سفینہ سلیم
آج کل ہم جس معاشرتی ماحول میں زندگی گزار رہے ہیں، اس میں ایک عجیب سی خاموشی اور بے چینی محسوس ہوتی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بہت ساری چیزیں جو ہم کرتے ہیں یا جو معاشرت میں رائج ہو چکی ہیں، وہ درست نہیں ہیں، پھر بھی ہم انہیں معمول کی بات سمجھ کر اپنانے لگے ہیں۔ لوگ جانتے ہیں کہ کچھ غلط ہے، مگر پھر بھی وہ اسے کرتے ہیں، اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ معاشرتی تانے بانے میں دراڑیں آ رہی ہیں۔ اس کا سب سے بڑا اثر ہماری اخلاقی بنیادوں پر پڑ رہا ہے، کیونکہ جب انسان اپنے روزمرہ کے فیصلوں میں اچھائی کو پسِ پشت ڈال کر بْرائی کو اپنا لیتا ہے، تو اس سے معاشرے میں ایک ایسی فضا جنم لیتی ہے جہاں قانون، انصاف اور اخلاقی حدود محض الفاظ بن کر رہ جاتے ہیں۔
ہم سب جانتے ہیں کہ بہت ساری چیزیں غلط ہیں، جیسے کہ جھوٹ بولنا، دھوکہ دینا، اور بدعنوانی کرنا۔ یہ سب ایسی باتیں ہیں جنہیں اکثر ہم اپنی روزمرہ کی زندگی میں دیکھتے ہیں۔ ہم نے ان تمام چیزوں کو معمول بنا لیا ہے، اور ان کا کوئی نہ کوئی جواز تلاش کرتے ہیں۔ اس بات سے انکار نہیں کہ غلط کام کرنے کا نتیجہ ہمیشہ منفی ہوتا ہے، لیکن اس کے باوجود لوگ انہیں کرنے سے نہیں کتراتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے ضمیر کو اتنا دبا لیا ہے کہ ان غلطیوں کو چھپانا اور نظرانداز کرنا ہم سب کے لیے آسان ہو گیا ہے۔ اس رویے کے نتیجے میں، ہماری معاشرت میں جھوٹ اور دھوکہ دہی کے دروازے کھل گئے ہیں، اور جب معاشرے میں ہر طرف بے ایمانی اور عدم اعتماد بڑھتا ہے، تو فرد کے اندر بھی ایک طرح کی بے گْوریت پیدا ہوتی ہے۔
ہماری معاشرت میں بدعنوانی کا مسئلہ دن بہ دن بڑھ رہا ہے۔ مختلف شعبوں میں، چاہے وہ سیاست ہو، تعلیم ہو یا کاروبار، بدعنوانی اپنے پنجے گاڑھ چکی ہے۔ لوگ جانتے ہیں کہ یہ غلط ہے، مگر پھر بھی اس کا حصہ بنتے ہیں۔ کرپشن کی وجہ سے عوام کا اعتماد حکومت اور اداروں سے اْٹھ رہا ہے۔ یہ ایک ایسی بیماری ہے جو پورے معاشرتی ڈھانچے کو کھوکھلا کر رہی ہے، اور اس کے اثرات فرد سے لے کر پورے معاشرے تک محسوس کیے جا رہے ہیں۔ یہ سب اس بات کی علامت ہے کہ معاشرتی اخلاقی حدود میں تبدیلی آئی ہے اور ہم نے خودغرضی اور ذاتی مفادات کو اجتماعی فائدے سے اہمیت دے دی ہے۔
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ معاشرت میں لوگوں کے درمیان نفرت اور تعصب کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ نسل، مذہب یا فرقے کی بنیاد پر تفریق کرنا ایک عام بات بن چکی ہے۔ یہ وہ ذہنیت ہے جس سے لوگ ایک دوسرے کے حقوق، احساسات اور وقار کو پامال کرتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں ایسی سوچ نے جگہ بنا لی ہے کہ کسی بھی فرقے یا گروہ کو دوسرے سے کمتر سمجھا جائے۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ رویہ غلط ہے، لیکن پھر بھی اسے پروان چڑھایا جا رہا ہے۔ ہر طبقے کے لوگ اپنے فرقے یا گروہ کو دوسرے سے برتر سمجھتے ہیں، اور اس سے معاشرتی ہم آہنگی میں شدت سے کمی آتی ہے۔
مرد اور خواتین کے درمیان تشدد، بچوں پر تشدد، اور دیگر قسم کے جسمانی اور ذہنی تشدد کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ تشدد کسی بھی صورت میں درست نہیں ہے، لیکن ہم اسے نظرانداز کرتے ہیں یا پھر اس پر بات کرنے سے کتراتے ہیں۔ جس معاشرت میں لوگ ایک دوسرے کے حقوق کا احترام نہ کریں، وہاں عدم تحفظ اور اضطراب پیدا ہوتا ہے۔ تشدد ایک ایسی ذہنیت کا عکاس ہے جو اپنے مخالف کو کمزور سمجھ کر اْسے ظلم کا شکار کرتی ہے۔ یہ ایک گہری نفسیاتی بیماری بن چکا ہے جس کے اثرات فرد کی زندگی اور پورے معاشرتی تانے بانے پر پڑتے ہیں۔
آج کل ہر شخص اپنے فائدے اور مفاد میں اتنا محو ہے کہ اسے دوسرے کی حالت، جذبات یا مسائل کا کوئی احساس نہیں رہا۔ خودغرضی اور انفرادیت کا یہ رجحان ہمارے معاشرے میں اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ ہم نے اجتماعی سوچ کو پسِ پشت ڈال دیا ہے۔ ہم اپنی کامیابی کے لیے دوسروں کو نظرانداز کرتے ہیں، اور اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ معاشرت میں محبت، ہم آہنگی اور باہمی تعاون کی جگہ دوریاں اور اختلافات بڑھتے ہیں۔ یہی خودغرضی نہ صرف فرد کے اندر تنہائی اور بے بسی کو جنم دیتی ہے بلکہ پورے معاشرتی ڈھانچے کو بھی کمزور کرتی ہے۔ جب ہر فرد اپنے مفادات کے پیچھے دوڑ رہا ہو، تو وہ دوسرے کو دیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتا ہے۔
خاندانی نظام کا وہ مضبوط بندھن جو کبھی معاشرتی ڈھانچے کی بنیاد تھا، اب کمزور ہو چکا ہے۔ طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح، والدین کا بچوں کی تربیت میں عدم دلچسپی، اور خاندانوں کے درمیان فاصلہ معاشرتی استحکام کو متاثر کر رہا ہے۔ جب فرد کو خاندانی حمایت اور محبت نہ ملے، تو وہ اپنی زندگی میں مشکلات کا سامنا کرتا ہے، اور یہ معاشرتی مسائل کو جنم دیتا ہے۔ خاندانی نظام کی کمزوری کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ آج کے دور میں ہم نے فردی آزادی اور خودمختاری کو اتنا اہم سمجھ لیا ہے کہ اس کے مقابلے میں خاندان کی اہمیت پسِ پشت چلی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خاندانوں میں انتشار اور بے چینی بڑھ رہی ہے۔
معاشرے میں درپیش مسائل صرف فرد کی ذاتی زندگی تک محدود نہیں ہوتے، بلکہ یہ پورے معاشرے کو متاثر کرتے ہیں۔ جب افراد اپنے ذاتی مفادات کو اجتماعی مفادات پر ترجیح دیتے ہیں، تو وہ معاشرتی ذمہ داریوں کو نظرانداز کرتے ہیں، جو کہ ایک سنگین مسئلہ ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ معاشرت میں عدلیہ، تعلیم، صحت، اور روزمرہ کے معاملات میں انصافی فرق بڑھتا جا رہا ہے۔ افراد کا خود غرضانہ رویہ اداروں کو بھی متاثر کرتا ہے، جس سے پورا سسٹم کمزور پڑ جاتا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ معاشرہ ترقی کرے اور مسائل کا حل نکلے، تو ہمیں اجتماعی ذمہ داریوں کا احساس ہونا چاہیے اور اپنے آپ کو ایک مشترکہ مقصد کے لیے وقف کرنا ہوگا۔
نوجوان نسل کی تربیت اور ان کی سوچ پر اب معاشرتی بگاڑ کا گہرا اثر پڑ رہا ہے۔ آج کے نوجوان اکثر تیز تر ترقی، مادیت اور سوشل میڈیا کی دنیا میں الجھے ہوئے ہیں، جس سے ان کی اخلاقی اقدار اور سماجی ذمہ داریاں کمزور ہو رہی ہیں۔ یہ ایک سنگین خطرہ ہے کیونکہ نوجوان ہی معاشرت کی بنیاد ہیں اور ان کی سوچ کا سمت معاشرتی ڈھانچے کو متاثر کرتی ہے۔ اگر نوجوانوں کو اپنی اقدار، سماجی ذمہ داریوں اور اخلاقی رویوں کے بارے میں صحیح تربیت اور رہنمائی فراہم نہ کی جائے، تو یہ معاشرتی مسائل اور بھی بڑھ سکتے ہیں۔ ہمیں اپنے نوجوانوں کو صحیح راستہ دکھانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ ایک مضبوط اور مثبت معاشرت کا حصہ بن سکیں۔
ان سب مسائل کودیکھتیہوئے ہمیں وہ شعور حاصل کرنا ہوگا جو ہمیں صحیح اور غلط کے درمیان فرق سکھائے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ معاشرت میں محبت، احترام، اور تعاون کا ماحول ہو، تو ہمیں ان تمام منفی رجحانات کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ فرد سے لے کر پورے معاشرے تک، ہر کسی کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا ہوگا اور اپنی غلطیوں کو سدھارنا ہوگا۔ اگر ہم نے ان مسائل پر سوچا اور ان کا حل تلاش نہ کیا، تو یہ نہ صرف ہمارے فردی بلکہ اجتماعی مستقبل کے لیے بھی خطرہ بن سکتا ہے۔ اب وقت ہے کہ ہم اپنے معاشرتی طرزِ عمل میں تبدیلی لائیں، تاکہ ہم ایک بہتر اور پرامن معاشرت کا حصہ بن سکیں۔