برطانیہ: گزشتہ 15 سال میں 170 سے زائد مائیں اپنے بیٹوں کے ہاتھوں قتل

ماں جسے ہر سوسائٹی میں اہم ترین رتبہ دیا گیا ہے اور برطانیہ میں بھی ماؤں کی عزت، احترام و تقدس کے درس دیے جاتے ہیں مگر ایک چشم کشا رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ برطانیہ میں گزشتہ 15 برسوں میں 170 سے زائد مائیں اپنے بیٹوں کے ہاتھوں قتل ہو چکی ہیں۔ 

اسی طرح دیگر قابلِ احترام رشتے داروں کے ہاتھوں بھی خواتین کے ساتھ بہیمانہ سلوک کیا گیا۔

یہ اعداد و شمار اس وقت مردوں کے ہاتھوں ہلاک ہونے والی تمام 10 میں سے تقریباً ایک عورت کی نمائندگی کرتا ہے جس سے اس نوعیت کے قتل کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے حکومتی کارروائی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے

رپورٹ کا عنوان ’2,000 خواتین‘ ہے جس کا فیم سائیڈ سنسس اور گارڈین کے ذریعے جائزہ لیا گیا ہے، یہ رپورٹ ماؤں کے ان کے بچوں کے ہاتھوں مارے جانے کے پوشیدہ مسئلے کو اجاگر کرتی ہے۔

رپورٹ میں 2009ء سے لے کر اب تک مردوں کے ہاتھوں قتل ہونے والی 2,000 خواتین کی اموات کا تجزیہ کیا گیا ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس طرح کے قتل کے 58 فیصد واقعات میں دماغی صحت کے مسائل بھی ایک عنصر تھے۔

مہم گروپ کی شریک بانی کیرن انگالا اسمتھ نے زور دیا ہے کہ مائیں اکثر نظامی ناکامیوں کا خمیازہ برداشت کرتی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ میں نے نوٹ کیا کہ ماؤں کے خلاف مردانہ تشدد ایک بڑی حد تک غیر تسلیم شدہ لیکن سفاکانہ حقیقت ہے، یہ وہ خواتین ہیں جو ماری گئی ہیں لیکن اور بھی بہت سی چھپی ہوئی متاثرین بالکل بدحالی میں زندگی گزار رہی ہیں۔

 ماہرین نے ان ہلاکتوں میں کردار ادا کرنے والے کئی عوامل کا حوالہ دیا ہے جن میں دماغی صحت کے مسائل اور منشیات کا استعمال بھی شامل ہے۔

 بہت سے بالغ بچے سستی رہائش کی کمی کی وجہ سے اپنے والدین کے ساتھ طویل عرصے تک رہ رہے ہیں جو تناؤ کو بڑھا سکتا ہے، بدگمانی بھی ایک عنصر ہے۔ 

 کچھ بچے اپنی ماؤں کو تشدد کے اظہار کے لیے ’محفوظ جگہ‘ کے طور پر دیکھ سکتے ہیں

ای پیپر دی نیشن