بڑی ریاست چھوٹی سوچ

ساعتیں بدلیں تو پِیر فلک بھی رنگ بدلنے میں ذرا دیر نہیں لگاتا۔ کل تک بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی جو خود کو امریکی صدور کی آنکھوں کا تارا ہونے کا دعویٰ کرکے فخر و اِنبِساط سے پھولے نہیں سماتے تھے، آج ملکی، علاقائی اور عالمی سطح پر کافی حد تک تَجرد و عْزلت کا شکار ہیں۔ نام نہاد عقلِ کل کو عذابِ تنہائی نے کتنا گھائل کیا ہوگا یہ نیم بسمل مودی ہی بتا سکتے ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور پانچویں معاشی قوت ہونے کی دعوے دار بھارتی حکومت کو حسبِ سابق سفارتی اور اخلاقی سطح پر وہ پذیرائی نہیں مل سکی جس کو اْس نے آرٹیکل 370 ختم کرتے وقت انجوائے کیا تھا۔ جس امریکی صدر پر حکومت ہند بہت زیادہ تکیہ کئے ہوئے تھی، اْس نے پاکستان اور بھارت دونوں کو اپنا دوست قرار دے دیا ہے۔ یورپی ممالک کے سفراء کو جو بریفنگ دی گئی تھی، اْس کو ثبوت نہ ملنے کی وجہ سے دَرخورِ اِعتنا نہیں سمجھا گیا۔ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے ٹیلیفون پر پاکستانی وزیراعظم اور بھارتی وزیر خارجہ سے مسئلے کا ایسا حل نکالنے پر زور دیا ہے جس سے طویل مدتی امن اور علاقائی استحکام برقرار رہے۔ تاہم وہ دہشت گردی کے خلاف انڈیا کے ساتھ تعاون کے لیے امریکی عزم کا اعادہ کرنا بھی نہیں بھولے۔ 
اندرون بھارت بھی کمزور حکومتی موقف پر کھل کر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ بھارت میں کانگریسی رہنما وجے ووتیوار نے مودی کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے پوچھا ہے کہ ’’پہلگام واقعہ کی ذمہ داری کس کی ہے؟ یہ ذمہ داری تو آپ کو لینی ہوگی۔ حملہ آور 200 کلومیٹر اندر تک گھس آئے‘ انٹیلی جنس کیا کر رہی تھی؟‘‘ معروف صحافی اور ماہرِ امورِ کشمیر انورادھا بھسین سے جب پہلگام واقعہ پر بی بی سی نے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ ’’یہ واقعہ دنیا کے سب سے زیادہ ملٹرائزڈ زون میں پیش آیا ہے اس لیے بڑے سوالات اٹھتے ہیں‘‘ انھوں نے حکومتِ وقت سے یہ سوال کیا کہ ’’حملے کے چند لمحے بعد ہی مبینہ حملہ آوروں کے نام کیسے منظرِ عام پر آئے؟‘‘ ایک اور سوال تھا، ’’اگرچہ سکیورٹی فورسز کو جائے وقوعہ تک پہنچنے میں وقت لگا مگر دوسری جانب چند ہی منٹوں میں اْنکے پاس حملہ آوروں کی تصاویر موجود تھیں۔ وہ اس نتیجے پر کیسے پہنچے"؟ انہوں نے مزید کہا کہ "یہ تحقیقات زیادہ قابل اعتبار نہیں لگتیں۔ ایسے واقعات کی ایک تاریخ رہی ہے جن کی تحقیقات پر سوالیہ نشان لگے ہیں"۔ 
 بھوجپوری گلوکارہ اور سماجی شعور کی علمبردار نیہا سنگھ راٹھور کے خلاف ایک ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ نیہا پر سوشل میڈیا کے توسط سے ایک ’قابل اعتراض‘ پوسٹ کے ذریعے مودی حکومت پر تنقید کرنے کا الزام ہے جس میں نیہا نے 1989ء سے لیکر 2025ء  تک ہونے والے گیارہ دہشت گرد حملوں کو زیرِ بحث لاتے ہوئے پوچھا ہے کہ اِس طرح کے واقعات آخر بھارتیہ جنتا پارٹی کے دور حکومت میں ہی کیوں سرزد ہوتے ہیں؟ انہوں نے اس طرح کے واقعات کو حکومت کی انٹیلی جنس اور سکیورٹی کی ناکامی قرار دیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ وزیر اعظم نریندر مودی اب بہار میں پہلگام حملے کے متاثرین کے نام پر ووٹ مانگیں گے جیسا کہ انہوں نے مبینہ طور پر 2019ء کے پلوامہ حملے کے بعد کیا تھا۔ 
پاکستان کی بات کریں تو پتہ چلتا ہے کہ کچے دھاگوں سی بْنی کمزور اور ڈھیلی ڈھالی حکومت نے اِس نازک موقع پر بہت اچھا پرفارم کیا ہے۔ پہلے واقعہ پہلگام کی واضح الفاظ میں مذمت کی۔ ساتھ ہی وزیراعظم پاکستان نے مذکورہ واقعہ کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کیلئے تین چار ممالک پر مشتمل ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دینے کی تجویز بھی پیش کر دی جس کو عالمی سطح پر بہت سراہا گیا۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایک قدم اور بڑھاتے ہوئے پہلگام واقعہ کی تحقیقات کیلئے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے ممبران پر مشتمل کمیشن بنانے کی تجویز دے کر گیند کو مکمل طور پر بھارت کی کورٹ میں پھینک دیا ہے۔ اب اگر بھارت اس انتہائی معقول تجویز کو بھی قبول کرنے سے عاری ہے تو پھر بقول خواجہ آصف یہی کہا جا سکتا ہے کہ ’انڈیا تحقیقات کی پیشکش اس لیے قبول نہیں کر رہا کہ کہیں اسکے پیچھے کچھ اور نہ نکل آئے۔‘ 
مودی سرکار کی کوشش کے باوجود بھارتی فضا اْس کی خواہش کے عین مطابق پاکستان کے خلاف مہم جوئی کیلئے تیار نہیں ہو سکی۔ الٹا مشرقی پنجاب میں وال چاکنگ کے ذریعے سکھ فوجیوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف نہ لڑیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ 2025ء میں بھارت کی ہندو انتہا پسند جماعت آر ایس ایس کے سو سال مکمل ہو رہے ہیں تو اس سال مودی کوئی قابلِ ستائش کارنامہ سر انجام دے کر تاریخ ہند میں اپنا نام امر کرانا چاہ رہے ہیں۔ ایک اور اہم سوال جو بھارت سے باہر بھی ہر خاص و عام کے ذہن میں جنم لے رہا ہے کہ ایسا واقعہ امریکی صدر یا نائب صدر کے بھارتی دورے کے موقع پر ہی کیوں ہوتا ہے؟ بین الاقوامی برادری معاملات کو تحقیقات اور مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر زور دے رہی ہے۔ بھارتی توقع کیخلاف پاکستانی قوم شدید سیاسی مخاصمات کے باوجود اس نازک وقت میں یک جان و یک زبان ہو گئی ہے۔ جنگوں کی تباہ کاریوں سے ناآشنا اور بے نیاز پاکستان کا نوجوان طبقہ جنگ کے ممکنہ شعلوں سے خوفزدہ ہونے کی بجائے سوشل میڈیا پر میمز بنانے میں مصروف اور جنگ شروع ہونے کا منتظر ہے۔ جیسے جنگ، جنگ نہ ہو، بچوں کا کھیل ہو۔ 
عسکری لحاظ سے بین الاقوامی سطح پر ترتیب دئیے گئے تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق 145 ممالک کی درجہ بندی میں بھارت دنیا میں چوتھے نمبر پر جبکہ پاکستان بارہویں نمبر پر آتا ہے۔ 2024ء میں پاکستان کے مقابلے میں بھارت نے اپنے دفاع پر نو گنا زیادہ رقم خرچ کی۔ تاہم انڈیا کی بحری اور زمینی محاذوں پر برتری کا فرق فضائی محاذ پر نسبتاً کم ہے اور جوہری وار ہیڈز کے اعتبار سے پاکستان اور بھارت ہم پلہ ہیں۔ پاکستانی قوم معاشی مفلوک الحالی، سیاسی ابتری اور پاک و ہند میں عسکری طاقت کے واضح عدم توازن کے باوجود ڈرنے یا جھکنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ یہی چیز بھارت کو بری طرح کھٹکتی ہے اور شاید کسی بڑی مہم جوئی سے باز رکھنے کا باعث بھی ہے۔ ہمیں اپنے جملہ اقسام معاملات سلجھا کر اپنے گھوڑے ہمہ وقت تیار رکھنے چاہئیں تاکہ کوئی ہمیں ترنوالا نہ سمجھ بیٹھے۔ بین الاقوامی دباؤ یا کسی اور وجہ سے جنگ ٹل بھی گئی تو بھی یہ خدشہ موجود ہے کہ مودی جی کوئی نہ کوئی کھیل ضرور کھیلیں گے۔
گھٹن زدہ ماحول میں اَز راہِ تفنن سوشل میڈیا پر پاکستانی صارفین کے بعض دلچسپ فقرے ملاحظہ فرمائیں:
جب تک امریکی حکومت اپنے شہریوں کو ملک چھوڑنے کی ہدایت نہیں کرتی تب تک جنگ کا کوئی امکان نہیں ہے۔
جنگ کی صورت میں نان فائلرز کو اگلے مورچوں پر بھیجنے کا حتمی حکومتی فیصلہ۔
امریکہ نے انڈیا کو دھمکی دی ہے کہ اگر پاکستان کو کچھ ہوا تو اْس کا قرضہ انڈیا کو ادا کرنا پڑے گا۔ 
سندھ اور پنجاب کے درمیان جاری پانی کا مسئلہ انڈیا نے سندھ طاس معاہدہ ختم کر کے حل کر دیا۔… نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری!!
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن