بچوں کا مستقبل: سوشل میڈیا یا تکنیکی ہنر؟

پاکستان میں نوجوانوں کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے، جس میں 30 سال سے کم عمر کی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔ یہ نوجوان نسل سوشل میڈیا کی ہر جگہ موجودگی سے متاثر ہو رہی ہے، جہاں ٹک ٹاک، انسٹاگرام، اور یوٹیوب جیسے پلیٹ فارم ہر کسی کو اپنی طرف کھینچ رہے ہیں۔ ہر طرف بچے اور نوجوان اس کوشش میں ہیں کہ کسی طرح سوشل میڈیا پر وائرل ہو کر شہرت حاصل کی جائے۔ فوری شہرت اور غیر ملکی کرنسی میں معاوضہ ایک ایسی ثقافت کو جنم دے رہا ہے جہاں بچے اور نوجوان وائرل ہونے کے چکروں میں مزید بے ہودہ کرتبوں اور چیلنجز میں مشغول ہونے پر مجبور ہیں۔ ان کی یہ کوششیں، چاہے جائز ہوں یا ناجائز، ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہیں کہ کیا واقعی یہ ان کی زندگیوں کا مقصد ہونا چاہیے؟ حقیقت یہ ہے کہ بچے اپنی عمر کے بہترین حصے کو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے چکر میں ضائع کر رہے ہیں، اور اس دوران کوئی مہارت یا ہنر نہیں سیکھ رہے۔ بہت سے نوجوان اپنی تعلیم اور قیمتی وقت کو ان کاموں میں ضائع کر رہے ہیں تاکہ وہ ایسے مواد تخلیق کر سکیں جو ناظرین کی پسندیدگی حاصل کر سکے۔ زندگی بھر کام آنے والی قیمتی مہارتیں سیکھنے کے بجائے، نوجوان نسل سوشل میڈیا پر اپنی موجودگی کو بہتر بنانے میں گھنٹوں صرف کر رہے ہیں۔ یہ غلط توجہ نہ صرف ان کی تعلیمی کوششوں میں رکاوٹ بنتی ہے بلکہ ان کی جذباتی اور سماجی بہتری کی راہ میں بھی رکاوٹ بن جاتی ہے۔
سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کی دوڑ ایک ایسی دوڑ ہے جہاں کامیابی کی امید بہت کم ہوتی ہے، اور اکثر نوجوان بغیر کسی ہنر کے محض وائرل ہونے کی کوشش میں جْت جاتے ہیں۔ افسوسناک طور پر، پاکستان میں متعدد ایسے واقعات پیش آئے ہیں جہاں نوجوان وائرل مواد تخلیق کرنے کی کوشش میں اپنی جانیں کھو بیٹھے ہیں۔ یہ واقعات اس بے فکرانہ آن لائن شہرت کے حصول کے خطرات کی واضح مثال ہیں۔ جو بچے زیادہ وقت آن لائن گزارتے ہیں، ان کے لیے حقیقی دنیا میں بامعنی تعلقات قائم کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ وہ لائکس اور شیئرز کے ذریعے اپنی بات یا حرکات کی توثیق کے ایک ایسے چکر میں پھنس جاتے ہیں، جہاں وہ اکثر اضطرابی کیفیت اور ڈپریشن تک کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ، کچھ نوجوان بچے بچیاں سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے چکروں میں بے حیائی کی طرف نکل جاتے ہیں، جو کہ ہمارے معاشرتی اور اخلاقی اقدار کے خلاف ہے۔ اور اگر ہم نے اس کا بروقت نوٹس نہ لیا تو یہ ہمارے معاشرے کے لیے ایک خطرناک پیشرفت ثابت ہو سکتی ہے۔ سوشل میڈیا پر کامیاب ہونے کے خواب دیکھنے والے بچوں کے لیے یہ حقیقت تلخ ہے کہ اگر آج ہی سوشل میڈیا بند ہو جائے تو ان کے پاس کرنے کے لیے کیا ہنر ہوگا؟ کیا وہ اپنی زندگی کے اہم شعبوں میں کامیاب ہو پائیں گے؟
بہت سے بچے ایسی مہارتیں سیکھنے کے بجائے، جو انہیں بہترین کیریئر کی طرف لے جا سکتی ہیں، صرف ویڈیوز اور فالورز کے گرداب میں پھنسے رہ جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ روزگار کی مارکیٹ ایسے اہل افراد کی طلب کرتی ہے جو مختلف صنعتوں کی ترقی پذیر ضروریات کے مطابق ڈھل سکیں۔ یہی وہ وقت ہے جہاں حکومت اور والدین کو مداخلت کرنے کی ضرورت ہے۔ والدین اپنے بچوں کو ڈیجیٹل دنیا کی پیچیدگیوں کے حوالے سے رہنمائی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی نگرانی کریں اور انہیں سوشل میڈیا کے استعمال کی حدود مقرر کریں۔ ضروری ہے کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ وقتا فوقتا سوشل میڈیا کے ممکنہ خطرات کے بارے میں کھل کر بات چیت کریں۔ سوشل میڈیا پر بے شمار گھنٹے گزارنے کی اجازت دینے کے بجائے، والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کو غیر نصابی سرگرمیوں، کھیلوں، اور تعلیمی پروگراموں میں شرکت کی ترغیب دیں۔ 
نوجوانوں پر سوشل میڈیا کے اثرات کے چیلنجز کا سامنا کرنے میں حکومت کو ایک اہم کردار ادا کرنا ہو گا۔ بچوں کو نقصان دہ آن لائن مواد سے بچانے اور ڈیجیٹل تعلیم کے لیے وسائل فراہم کرنے کے لیے پالیسیوں کی فوری ضرورت ہے۔  حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسے قوانین بنائے جو سوشل میڈیا کے استعمال کو منظم کریں، تاکہ بچے اس کے منفی اثرات سے محفوظ رہ سکیں۔ سکولز اور کمیونٹیز میں تکنیکی مہارات میں بہتری لانے والے اقدامات نوجوانوں کو ایسے کیریئر کے حصول کے لیے راستے فراہم کر سکتے ہیں جو صرف سوشل میڈیا کی شہرت کے حصول کی تگ ودو پر منحصر نہ ہوں۔ اس کے علاوہ، حکومت کو والدین، اساتذہ، اور ماہر نفسیات کے ساتھ مل کر آگاہی مہمات ترتیب دینی چاہئیں جو متوازن ڈیجیٹل مشغولیت کی اہمیت کو اجاگر کریں۔ بچوں کو عملی تجربات، انٹرنشپ، اور مہارت سازی کی سرگرمیوں میں مشغول ہونے کی ترغیب دینے کی ضرورت ہے۔ تعلیم، پیشہ ورانہ تربیت، اور عملی مہارتوں کی اہمیت کو اجاگر کرکے، ہم اپنی نسل کو مستقبل میں پائیدار کیریئر کی طرف رہنمائی کر سکتے ہیں۔
سوشل میڈیا ایک ایسا آلہ ہے جو تخلیقی صلاحیتوں اور روابط کو فروغ دینے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ تاہم، اس کا استعمال ہمارے بچوں کے مستقبل کی کامیابی کی قیمت پر نہیں ہونا چاہیے۔  بچوں کی عمر سیکھنے اور سمجھنے کی ہوتی ہے، مگر وہ اس قیمتی وقت کو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کی جستجو میں ضائع کر رہے ہیں۔ اس دوڑ میں زیادہ تر بچے اپنی تعلیم اور ترقی کے مواقع کھو رہے ہیں، کیونکہ وہ حقیقی دنیا میں ہنر سیکھنے کی بجائے ایک غیر یقینی اور عارضی شہرت کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ ہمیں اپنے بچوں کو یہ سکھانا ہو گا کہ سوشل میڈیا پر وائرل ہونا کوئی حقیقی کامیابی نہیں ہے۔ حقیقی کامیابی اس بات میں ہے کہ آپ اپنی تعلیم پر توجہ دیں، ہنر سیکھیں اور مثبت سوچ کے ساتھ آگے بڑھیں۔ ایک قوم کے طور پر، ہمیں ایک مؤقف اپنانا ہوگا اور یہ یقینی بنانا ہوگا کہ ہماری نوجوان نسل ایسی مہارتیں سیکھ رہی ہیں جن کی انہیں ایک تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں کامیاب ہونے کے لیے ضرورت ہے۔

ای پیپر دی نیشن