تفہیم مکالمہ... ڈاکٹر جمیل اختر
jamillahori@gmail.com
دنیا بھر میں 24 جنوری کو "عالمی یوم تعلیم" کے طور پر منایا جاتا ہے، جس کا مقصد تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔ یہ دن محض ایک جشن نہیں بلکہ ایک عہد ہے، جو افراد، حکومتوں اور معاشروں کو دعوت دیتا ہے کہ وہ تعلیم کے اس اہم کردار کو تسلیم کریں جو مساوی، پائیدار اور پرامن معاشروں کی تشکیل میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ دن ہمیں سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ کس طرح تعلیم سماجی ترقی، اقتصادی استحکام اور معاشرتی انصاف کے لیے بنیاد فراہم کرتی ہے۔ اقوامِ متحدہ تعلیم کو ایک بنیادی انسانی حق اور ترقی کا سنگِ بنیاد قرار دیتی ہے۔ تعلیم کے ذریعے ہی ہم افراد کی صلاحیتوں کو اجاگر کرتے ہیں، انہیں روایات کو چیلنج کرنے، نئے حل پیش کرنے اور اپنی کمیونٹی میں مثبت کردار ادا کرنے کے قابل بناتے ہیں۔ اسلامی نقطہ نظر سے، تعلیم ایک مقدس عمل اور انفرادی و اجتماعی ترقی کا محور ہے۔ قرآن و سنت میں تعلیم کو غیر معمولی اہمیت دی گئی ہے، اور یہی وہ بنیاد ہے جو امت مسلمہ کو علم اور حکمت کی راہوں پر گامزن کرتی ہے۔پاکستان جیسے بے پناہ صلاحیتوں والے ملک کے لیے یہ دن ایک یاد دہانی بھی ہے کہ ہم کن چیلنجز کا سامنا کر رہے ہیں اور ایک موقع بھی کہ ہم تعلیم کے ذریعے ترقی کا راستہ طے کریں۔
اسلامی نقطہ نظر سے تعلیم کو انتہائی مقدس اور اہم قرار دیا گیا ہے، جس کی ابتدا قرآن کریم کی پہلی وحی "اقر" سے ہوتی ہے، جو پڑھنے اور علم حاصل کرنے کا حکم دیتی ہے۔ قرآن میں علم کو روشنی اور جہالت کو اندھیرا قرار دیا گیا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے، اور فرمایا کہ علم کی تلاش میں نکلنا جنت کے راستے پر چلنے کے مترادف ہے۔ اسلام نے علم کو ایمان کے بعد سب سے اعلیٰ درجے پر رکھا اور جاہل اور عالم کو برابر قرار دینے سے انکار کیا۔ قرآن کریم بار بار غور و فکر، تدبر اور تفکر کی تلقین کرتا ہے، جو علم کی بنیاد ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ "علم حاصل کرو چاہے تمہیں چین تک جانا پڑے"، اس سے پتہ چلا کہ علم کے حصول کی کوئی جغرافیائی حد نہیں۔ اسلامی تاریخ میں علم کو مسجدوں اور مکاتب کے ذریعے فروغ دیا گیا۔ قرآن نے علم کو انسان کی اشرف المخلوقات ہونے کی بنیاد قرار دیا اور حضرت آدم کو فرشتوں پر فضیلت علم کی بنا پر دی گئی۔ علم دین اور دنیا دونوں کو سمجھنے کا ذریعہ ہے اور اسلام میں دینی اور دنیاوی تعلیم کو الگ نہیں کیا گیا بلکہ دونوں کو ایک دوسرے کا لازم و ملزوم قرار دیا گیا۔ نبی کریم ? نے جنگ بدر کے قیدیوں کو علم سکھانے کے بدلے رہائی دی، جس سے تعلیم کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ علم کو صدقہ جاریہ کہا گیا ہے، جس کا اجر انسان کے مرنے کے بعد بھی جاری رہتا ہے۔ اسلام نے صرف علم حاصل کرنے کی نہیں بلکہ اسے دوسروں تک پہنچانے کی بھی تلقین کی ہے۔ قرآن بار بار قدرت کی نشانیوں پر غور کرنے کا کہتا ہے، جو سائنس کے دروازے کھولتا ہے۔ اسلام نے خواتین کی تعلیم پر زور دیا اور کہا کہ ایک ماں کی گود بچے کی پہلی درسگاہ ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق علم کو صحیح نیت کے ساتھ حاصل کیا جائے تو یہ عبادت کا درجہ اختیار کر لیتا ہے، اور یہی علم دنیا و آخرت کی کامیابی کی کنجی ہے۔ اسلامی تاریخ کے ابتدائی ادوار میں مسلمانوں نے علم کے میدان میں بے شمار کارنامے انجام دیے۔ اسلامی اسکالرز نے نہ صرف دینی علوم بلکہ طب، ریاضی، فلکیات، اور فلسفہ جیسے دنیوی علوم میں بھی رہنمائی فراہم کی۔ امام غزالی، ابن سینا، فارابی اور دیگر مسلم علماء نے دینی و دنیاوی علوم میں اہم خدمات انجام دیں۔ بیت الحکمت اور مدارس کے نظام نے علمی ترقی کے ایسے سنہری دور کو جنم دیا جس کی مثالیں آج بھی دی جاتی ہیں۔
پاکستان میں تعلیم کا شعبہ کئی چیلنجز سے دوچار ہے۔ ملک میں 2 کروڑ 50 لاکھ بچے اسکول جانے سے محروم ہیں، جو دنیا میں اسکول نہ جانے والے بچوں کی دوسری بڑی تعداد ہے۔ یونیسف کے مطابق، دیہی علاقوں میں 50 فیصد سے زائد لڑکیاں ابتدائی تعلیم مکمل نہیں کر پاتیں، جبکہ کچھ علاقوں میں یہ شرح 70 فیصد تک پہنچ جاتی ہے۔ 32 فیصد لڑکے اور 59 فیصد لڑکیاں اسکول چھوڑ دیتے ہیں۔ سرکاری اسکولوں کی تعداد محدود اور سہولیات ناکافی ہیں، جہاں 40 فیصد سے زائد اسکول پینے کے صاف پانی، بیت الخلا، اور بجلی جیسی بنیادی ضروریات سے محروم ہیں۔ تعلیمی بجٹ جی ڈی پی کا صرف 1.77 فیصد ہے، جو خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں شرمناک حد تک کم ہے۔ پاکستان میں 22.8 فیصد اساتذہ غیر تربیت یافتہ ہیں، اور دیہی علاقوں میں ایک ہی استاد کئی جماعتوں کو پڑھانے پر مجبور ہوتا ہے۔ نصاب میں تضادات، دینی و دنیاوی علوم میں تقسیم، اور یکساں تعلیمی نظام کی عدم موجودگی نے نظام تعلیم کو مزید کمزور کر دیا ہے۔ بلوچستان کے 60 فیصد اسکول ایک کمرے پر مشتمل ہیں، اور 23 فیصد بچوں کو سکول جانے کے لیے دو کلومیٹر سے زائد فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ، نجی تعلیمی ادارے عوام کی پہنچ سے باہر ہیں، جہاں فیسیں ناقابل برداشت حد تک زیادہ ہیں۔ تعلیم کی ان محرومیوں نے پاکستان میں بہت سے معاشرتی مسائل کو جنم دے دیا ہے۔
پاکستان میں تعلیمی نظام کی بہتری کے لیے سب سے پہلے تعلیمی بجٹ میں اضافہ کرنا ضروری ہے تاکہ اسکولوں کی بنیادی سہولتیں فراہم کی جا سکیں۔ تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی تربیت کو اولین ترجیح دی جائے تاکہ وہ جدید تدریسی طریقوں سے واقف ہوں۔ نصاب میں جدید سائنسی، تکنیکی اور تحقیقی مواد شامل کیا جائے تاکہ طلباءکا عالمی سطح پر مقابلہ ممکن ہو سکے۔ دیہی علاقوں میں تعلیمی سہولتوں کی فراہمی کے لیے حکومت خصوصی پروگرامز شروع کرے۔ نجی اور سرکاری تعلیمی اداروں میں فرق کو کم کرنے کے لیے یکساں تعلیمی معیار متعارف کرایا جائے۔ اسکولوں میں انٹرنیٹ اور کمپیوٹر کی سہولت فراہم کی جائے تاکہ طلباءکو جدید ٹیکنالوجی کا علم ہو۔ تعلیمی اداروں میں اخلاقی تعلیم کو شامل کیا جائے تاکہ طلباءکی شخصیت میں توازن اور مثبت رویہ پیدا ہو۔ خواتین کی تعلیم کے حوالے سے آگاہی مہم چلائی جائے اور دیہی علاقوں میں لڑکیوں کے لیے خصوصی اسکولز قائم کیے جائیں۔ تحقیقی سرگرمیوں کو فروغ دیا جائے اور جامعات میں تحقیق کے لیے خصوصی فنڈز مختص کیے جائیں۔ تعلیمی نصاب میں قومی ثقافت، تاریخ اور اقدار کو شامل کیا جائے تاکہ طلباءمیں اپنے ملک سے محبت اور وابستگی پیدا ہو۔ تعلیمی اداروں میں کھیلوں اور غیر نصابی سرگرمیوں کے لیے مناسب سہولتیں فراہم کی جائیں۔ آن لائن تعلیم کے پروگرامز کو مزید فعال کیا جائے تاکہ دور دراز علاقوں میں رہنے والے طلباء کو بھی تعلیم کی سہولت مل سکے۔ طلباءکی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لیے فنون لطیفہ اور تخلیقی پروگرامز کو نصاب کا حصہ بنایا جائے۔
تعلیم کا عالمی دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ علم کی روشنی ہر معاشرتی مسئلے کا حل ہے اور تعلیم کا مقصد انسان کا اپنی ذات، معاشرتی ذمہ داریوں اور انسانیت کے ساتھ تعلق کو سمجھنا ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے علم کا حصول نہ صرف ایک انفرادی ذمہ داری ہے بلکہ یہ اجتماعی ترقی کا ذریعہ بھی ہے۔ پاکستان میں تعلیم کے شعبے کو درپیش چیلنجز کے حل کے لیے سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے۔ یاد رہے کہ اگر ہم اپنے تعلیمی نظام میں تخلیقی سوچ، سوال کرنے کی عادت اور خود احتسابی کی جگہ صرف رٹنے کی ترغیب دیتے ہیں، تو ہم اصل تعلیم کے مقصد کو فراموش کر رہے ہیں۔