تفہیم مکالمہ... ڈاکٹر جمیل اختر
jamillahori@gmail.com
ہر سال 25 دسمبر کو پاکستان میں قائداعظم محمد علی جناح کا یومِ پیدائش منایا جاتا ہے، جو پاکستان کے بانی اور برصغیر کے عظیم رہنما تھے۔ 1876 میں کراچی میں پیدا ہونے والے قائداعظم نے اپنی بصیرت، اصول پرستی، اور غیر متزلزل عزم کے ذریعے ایک ایسی ریاست کے قیام کی قیادت کی جہاں مسلمانوں کو اپنی مذہبی، ثقافتی، اور سیاسی آزادی کے ساتھ زندگی گزارنے کا موقع ملے۔ یہ دن ہمیں نہ صرف ان کی عظیم شخصیت، قیادت اور خدمات کو یاد کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے بلکہ ان کے افکار اور نظریات کی اہمیت کو اجاگر کرنے اور ان کے پیش کردہ اتحاد، ایمان، اور تنظیم کے پیغام پر عمل کرنے کی ترغیب بھی دیتا ہے، جو آج بھی ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح کا نام تاریخ کے ان عظیم رہنماو¿ں میں شامل ہے جنہوں نے اپنی بصیرت، عزم، اور اصولی قیادت کے ذریعے نہ صرف ایک قوم کی تشکیل کی بلکہ ایک ایسے مثالی سماج کے قیام کی بنیاد بھی رکھی جو مساوات، عدل، اور اخوت پر مبنی ہو۔ قائداعظم کے خیالات، بیانات، اور عملی جدوجہد سے واضح ہوتا ہے کہ وہ ایک ایسے معاشرے کے خواب دیکھتے تھے جو ہر قسم کے تعصب، استحصال، اور ناانصافی سے پاک ہو۔
قائداعظم نے پاکستان کے قیام کے ذریعے نہ صرف ایک جغرافیائی ریاست قائم کی بلکہ ایک ایسی فلاحی ریاست کی بنیاد رکھی جو سماجی انصاف، مساوات، اور مذہبی رواداری پر مبنی ہو۔ پاکستان کے قیام کا مقصد ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینا تھا جہاں ہر فرد کو برابری، آزادی، اور وقار حاصل ہو۔ پاکستان کی قانون ساز اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے واضح طور پر کہا کہ آپ آزاد ہیں۔ آپ اپنے مندروں میں جانے کے لیے آزاد ہیں۔ آپ اپنی مسجدوں میں جانے کے لیے اور ریاست پاکستان میں اپنی کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کے لیے آزاد ہیں۔ چاہے آپ کا تعلق کسی بھی مذہب، ذات یا نسل سے ہو، ریاست کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔ یہ بیان اس بات کی دلیل ہے کہ قائداعظم کا تصورِ مثالی سماج ایک ایسا معاشرہ تھا جہاں مذہب، رنگ، نسل، اور جنس کی بنیاد پر کسی کے ساتھ امتیاز نہ برتا جائے۔
قائداعظم کے نزدیک ایک مہذب اور مثالی معاشرہ وہی ہو سکتا ہے جہاں قانون کی حکمرانی ہو اور انصاف بلا امتیاز سب کو فراہم کیا جائے۔ وہ ہمیشہ اس بات پر زور دیتے تھے کہ عدلیہ آزاد ہو اور حکمران عوام کے سامنے جوابدہ ہوں۔ قائداعظم نے کہا تھا کہ عدالتوں کا وقار بلند کرنا اور ان کی آزادی کو محفوظ رکھنا ہماری اولین ذمہ داری ہے۔ یہ الفاظ قائداعظم کے اس عزم کی عکاسی کرتے ہیں کہ وہ ایک ایسا سماج چاہتے تھے جہاں انصاف سب کے لیے یکساں ہو اور کوئی بھی قانون سے بالاتر نہ ہو۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم آج قائداعظم کے تصور کردہ مثالی سماج کے قریب پہنچ سکے ہیں؟
قائداعظم نے بارہا سماجی انصاف پر زور دیا۔ ان کے نزدیک ایک ایسا سماج جہاں امیر اور غریب کے درمیان فرق کم ہو، وسائل کی منصفانہ تقسیم ہو، اور ہر فرد کو برابر کے مواقع ملیں، وہی سماج مثالی کہلانے کے لائق ہے۔ ان کے اس ویڑن کی روشنی میں ہمیں آج دیکھنا ہوگا کہ کیا ہمارے سماج میں عدل و انصاف کا نظام مضبوط ہے؟ کیا معاشی ناہمواری ختم ہو رہی ہے؟
قائداعظم کا نظریہ تھا کہ معاشرہ تبھی ترقی کر سکتا ہے جب تمام شہریوں کو برابر کے حقوق حاصل ہوں، چاہے وہ کسی بھی مذہب، ذات، یا جنس سے تعلق رکھتے ہوں۔ انہوں نے خاص طور پر اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت پر زور دیا اور ان کے لیے مساوی مواقع کی ضمانت دی۔ آج ہمیں سوچنا ہوگا کہ کیا ہمارے ملک میں اقلیتوں کو وہ مقام حاصل ہے جس کا قائداعظم نے وعدہ کیا تھا؟
قائداعظم نے خواتین کو قومی ترقی میں ایک کلیدی حیثیت دی۔ انہوں نے فرمایا کہ کوئی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک اس کی خواتین مردوں کے شانہ بشانہ نہ ہوں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ قائداعظم کے مثالی سماج میں خواتین کو تعلیم، روزگار، اور سماجی شرکت میں بھرپور مواقع فراہم کیے گئے تھے۔ بدقسمتی سے، آج بھی خواتین کو مساوی حقوق دلانے کے لیے جدوجہد جاری ہے۔
قائداعظم کے نزدیک مذہبی رواداری ایک مثالی سماج کی بنیاد ہے۔ قائداعظم کا پاکستان اقلیتوں کے لیے بھی محفوظ اور دوستانہ سماج تھا۔ ان کے نزدیک اقلیتوں کو نہ صرف آزادی بلکہ مکمل تحفظ اور مساوی حقوق حاصل ہونے چاہئیں۔ انہوں نے فرمایا کہ اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کا وعدہ میں قرآن کی تعلیمات سے لیتا ہوں۔ اقلیتوں کے ساتھ انصاف اور مساوات اسلام کا بنیادی اصول ہے۔
قائداعظم کے نعرے "اتحاد، ایمان، اور تنظیم" کا مطلب ایک ایسی قوم کی تشکیل تھا جو متحد ہو، اپنے ایمان پر قائم ہو، اور منظم انداز میں اپنے مسائل کا حل تلاش کرے۔ یہ نعرہ ایک مثالی معاشرے کے لیے قائداعظم کی رہنمائی کو ظاہر کرتا ہے، کیونکہ اتحاد ہی وہ قوت ہے جو کسی بھی قوم کو ترقی کی راہ پر گامزن کرتی ہے۔ بدقسمتی سے، قائداعظم کے انتقال کے بعد پاکستان ان کے بتائے ہوئے راستے سے کافی حد تک ہٹ گیا۔ سماجی ناانصافی، مذہبی انتہا پسندی، اور معاشرتی ناہمواری نے ان کے خوابوں کے پاکستان کو دھندلا دیا۔ آج بھی پاکستان کو ایک مثالی سماج بنانے کے لیے کئی چیلنجز کا سامنا ہے، جن میں بدعنوانی، عدم مساوات، اور تعلیم کی کمی شامل ہیں۔ ہمیں قائداعظم کی تعلیمات کو اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ ہم ان کے تصور کے مطابق ایک مثالی سماج کی تعمیر کر سکیں۔ قائداعظم محمد علی جناح کا تصورِ پاکستان ایک مثالی سماج کی تشکیل پر مبنی تھا جہاں ہر فرد کو مساوی حقوق حاصل ہوں اور ہر طبقہ اپنی صلاحیتوں کے مطابق ترقی کرے۔ اگر ہم ان کی تعلیمات پر عمل کریں تو نہ صرف اپنے مسائل کا حل تلاش کر سکتے ہیں بلکہ دنیا میں ایک مثالی قوم کے طور پر اپنا مقام بھی پیدا کر سکتے ہیں۔ ہمیں بحیثیت قوم اپنے سماجی ڈھانچے کو قائداعظم کے اصولوں کے مطابق ڈھالنا ہوگا تاکہ پاکستان واقعی ایک مثالی سماج بن سکے۔ قائداعظم کے یہ سنہری الفاظ ہماری رہنمائی کے لیے کافی ہیں کہ دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کو مٹا نہیں سکتی، بشرطیکہ ہم اپنے اتحاد، ایمان، اور تنظیم پر قائم رہیں۔ قائداعظم کی ولادت کے اس دن کو مناتے ہوئے ہمیں ان کے اتحاد، ایمان، اور تنظیم کے اصولوں پر عمل پیرا ہو کر پاکستان کو ایک مثالی ریاست بنانے کے عہد کی تجدید کرنی چاہیے۔