پاکستانی خواتین اور فتویٰ سازی

تفہیم مکالمہ... ڈاکٹر جمیل اختر
jamillahori@gmail.com

گزشتہ چند دہائیوں سے پاکستان کے معاشرتی، سیاسی، اور اقتصادی میدانوں میں خواتین کی شمولیت پہلے سے بڑھ رہی ہے، لیکن جب بات دینی و فقہی امور اور فتویٰ سازی کی آتی ہے تو خواتین کو اکثر پس منظر میں رکھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں آج تک اس شعبے میں خواتین کی شمولیت کو نمایاں سطح پر نہیں دیکھا گیا حالانکہ ان کا سماجی اور مذہبی اثرات پر انقلابی اثر پڑ سکتا ہے۔ بیشتر علماء حضرات کا خیال ہے کہ خواتین کے فتویٰ دینے سے دینی معاملات میں خلل پیدا ہوگا، اسی قدامت پسندانہ سوچ کی وجہ سے پاکستانی معاشرے میں خواتین کا علمی مقام اور قابلیت نظرانداز ہوتی جا رہی ہے۔ کچھ علماءکا خیال ہے کہ خواتین دینی معاملات میں مردوں کے برابر نہیں ہوسکتیں، جبکہ یہ محدود سوچ معاشرتی و دینی ترقی کے راستے میں رکاوٹ ہے۔ ماضی میں ایسی مثالیں بھی ملتی ہیں جہاں علماء نے خواتین کے حکمران بننے کی مخالفت کی اور خواتین کے کسی بھی بڑے عہدے پر فائز ہونے کو غیر اسلامی قرار دینے کی کوشش کی۔ ایسے رویوں سے نہ صرف خواتین کی حوصلہ شکنی ہوئی بلکہ یہ رویّے مذہبی حلقوں میں سخت بنیاد پرستی کو فروغ دینے کا سبب بھی بنے۔
اسلامی فقہ میں فتویٰ ایک نہایت اہم ذمہ داری ہے، جس کے ذریعے مسلمانوں کو ان کی روزمرہ زندگی کے مسائل میں رہنمائی فراہم کی جاتی ہے۔ فقہی معاملات میں فتاویٰ، معاشرتی اور اخلاقی امور پر دینی رہنمائی فراہم کرتے ہیں، اور یہ رہنمائی اسی وقت مو¿ثر ہوتی ہے جب اس میں متعلقہ افراد کے مسائل اور حالات کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔ جب بات خواتین کی ولادت ، صحت، خانگی نوعیت کے پیچیدہ، حساس، ذاتی اور مخصوص مسائل کی ہو، تو مرد مفتی ان مسائل کو شاید اس گہرائی سے نہ سمجھ سکیں جیسے ایک خاتون عالمہ یا مفتیہ سمجھ سکتی ہے اور اپنے ذاتی تجربات اور چیلنجز کی بنیاد پر زیادہ مو¿ثر رہنمائی فراہم کر سکتی ہے۔ خواتین مفتیوں کا ہونا نہ صرف ان کے لیے خودمختاری کا احساس پیدا کرتا ہے بلکہ دیگر خواتین کو دینی معاملات میں حقیقی نمائندگی بھی فراہم کرتا ہے۔
اسلامی تاریخ میں خواتین نے علم اور رہنمائی کے میدان میں گراں قدر کردار ادا کیا ہے، جس کی نمایاں مثال حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں جو علم، دانش، اور فتویٰ دینے میں مشہور تھیں۔ حضرت عائشہؓ کے علاوہ، حضرت ام سلمہؓ اور حضرت فاطمہؓ جیسی خواتین نے بھی اسلامی امور میں رہنمائی فراہم کی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام نے خواتین کو علمی ذمہ داریاں ادا کرنے اور امت کی رہنمائی کرنے کا مکمل اختیار دیا۔ موجودہ دور میں کچھ مسلم ممالک میں خواتین کے فتویٰ دینے کے عمل کو فروغ دیا جا رہا ہے، جیسا کہ مصر، ترکی، انڈونیشیا اور ملائیشیا جیسے ممالک میں خواتین کو فتویٰ دینے کی باقاعدہ تربیت دی جاتی ہے اور ان خواتین کو رسمی طور پر فتویٰ دینے کا اختیار دیا جاتا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ فقہی علم کا حق مردوں تک محدود نہیں بلکہ خواتین بھی اس میں مساوی حصہ دار ہیں۔ ان مثالوں سے ہمیں یہ سبق بھی ملتا ہے کہ اگر اسلامی تاریخ میں اور دیگر اسلامی ممالک میں خواتین کو فتویٰ دینے اور امت کی رہنمائی کرنے کا حق حاصل ہے، تو پاکستانی خواتین کو بھی یہ حق ملنا چاہیے۔
آج کے دور میں اکثر ممالک میں خواتین مفتی یا تو موجود نہیں یا ان کی تعداد بہت محدود ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ فتویٰ جاری کرنے والے ادارے زیادہ تر مرد علما پر مشتمل ہیں اور اس روایت کو چیلنج کرنا شاید معیوب سمجھا جاتا ہے، یا بعض لوگ یہ مانتے ہوں گے کہ خواتین کے فتویٰ دینے سے دین میں کوئی تبدیلی آ جائے گی یا ان کے فیصلے شریعت سے متصادم ہوں گے۔ درحقیقت پاکستانی معاشرے میں معاشرتی روایات، مذہبی انتہا پسندی اور قدامت پسند تشریحات نے خواتین کے فتوے دینے کے حق کو دھندلا دیا ہے، حالانکہ اسلامی تعلیمات مرد و عورت کو یکساں طور پر علم حاصل کرنے کا حق دیتی ہیں۔ مذہبی قیادت کو مردوں تک محدود رکھنے سے خواتین کی رائے کو نظرانداز کر دیا گیا ہے، جس سے معاشرتی مسائل پر ان کی رہنمائی کا دائرہ بھی محدود ہو گیا ہے۔ علما اور مذہبی رہنماو¿ں کو چاہیے کہ وہ قدامت پسند سوچ ترک کریں اور خواتین کو فتویٰ دینے کے عمل میں شامل کریں۔ اس سے نہ صرف اسلام کی حقیقی روح اجاگر ہوگی بلکہ پاکستانی معاشرے میں مثبت تبدیلیاں بھی آئیں گی۔
دینی معاملات میں خواتین کی شمولیت سے معاشرتی توازن میں بہتری آتی ہے، خاص طور پر ان معاملات میں جہاں خواتین کے مخصوص مسائل کو سمجھنے اور حل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ دور جدید کے مسائل اور چیلنجز کو مدنظر رکھتے ہوئے خواتین کی دینی رہنمائی میں شرکت نہایت اہم ہے۔ اسلام میں انصاف اور مساوات کی روح عورت کو علم کی روشنی میں رہنمائی کا موقع دیتی ہے۔ خواتین مفتیوں کی موجودگی اسلامی معاشرے میں مسائل کے حل کو مزید قابل قبول اور قابل عمل بنا سکتی ہے، جبکہ ان کی بصیرت دور جدید کے مسائل پر مزید موثر اور موزوں رہنمائی فراہم کر سکتی ہے۔ قرآن و حدیث میں مشاورت کا حکم اور اسلامی مساوات کے اصول اس بات کے ضامن ہیں کہ خواتین کو فتاویٰ دینے کا حق دینا اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہے۔ اس سے نہ صرف خواتین کی خودمختاری میں اضافہ ہوگا بلکہ معاشرتی ہم آہنگی اور اتحاد کو بھی فروغ ملے گا۔ اسلامی روایات میں خواتین کے کردار کو زندہ رکھ کر اجتہاد اور دینی فہم کو تقویت دی جا سکتی ہے، جس سے نئی نسلوں میں اسلامی علم کا فروغ ہوگا۔ خواتین کا فتویٰ دینا ان کی خود اعتمادی اور اسلامی معاشرت میں ان کے مثبت کردار کی علامت ہے، اور یہ مردانہ برتری کے تاثر کو ختم کرنے کا ذریعہ بھی ہے۔ اس سے دینی اداروں پر مرد علماءکا بوجھ بھی کم ہوگا، اور خواتین کے مسائل کو بہتر طور پر سمجھا اور حل کیا جا سکے گا۔ جب خواتین کے مخصوص دینی اور اخلاقی مسائل میں ان کے علم اور فہم کو استعمال کیا جائے گا تو فتاویٰ میں صنفی امتیاز کا خاتمہ ممکن ہوگا، اور اسلامی معاشرت میں مساوات اور انصاف کے اصول مضبوط ہوں گے۔
پاکستان میں خواتین مفتیوں کی تشکیل کے لیے دینی مدارس اور اسلامی اداروں کو خواتین کے لیے اعلیٰ تعلیم اور فتویٰ سازی میں تربیت فراہم کرنی چاہیے۔ ہر ضلع میں خواتین کے لیے مخصوص ادارے قائم کیے جائیں، جہاں وہ اسلامی علم میں ماہر بن کر بطور مفتیہ معاشرتی و دینی مسائل میں رہنمائی فراہم کر سکیں۔ ان اداروں کے ذریعے خواتین علماءکی نئی نسل کو پروان چڑھانے سے دینی رہنمائی میں خواتین کی شرکت ممکن ہوگی اور معاشرے میں دینی مسائل پر ایک جامع اور معتبر آواز ابھرے گی، جو خواتین کے مخصوص مسائل کو بہتر طور پر سمجھنے میں مو¿ثر ثابت ہوگی۔
خواتین کو فتویٰ دینے کا حق تسلیم کرنا نہ صرف ایک اصلاحی قدم ہے بلکہ یہ اسلامی معاشرت میں حقیقی برابری کی طرف ایک اہم پیش رفت ہے۔ یہ عمل خواتین کو علمی میدان میں حصہ دار بنانے کے ساتھ ساتھ دین کے مکمل فہم کو فروغ دینے کا باعث بنے گا۔ اسلامی تاریخ میں خواتین کا دینی علوم میں کردار نمایاں رہا ہے، اور آج بھی فقہی اور بالخصوص خواتین کے مسائل میں ان کی رہنمائی کا سلسلہ ضروری ہے۔ ہمیں پاکستان میں ایک ایسی فضا پیدا کرنی ہوگی جہاں خواتین اپنے فقاہت کو بروئے کار لا کر معاشرتی، مذہبی اور علمی شعبوں میں مثبت تبدیلی کا سبب بنیں۔

ای پیپر دی نیشن