انمول رشتہ

سفینہ سلیم 

ہم ایک ایسے عہد میں سانس لے رہے ہیں جہاں مادی ترقی نے انسان کو سہولیات تو دے دی ہیں، مگر دلوں سے وہ سچائی، خلوص اور احساس کی دولت چھین لی ہے جو رشتوں کی بنیاد ہوا کرتی تھی۔ آج جب ہر رشتہ "فائدہ" اور "ضرورت" کے ترازو میں تولا جاتا ہے، تو ہمیں رک کر سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم ان رشتوں کی اصل روح کو کھو چکے ہیں؟ انہی رشتوں میں سے ایک، بلکہ سب سے اہم، میاں بیوی کا رشتہ ہے  ایک ایسا رشتہ جو بظاہر دو افراد کا ساتھ ہے، لیکن درحقیقت یہ دو دلوں، دو روحوں اور دو زندگیوں کا مکمل ادغام ہے۔  میاں بیوی کارشتہ ایک مکمل فسلفہ ہیوہ فلسفہ جو مرد کو یہ بتاتاہے کہ عورت صرف جسم نہیں، وہ جذبات، خواب، احساس اور نرمی کا پیکر ہے۔ اور جب ایک عورت بیوی بن کر کسی مرد کی زندگی میں آتی ہے، تو وہ محض ایک ذمہ داری یا ایک رشتہ نہیں، بلکہ ایک نئی دنیا لے کر آتی ہے۔
  ایک بیوی جب مسکراتی ہے، تو دراصل وہ اپنے شوہر کی محبت، توجہ اور عزت پر اطمینان کا اظہار کر رہی ہوتی ہے۔ اس کی ہنسی میں سکون ہوتا ہے، اور اس کی خاموشی میں ہزاروں دکھ۔ مگر افسوس کہ آج کا مرد اکثر اس خاموشی کو صرف "موڈ" سمجھ کر نظر انداز کر دیتا ہے، حالانکہ یہی خاموشی ایک گہرا پیغام ہوتی ہے  شاید ایک پکار، شاید ایک شکایت، شاید ایک سوال۔
بیوی ایک آئینہ ہے، جو مرد کو اس کی شخصیت، رویے اور کردار کا عکس دکھاتی ہے۔ اگر یہ آئینہ دھندلا ہو جائے، تو مرد کو سوچنا چاہیے کہ اس نے کب، کہاں اور کیسے اس آئینے پر گرد جمع ہونے دی۔ کیا وہ بیوی کے ساتھ وقت نہیں گزارتا؟ کیا وہ اس کے جذبات کو نہیں سمجھتا؟ کیا وہ اسے صرف ایک گھریلو ذمہ داری سمجھتا ہے؟
محبت صرف اظہار کا نام نہیں، بلکہ تفہیم کا نام ہے۔ ایک شوہر جب اپنی بیوی کو سنے، اس کی رائے کو اہمیت دے، اس کے خوابوں کی قدر کرے، تب ہی یہ رشتہ جڑ پکڑتا ہے۔ اور جب یہ جڑیں گہری ہو جائیں، تو رشتہ طوفان میں بھی قائم رہتا ہے۔
یاد رکھیں، بیوی کی زبان صرف باتیں نہیں کرتی  وہ دعائیں بھی مانگتی ہے، وہ خیر مانگتی ہے، وہ اپنے شوہر اور بچوں کے لیے جو وقت، توانائی اور محبت صرف کرتی ہے، اس کی کوئی قیمت نہیں۔ اور اگر وہ خاموش ہے، تو شاید وہ تھک چکی ہے، شاید وہ برداشت کے آخری کنارے پر ہے۔ ایسے میں اس کی خاموشی کو سننا، اس کی آنکھوں کو پڑھنا، اور اس کے دل کو محسوس کرنا شوہر کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔
یہ وہ رشتہ ہے جس میں عزت ہو، تو محبت خود بخود پروان چڑھتی ہے۔ جس میں اعتماد ہو، تو فاصلے خود مٹ جاتے ہیں۔ اور جس میں برداشت ہو، تو وقت کی سختیاں بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔
آج اس جدیددورمیں بے حس، اور خود غرض دور میں میاں بیوی کے رشتے کو وہی تقدس، وہی خلوص اور وہی محبت واپس دلائیں جس کا یہ رشتہ ہمیشہ سے حق دار ہے۔ بیوی کو آئینہ سمجھیں  اور اگر وہ چمک رہی ہے، تو جان لیجیے، آپ ایک بہترین شوہر ہیں۔ بدقسمتی سے آج میاں بیوی کا رشتہ خوشی، محبت اور قربت کا ذریعہ کم، اور ذمہ داریوں، تقاضوں اور توقعات کا بوجھ زیادہ بن چکا ہے۔ دونوں جانب سے شکایات کا انبار ہے۔ شوہر کہتا ہے بیوی بدل گئی ہے، اور بیوی شکوہ کرتی ہے کہ شوہر نے وہ محبت نہیں دی جس کا خواب دکھایا تھا۔ نتیجہ یہ کہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ تو ہیں، مگر ایک دوسرے کے لیے نہیں۔ گھر اب صرف چھت ہے، دلوں میں جگہ نہیں۔
یہ رویہ صرف انفرادی نہیں، بلکہ ایک اجتماعی المیہ بنتا جا رہا ہے۔
معاشی دباؤ، سوشل میڈیا کا بڑھتا ہوا اثر، اور فلموں و ڈراموں نے ہمارے ذہنوں میں "مثالی رشتہ" کا ایسا خواب بسا دیا ہے جو حقیقت سے کوسوں دور ہے۔ لوگ اب رشتے کو نبھانے کی بجائے ریپلیس کرنے لگے ہیں۔ ایک معمولی تلخی، ایک وقتی دوری، اور فوراً ذہن میں الگ ہو جانے کا خیال آ جاتا ہے۔ ہم نے رشتے کو وقتی خوشی کی بنیاد پر پرکھنا شروع کر دیا ہے، اور جیسے ہی خوشی میں کمی آتی ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ رشتہ ناکام ہو گیا۔ حالانکہ اصل رشتہ وہی ہوتا ہے جو مشکل وقت میں بھی قائم رہے۔
یہ سوچنے کی بات ہے کہ اگر ہم اپنے موبائل کو بار بار چارج کر سکتے ہیں، کپڑوں کو دھو سکتے ہیں، گاڑی کو سروس دے سکتے ہیں، تو رشتوں کوباربار جوڑکیوں نہیں سکتیایک دوسریکوکیوں  نہیں سن سکتے؟ کیوں ہم رشتوں کو  وہ وقت اور وہ جذبہ نہیں دیتے جو باقی چیزوں کو دیتے ہیں؟ میاں بیوی کا رشتہ کوئی مشین نہیں جسے آن اور آف کیا جا سکے۔ یہ ایک زندہ، سانس لیتا، محسوس کرتا رشتہ ہے  اور اسے زندہ رکھنے کے لیے خلوص، قربانی، صبر اور محبت وہ ایندھن ہیں جو کبھی ختم نہیں ہونے چاہییں۔

ای پیپر دی نیشن