ڈونلڈ ٹرمپ کا ” فرمان امروز“

سید شاہد گیلانی
Shahid.gillani@g mail .com


20 جنوری 2024ءکو ڈونلڈ ٹرمپ حلف اٹھا کر امریکہ کے 47 میں صدر بن گئے ، حلف کے بعد اپنی پہلی تقریر میں امریکی صدر نے جو پالیسی بیان جاری اس پر سفارتی اور سیاسی حلقوں میں نئی بحث چھڑی ہوئی ہے۔ امریکی صدر نے حلف ڈے کو آزادی کا دن قرار دیا تا ہم انہوں نے اس کی وضاحت نہیں کہ آزادی سے مراد کیا ہے اور کن سے آزادی کی بات کررہے ہیں؟ ٹرمپ کی گفتگو میں پالیسیوں کے ساتھ دھمکیاں بھی تھیں یہ پہلا موقع ہے کہ امریکہ کی طرف سے امن‘ صلح اور ترقی کی بات کی جارہی ہے ورنہ ماضی میں ”سپر پاور “کی قیادت پس پردہ سرد جنگ کی حامی رہی۔ روس امریکہ کی جنگ اس کی سب سے بڑی مثال ہے ، جنگیں روکنے اور لڑائی ختم کرنے کی باتیں خوش آئند ضرور ہیں لیکن امریکی صدر کی طرف سے دھمکیاں اور الٹی میٹم قابل تشویش ہیں۔ یہی وہ امریکہ ہے جس کی چھتری تلے اسرائیل چودہ ماہ تک فلسطین پر بارود کی بارش کرتا رہتا، اس دوران پچاس ہزار انسانوں کی زندگی کا چراغ بجھا، ایک لاکھ مسلمان معذوری کا بوجھ لے کر زندگی گزار رہے ہیں پورا کا پورا غزہ قبرستان بن گیا ۔ ٹرمپ حلف سے ایک روز قبل اسرائیل اور حماس کے مابین سیز فائر پر عمل درآمد یوا، پورے فلسطین کو تباہ کرکے کیا ملا؟ دنیا میں کوئی ہے جو اسکا حساب مانگے اور انصاف دلوائے!! ٹرمپ امن کی بات کررہے ہیں انہیں اپنے پیش رو جو بائیڈن سے سوال کرنا چاہیے کہ وہ بڑی سیٹ پر بیٹھ کر جانبدار کیوں رہے اور کیوں یکطرفہ طاقت کی طرف داری کرتے رہے؟ اسی ایک طرفہ پالیسی سے دنیا کا امن تباہ ہوا ہے اللہ کرے ٹرمپ اور بڑی طاقتیں امن قائم کرنے کے لیے کوشش کریں۔یہ بات بھی خوش آئند ہے کہ ٹرمپ خود کو امن کا صدر کہہ رہے ہیں ان کا زیادہ فوکس اندرونی حاکات سے نبٹنا ہے انہوں نے ٹرانس جینڈر کو ختم کرکے عورت اور مرد ہی دو اجناس رکھی ہیں پانامہ نہر جو چین چلا رہا ہے اسے واہس لینے کی بات کی اور افغانستان سے اپنا اسلحہ واپس لینے کی بات کی ہے جو ایسا مطالبہ ہے جس سے خطے میں دوبارہ مسائل پیدا ہو سکتے ہیں امریکہ کے مفادات کا تحفظ کرنا اس کی ذمہ داری ہے اور ہاکستان اہنے مفادات جا تحفظ کرے گا بین الاقوامی تعلقات میں یہی ہوتا ہے۔ ٹرمپ کے پہلے دور میں 2018 میں ٹرمپ کے اس وقت کے سیکرٹری آف سٹیٹ مائیک پومپیو نے آئی ایم ایف سے کہہ دیا تھا کہ اگر پاکستان کو دی گئی رقم چینی قرض کی ادائیگی کے لیے استعمال ہوئی تو پاکستان کا بیل آٹ پیکج مسترد کردیا جائے۔ ٹرمپ انتظامیہ کے تحت امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کا بنیادی مرکز فوجی تعلقات ہوں گے۔ ٹرمپ کا عہدہ سنبھالنے سے قبل امریکہ کا چار پاکستانی کمپنیوں پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ، جن میں سرکاری نیشنل ڈویلپمنٹ کمپلیکس بھی شامل ہے، جو ملک کے طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل پروگرام پر کام کر رہی ہیں اور دسمبر میں امریکی قومی سلامتی کے نائب مشیر جون فنر کا یہ بیان کہ پاکستان کے طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل پروگرام پر کام کر رہے ہیں، امریکہ کے لیے ایک ابھرتا ہوا خطرہ تھا جو واشنگٹن کے مزاج کی عکاسی کرتا ہے۔ اگرچہ امریکہ اور پاک فوج کا سات دہائی پر محیط ایک پرانا رشتہ ہے اور ٹرمپ کی ٹیم تحفظات کے باوجود پاکستان فوج کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ برقرار رکھے گی۔ ٹرمپ اپنے دوسرے دور حکومت میں دنیا میں امن قائم کرنے کا نعرہ لگا رہے ہیں جس کے لئے وہ کچھ بھی کر گزرنے کے لئے تیار نظر آتے ہیں اسی تناظر میں افغانستان میں داعش، خراسان جیسے گروپوں کے خطرے سے نمٹنے کے لیے امریکہ اور پاک فوج اہم اتحادی ثابت ہوسکتے ہیں۔ ایک اور شعبہ جہاں ٹرمپ انتظامیہ پاکستان پر بلاواسطہ اور بالواسطہ دبا ڈالے گی وہ اسرائیل کو سفارتی طور پر تسلیم کرنا ہے۔اقتدار سنبھالنے سے پہلے غزہ فائر بندی میں ٹرمپ کا کردار اہم ہے۔ مشرق وسطی میں ایران کو مزید تنہا کرنے اور اسرائیل اور اس کے عرب پڑوسیوں کے درمیان دشمنی کو کم کرنے کے لیے ٹرمپ انتظامیہ سفارت کاری کی دوبارہ شروع کرے گی۔ پاکستان کو موجودہ حالات میں بہت احتیاط سے کام لینا ہو گا اور ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ بات چیت میں قومی مفادات کو ملحوظ خاطر رکھنے سمیت اپنے داخلی معاملات میں امریکی مداخلت کا راستہ روکنا پڑے گا۔امریکہ میں صدارتی کمان تبدیل ہوگئی ہے اسلامی دنیا درپیش چیلنج سے نبٹنے کے لیے دوسروں پر انحصار کرنے کی بجائے خود کو طاقت ور بنائے۔ اگر ہم اتحاد اور وابستگی کی دولت سے یوں ہی محروم رہے توپھر ایک ایک کرکے مسلمان ممالک بربادیوں کی داستان رقم کرتے رہیں گے ۔

ای پیپر دی نیشن