احسان ناز
پاکستان کے جتنے بھی سرکاری محکمے نادرہ پولیس سوئی گیس بجلی انکم ٹیکس بلدیہ اور دیگر ادارے جو کہ عوام کی سہولیات کے لیے بنائے گئے ہیں ان میں سے چند ادارے تو ایسے ہیں جو کہ عوام کے یے اشتہارات تو بہت دیتے ہیں لیکن عملی طور پر ان محکموں کے اعلی افسران سے لے کر چھوٹے اہلکاروں تک جب تک بھتہ وصول نہیں کرتے کسی بھی انے والے سائل کا مداوا نہیں سنتے پولیس جس کا فرض ہے عوام کی خدمت یعنی پہلے سلام پھر کلام جن دنوں میں ٹی وی اور اخبارات میں محکمہ پولیس کی طرف سے یہ اشتہارات چل رہے ہوتے ہیں تو ممکن ہے کہ غلطی سے کوئی پولیس اہلکار کسی بھی شہری سے پہلے سلام کرے اور پھر کلام کریں لوگ پولیس تھانوں میں جانے سے گھبراتے ہیں اور متعدد لوگوں کو دیکھا ہے وہ تو اپنے گھر چوری اور دیگر مالی نقصانات ہو جائیں تو وہ ایف ائی ار درج کرانے تھانے نہیں جاتے وہ نقصان خود ہی برداشت کر لیتے ہیں اس طرح نادرہ کا محکمہ جو کہ وفاق کی علامت ہے اس میں بھی جو قوانین اپنے کاغذات بنانے کے لیے بتائے جاتے ہیں وہ پورے بھی ھوں تو بابو چکر پہ چکر لگا کر سائل کا دماغ خراب کر دیتے ہیں اور پھر دوسرا راستہ ڈھونڈتا ھے شناختی کارڈ جنم پرچی میرج سرٹیفکیٹ اور تاریخ پیدائش کا اندراج کیسے ہو سکتا ہے تو ہر نادرہ سینٹر کے باہر ٹاوٹوں کی ایک لمبی قطار لگی ہوتی ہے جو کہ نادرہ سینٹر کے اعلی افسران کے کل پرزے بتائے جاتے ہیں ان سے سائل پیسے دے کر کام کرانے میں کامیاب ہو جاتا ہے جیسے کہ کسی نے بھی بچوں کا ب فارم کے لیےاندراج کرانا ہو تو بچے اور والد اگر موجود ہیں تو بچوں کا نام بے فارم میں ڈالنے پہ کوئی پابندی نہیں ہے لیکن یہاں پر ادم نرالا ہے کہ بچوں کی جو جنم پر تھی بلدیہ کی طرف سے منائی جاتی ہے وہ دکھانے کے باوجود وہ نکاح نامہ والدہ کا شناختی کارڈ اور پورے گھرانے کا پتہ مانگتے ہیں جبکہ نادرہ کی کتابوں میں اور ڈے ٹو ڈے دیے جانے والے اشتہارات میں یہ لکھا ہوتا ہے انے والے بچے کو اس کے والد کے نام کے ساتھ اندراج کیا جائے گا لیکن والد ہونے کے باوجود بھی اند راج نہیں کرتے اس طرح پاکستان کا بجلی کا محکمہ جو کہ پولیس سے بھی زیادہ طاقتور ہے جو بل بھیج دیں اور وہ لے کر اپ واپڈا کے ایکسین یا ایس ڈی او کے پاس جائیں تو ان کا حکم ہوتا ہے کہ پہلے یہ بل جمع کرائیں بعد میں دیکھیں گے اس میں کیا مسائل ہے بھائی اگر ان کے پاس اتنے پیسے ہی نہیں ہیں جتنا بل بھیج دیا گیا ہے تو وہ پیسے کہاں سے جمع کریں لیکن پولیس والے تو پھر بھی کسی نہ کسی جگہ 300 لے کے گزارا کر لیتے ہیں لیکن بجلی کے محکمے کے افیسر اور اہلکار جن کے حساب کتاب میں کوئی بخشش نہیں ہے یہ بجلی کاٹ کر اور میٹر جو کہ صارف کی ملکیت ہوتا ہے اسے بھی کنکشن کاٹنے کے ساتھ ساتھ اپنے دفتر لے جاتے ہیں اگر کہیں بجلی کے انے جانے میں تعطل ھو تو درجنوں دفعہ فون کریں خود بجلی کے دفتر چلے جائیں یہ بجلی ٹھیک کرنے کے لیے اپنی مرضی سے ہی اتے ہیں اور یہی کہا جاتا ہے کہ محکمہ بجلی والے نئے لوگوں کو بھرتی نہیں کرتے ہماری تعداد کم ہے ہم کیا کریں محکمہ سوئی گیس کا تو ادم ھی نرالہ ہے کہ جب بھی کسی کے گھر گیس کا بل چیک کرنے کے لیے اتے ہیں وہ صارف گھر پر موجود نہیں ہوتا تو گیس کا میٹر اور کنکشن کاٹ دیا جاتا ہے اور یہ بھی گیس کا میٹر واپڈا کی طرح اپنے دفتر میں لے جاتے ہیں
اسی طرح محکمہ مال کے لوگ رشوت کی انتہا کو پہنچے ہوئے ہیں کوئی فرد بغیر رشوت نہیں ملتی پٹواری اپنے اپنے پٹوار خانے میں خدا بن کے بیٹھے ہوتے ہیں اور ایک ایک پٹواری نے 10 10 منشی یا اہل کار رکھتے ہیں جو کہ سائلین کو ڈیل کرتے ہیں اور ان کا کام صرف اور صرف رشوت وصول کر کے کام کرنا ہے وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف اور وزیراعلی پنجاب محترمہ مریم نواز شریف صاحبہ اپنے حد تک ہر محکمے کو اپنے حرور میں رہ کر کام کرنے کا حکم دیتے ہیں لیکن سرکاری اہلکاروں پر کسی قسم کا کوئی اثر نہیں ہوتا اور ان کےکان پر جون تک نہیں رینگتی لاکھوں لوگ روزانہ ان محکموں کے ظلم تشدد بربریت اور لا قانونیت کا شکار ہوتے ہیں ان میں بوڑھی مائیں بچے بوڑھے اور پینشن لینے والے زیادہ شکار ہوتے ہیں جبکہ میرے مشاہدے کے مطابق جب حکومت یہ کہتی ہے کہ مہنگائی انٹرنیشنل مسئلہ ہے امریکہ کینیڈا جاپان دبئی سعودی عرب میں بھی مہنگائی ہے لیکن میں ان سے پوچھنا چاہتا ہوں کیا ان ممالک میں بھی بجلی پانی گیس اور در محکموں میں یہی سلوک ہوتا ہے حکمران مختلف معاملات کا معانقہ تو ان ممالک سے کرتے ہیں یہاں پر ایک گھنٹے کی اجرت ڈالروں میں دی جاتی ہے لیکن یہاں پورے دن میں ایک مزدور ہزار روپے بھی نہیں بنا سکتا تو میں اپنے اس کالم کے ذریعے وزیراعظم پاکستان وزیراعلی پنجاب اور سرکاری محکموں کے اعلی افسران سے اپیل کرتا ہوں کہ خدارا وہ عوام کی غربت کو دیکھتے ہوئے اپنے محکموں کی کارکردی بہتر کریں اور جو عوام مہنگائی کے ستاے ہوئے ہیں ان کو اپنے دفتروں اور کھڑکیوں کے چکر نہ لگائیں تو ممکن ہے ان کی مشکلات میں کچھ کمی ہے اور یہ پاکستان کے پسماندہ لوگ حکمرانوں اور سرکاری افسروں کے لیے دعائیں دے سکیں