہنچایا گیا، 2018 میں اگر ہمیں نہ روکا جاتا تو آج ہم بڑی معیشتوں میں شامل ہوتے۔دوسری جانب ماہرین کا خیال ہے کہ گزشتہ ایک سال میں اگرچہ سرکاری اعداد و شمار میں بہتری نظر آتی ہے لیکن ناقص پالیسیوں کے باعث ملکی معیشت عالمی مالیاتی اداروں کے شکنجے میں پھنسنے کے حوالے سے بھی شدید تحفظات رکھتے ہیں۔کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر حکومت کو 5 سال مکمل کرنے کی مہلت ملتی ہے تو ملک میں نا صرف معاشی صورتحال بہتر ہوگی بلکہ۔اسکے ثمرات نیچے عوام تک بھی واضح نظر آئیں گے۔