ہم دونوں 60ء کی دہائی میں نشتر میڈیکل کالج سے اکٹھے پروان چڑھے۔ میں نے شعبہ میڈیسن انتخاب کیا اور وہ اتفاق سے شعبہ اینستھیزیا میں جا پہنچے۔ آگے کی تعلیم کے لئے ہم ایک ساتھ برطانیہ گئے ۔میری دستاویزات پوری تھیں اور مجھے ہسپتال میں نوکری اور تربیت کی جگہ مل گئی وہ عجلت میں میرے ساتھ ہی آگئے اور ان کے پاس کوئی بلاوے کاکوئی خط پتر بھی نہیں تھا پھر بھی پاکستان میں انیستھیزیا میں تجربہ کی بنا پر اور اس شعبہ میں ڈاکٹروں کی کمی کی وجہ سے ان کو بھی جگہ مل گئی۔ لیکن انہوں نے کہا میں اس بے ہوشی والے شعبہ سے نفرت کرتا ہوں بننا تو میں نے سرجن ہے بس وقتی طور پر اس ملک میں جگہ بنانے کیلئے اس شعبہ کو قبول کر رہا ہوں اس شعبے میں زیادہ ضرورت اور کم مقابلے کی وجہ سے ان کی تیزی سے ترقی ہوتی گئی اور انہوں نے جلد سپیشلائزیشن کے امتحانات پاس کر لئے پھر بھی اس شعبہ سے مطمئن نہیں تھے۔ میں اپنے تئیں ان کو دلجوئی کراتا رہا یہ کہ آپ کی ترقی کا راز اسی شعبہ میں ہے ۔میری بات کا احساس ان کو تب ہوا جب ان کو جرمنی میں کنسلٹنٹ کا کام ملا وہاں پر برطانیہ سے دوگنا معاوضہ تھا اور کام زیادہ جدید ۔ میں وہاں کام نہیں کر سکتا تھا کیونکہ فزیشن کے کام میں زبان کا جاننا ضروری ہوتا ہے جبکہ ان کے شعبہ میں زبان کی قید نہیں۔ اس پر ان کو احساس ہوا کہ ان کے شعبے کو بین الاقوامی اہمیت حاصل ہے۔
ہم ایک ساتھ ہی وطن واپس لوٹے اور دونوں نشتر میڈیکل کالج اور ہسپتال میں اسسٹنٹ پروفیسر تعینات ہوئے۔ میں نے تو جیسے تیسے میڈیسن کے شعبے میں اطمینان کر لیا لیکن ان کے شعبہ میں کام کی سہولیات صرف بنیادی تھیں اور ان کو نیاکام شروع کرنے کی آزادی نہیں تھی ۔پاکستان کے ہسپتالوں میں بدقسمتی سے یہ روایت ہے کہ جو کام انچارج کو نہیں آتا وہ ماتحت کو بھی نہیں کرنے دیتا تو ڈاکٹر مہدی حسن مایوس ہو کر واپس برطانیہ چلے گئے لیکن وہاں بھی زیادہ دیر نہ رہے اور جیسے اُمید ہوئی کہ انچارج کے ریٹائر ہونے پر ان کو آزادی سے کام کرنے کا موقع مل سکتا ہے تو واپس لوٹ آئے جیسے ہی ان کو خود مختاری ملی۔ انہوں نے شعبہ بے ہوشی کو جدید طرز پر لانا شروع کر دیا اور جلد نشتر ہسپتال میں پیچیدہ آپریشن ہونے لگے خاص طور پر دماغ کے، جو کہ پہلے نہیں ہو رہے تھے ۔شعبہ بے ہوشی کے تحت انہوں نے انتہائی نگہداشت (intensive Care) کی بنیاد رکھی جو کہ اس وقت پاکستان میں بہت کم ہسپتالوں میں میسر تھی ۔اس کیلئے انہیں بہت جدوجہد کرنا پڑی شعبہ بے ہوشی کو جدید طرز پر استوار کرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے نوجوان ڈاکٹروں کیلئے تربیت اور آگے کی تعلیم کا سلسلہ شروع کیا جلد ہی نشتر میں انیستھیزیا کے ماہر ڈاکٹر نکلنے لگے اور ملک کے علاوہ بیرون ملک خدمات سرانجام دینے لگے۔ دنیا میں کورونا وائرس کی وبا پھیلنے پر انتہائی نگہداشت کے نظام کی ضرورت اور اہمیت بہت بڑھ گئی ہے۔ فزیشن سب سرجوڑے ہوئے ہیں لیکن انتہائی نگہداشت کی مدد کے بغیر وہ بے بس ہیں۔ ان سے تربیت حاصل کئے ہوئے ڈاکٹر اس وقت نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے کئی ملکوں میں قیمتی جانیں بچانے میں سرگرم عمل ہیں۔ انسانیت پر آئی ہوئی اس آفت کے وقت ڈاکٹر مہدی حسن کی دی ہوئی تعلیم اور تربیت صدقۂ جاریہ بن گئی ہے۔ پروفیسر مہدی حسن ممتاز کئی سال پہلے ریٹائر ہو کر اپنے نجی ہسپتال میں کام جاری رکھے ہوئے ہیں اور لوگ ان کی انیستھیزیا میں مہارت اور تجربے سے مستفیض ہو رہے ہیں۔