بیت المال کی سربراہی، وزیراعظم کا حسن انتخاب 

حضرت عمر ؓ کے دور خلافت میں ریاست مدینہ کی آمدنی میں اضافہ ہوا تو آپؓ نے بیت المال کا محکمہ قائم کیا۔ اس سے تمام مسلمانوں کو تنخواہ یا وظیفے دیے جاتے تھے۔ سب سے پہلے ازواج مطہرات اور حضور کے اہل بیت کا حصہ تھا جس کی رقم 15 اور 10 ہزار درہم سالانہ تھی۔ پھر اہل بدر اور ان کی اولاد کا حق تھا۔ اس کے بعد عام مہاجرین و انصار کا۔ مستورات بیواؤں اور یتیموں کا بھی حصہ مقرر تھا۔ مرکز کے علاوہ صوبوں کے صدر مقام پر بیت المال قائم کیے گئے تھے اور ان کا باقاعدہ حساب رکھا جاتا تھا۔ ہر صوبے کی آمدنی وہاں کے بیت المال میں جمع ہوتی تھی اور حکومت کے اخراجات پر جو کچھ خرچ ہوتا، اس کے بعد باقی رقم مرکزی بیت المال میں جمع کردی جاتی تھی۔ خلافت راشدہ کے بعد بدقسمتی سے بیت المال شاہی خزانہ بن گیا اور اس کا زیادہ تر حصہ بادشاہوں کی شان و شوکت پر صرف ہونے لگا۔
پاکستان بیت المال کی بنیاد محمد نواز شریف نے 1992ء میں اس وقت رکھی جب وہ پہلی بار ملک کے وزیراعظم بنے اور یہ ادارہ ملک کو صحیح انداز میں اسلامی فلاحی ریاست بنانے کا خوبصورت تصور بھی پیش کرتا ہے۔ اب وزیراعظم محمد شہباز شریف نے پاکستان بیت المال کی سربراہی کے لیے ایک اوورسیز پاکستانی کیپٹن (ر) شاہین خالد بٹ کا انتخاب کیا ہے۔ اس انتہائی اہم اور حساس ذمہ داری ملنے پر میں انھیں مبارکباد کے بجائے استقامت کی دعا دینا چاہتا ہوں اور شہباز شریف کو اس حسن انتخاب پرخراج تحسین پیش کرنا چاہتا ہوں۔
اوورسیز پاکستانیوں کے اہلِ خانہ کو عرصہ دراز سے بہت سے مسائل کا سامنا تھا جن میں سب سے اہم قبضہ گروپوں کا اوورسیز پاکستانیوں کی جائیدادوں پر قبضہ تھا۔ کوئی حکومت سمندرپار بسنے والے پاکستانیوں کے مسائل کی طرف توجہ نہیں دے رہی تھی۔ بطور وزیراعظم نواز شریف نے اپنے دور حکومت میں گرین چینل کے ذریعے ائیر پورٹس پر اوورسیز پاکستانیوں کو سہولتیں فراہم کیں اور پھر نواز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے ہی پنجاب میں اوورسیز پاکستانیز کمیشن کا آئینی ادارہ قائم کیا۔ یہ اعزاز بحیثیت وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو حاصل ہوا کہ انھوں نے 2015ء ان سمندر پار پاکستانی بھائیوں کے مسائل کے فی الفور اور ایک ہی چھت تلے حل کو یقینی بنانے کے لیے قانون سازی کرکے اوورسیز پاکستانیز کمیشن پنجاب قائم کیا۔ ایک آئینی ادارہ قائم کرنا شہباز شریف کا بطور وزیراعلیٰ پنجاب سمندر پار پاکستانیوں کے لیے ایک مستحسن اقدام تھا۔
 اوورسیز پاکستانیز کمیشن پنجاب کے چیئرمین تو خود وزیراعلیٰ پنجاب تھے لیکن اس کمیشن کے معاملات کی نگرانی کے لیے انھیں ایک انتہائی زیرک اور متحرک اوورسیز پاکستانی شخصیت کی ضرورت تھی جس کے لیے کیپٹن (ر) شاہین خالد بٹ شہباز شریف کا حسن انتخاب ٹھہرے۔ وہ اس وقت امریکا کے شہر نیویارک کے پوش علاقے مین ہیٹن میں اقوام متحدہ کے سائے تلے ایک بہت معیاری ریسٹورنٹ چلا رہے تھے اور یہ ریسٹورنٹ پاکستانیوں کے لیے ایک مرکز کی حیثیت رکھتا تھا، ہر دوسرے روز کوئی نہ کوئی پریس کانفرنس ہوتی تھی۔ وہ ہر پاکستانی کی مدد کے لیے پیش پیش رہتے۔ پاکستانی دوستوں کے لیے ان کا دستر خوان ہمیشہ کھلا رہتا تھا۔ کیپٹن (ر)شاہین خالد بٹ شہباز شریف کی درخواست پر اپنا کاروبار بچوں کے حوالے کر کے پاکستان چلے آئے۔ انھوں نے اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل کے حل کے لیے دن رات ایک کردیا اور بہت تھوڑے عرصے میں اپنے تارکین وطن بھائیوں کا دل جیتنے میں کامیاب ہوگئے۔ ان کی تین سالہ کارکردگی نے شریف بردران کو بے حد متاثر کیا۔ 2018ء کے عام انتخابات کے بعدوہ واپس امریکا جانا چاہتے تھے لیکن مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے انھیں پنجاب سے سینیٹ کا ٹکٹ دے کر روک لیا۔ سینیٹر منتخب ہونے کے بعد انھوں نے چھے سال تک ایوان بالا میں مسلم لیگ (ن) کی بھرپور ترجمانی کی اور مارچ 2024ء میں سینیٹر شپ سے ریٹائر ہوگئے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے ایک بار پھر ان کی صلاحیتوں سے استفادہ کرنے کا فیصلہ کیا اور انھیں دسمبر 2024ء میں پاکستان بیت المال کے ایم ڈی کی اہم ذمہ داری سونپ دی۔
کیپٹن شاہین خالد بٹ آج اللہ کے فضل وکرم سے اس منصب جلیلہ پر فائز ہیں جسے خلفائے راشدین نے قائم کیا تھا اور جس کی روایت چودہ سو برس گزرنے کے باوجود بھی قائم و دائم ہے اور معاشرتی فلاح کے لیے اس کی افادیت مسلمہ ہے۔ اور تاریخ نے دیکھا کہ حضرت عمرؓ جیسا عالی مرتبت خلیفہ کندھے پر آٹے کے تھیلے رکھ کر حاجت مندوں کے گھروں میں تقسیم کرتا تھا۔ اسی بیت المال کی برکت سے وہ وقت بھی آیا کہ وادی یثرب میں کوئی بھکاری نظر نہیں آتا تھا۔ ہر ایک ضرورت مند کی ضرورت بیت المال سے پوری ہوتی تھی۔ آج جو یورپ میں فلاح کا نظام ہے یہ انھوں نے اسلام سے ہی لیا ہے۔ یورپ نیسوشل سکیورٹی کا سارے کا سارا نظام اسلام سے لیا ہے اور ایک ہم ہیں کہ اپنی وراثت کو بھول بیٹھے ہیں۔
 اب اللہ کے فضل سے پاکستان میں یہ ادارہ بیماروں، یتیموں، معذروں، بیواؤں اور ہر ضرورت مند کی بھرپور خدمت کر رہا ہے۔ ایم ڈی پاکستان بیت المال شاہین خالد بٹ اس مقدس فریضے کی ادائیگی کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں اور ضرورت مندوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر ان کی ضرورت سے زیادہ مالی مدد کر رہے ہیں۔ ان کی موجودگی میں اس ادارے کی کارکردگی کے بارے میں اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ کس قدر انسانی خدمات میں پیش پیش ہے۔ کیپٹن (ر) شاہین خالدبٹ پْر عزم ہیں کہ آنے والے دنوں میں یہ ادارہ مزید مؤثر انداز سے ملک سے غربت کے خاتمے کے لیے اپنی ذمہ داریاں نبھائے گا۔ ملک کے نامور اور بڑے عوامی فلاحی ادارے کا سربراہ بننا اعزاز کی بات بھی ہے اور ایک اہم ذمہ داری بھی۔ کیپٹن شاہین خالد بٹ کا کہنا ہے کہ شہباز شریف اور نواز شریف نے مجھے یہ عہدہ سونپ کر جس اعتماد کا اظہار کیا ہے اس پر پورا اترنے کے لیے پر عزم ہوں۔ وزیراعظم نے انھیں ایک ٹاسک سونپا ہے جس پر ہر صورت میں عمل ہوگا۔ وزیراعظم نے کہا ہے کہ میرٹ پر کسی صورت پر بھی سمجھوتہ نہ کیا جائے۔ محکمہ سست روی کا شکار ہے، اسے بہتر انداز میں چلانے کی کوشش کروں گا۔ وزیراعظم نے جو وڑن دیا ہے اسی کے مطابق محکمے کو لے کر آگے چلوں گا۔ غریبوں کاحق ان کی دہلیز پر فراہم کریں گے۔ مجبور اور نادار افراد کی دادرسی کے لیے مؤثر اقدامات کرنا پاکستان بیت المال کی ترجیحات میں شامل ہے۔پاکستان بیت المال اسلام آباد ہیڈ کوارٹر کے علاوہ ادارے کے سات علاقائی اور صوبائی دفاتر جبکہ ملک کے تمام اضلاع میں ضلعی دفاتر اور پراجیکٹس موجود ہیں۔ پاکستان بیت المال سے امداد کے حصول کے لیے مریض اور طالب علم اپنی درخواست بیماری اور معذوری کی مکمل تفصیلات، تعلیمی کاغذات بیت المال کے ضلعی دفتر میں جمع کروائیں۔ ادارہ ہر ضرورت مند کی ضرور داد رسی کرے گا۔جب شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب تھے تو لاہور کینٹ میں واقع شاہین خالد بٹ کے گھر میں ہردوسرے روز ایک سیاسی محفل سجتی تھی جس میں شہباز شریف بھی اکثر شریک ہوتے تھے، بٹ صاحب کے بہت سے دوسرے دوست بھی اس محفل کو رونق بخشتے تھے۔ یہ محفل رات گئے تک جاری رہتی۔ شہباز شریف جیسا مصروف آدمی اور زیرک سیاستدان جس محفل میں شریک ہوتا ہو آپ اس محفل کی اہمیت کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ محفل کے اختتام پر مہمانوں کی طرح طرح کے کھانوں سے تواضع کی جاتی۔ اس مثالی محفل نے شہباز شریف کو کیپٹن (ر) شاہین خالد بٹ کا گرویدہ بنا دیا تھا۔

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

ای پیپر دی نیشن