تعلیم و تدریس کا معروف نام ملک اﷲ بخش مرحوم

”استاد کی کتاب زندگی کے سرورق پر علم نہیں لکھا ہوتا‘ محبت کا عنوان ہوتا ہے‘ اسے انسانوں سے محبت ہوتی ہے سماج جن خوبیوں کا حامل ہے ان سے محبت ہوتی ہے۔ ان ننھی ننھی جانوں سے محبت ہوتی ہے جو آگے چل کر ان خوبیوں کی حامل بننے والی ہوتی ہیں یہ اس میں مدد دیتا ہے اس کام میں اپنے دل کے لئے راحت اور اپنی روح کے لئے تسکین پاتا ہے“ اس عبارت کی تفسیر و تشریح اور مطالب و معانی معروف ماہر تعلیم نے جو دانشور‘ بہترین منتظم‘ مخلص اور شفیق استاد ملک اﷲ بخش مرحوم کا تدریسی عمل ہے۔ انہوں نے اپنی ساری زندگی اس نیک مقصد کے لئے قربان کر دی۔ محکمہ ڈاک کی سرکاری ملازمت ترک کر دی‘ بی ٹی کا امتحان پاس کیا اور شعبہ تدریس میں آگئے فروغ تعلیم اور قومی ترقی کے لئے سرزمین ملتان کی پیشانی کا جھومر بن کر چمکے۔ ملت ہائی سکول ملتان‘ اسلامیہ ہائی سکول دولت گیٹ ملتان اور اسلامیہ ہائی سکول عام خاص باغ ملتان میں تعلیمی و تدریسی خدمات سرانجام دیں۔ 1954ءمیں اسلامیہ ہائی سکول حرم گیٹ ملتان میں صدر معلم کے طورپر چارج سنبھالا۔ سکول کی قسمت جاگی طلباءکی تعداد میں اضافہ ہوا۔ تدریسی ماحول بہتر ہوا چند بوسیدہ کمروں کی بجائے نئی شاندار دو منزلہ دیدہ زیب عمارت تعمیر ہوئی لائق تجربہ کار اور محنتی اساتذہ ادارہ کی زینت بنے جس کی وجہ سے سالانہ تعلیمی نتائج بلندیوں کو چھونے لگے۔ ملک اﷲ بخش 25 سال تک اس ادارہ میں صدر معلم رہے نصابی اور ہم نصابی سرگرمیوں میں اس ادارہ کی شاندار روایات ملتان کی تعلیمی تاریخ کا حصہ بن گئیں یہ سب کچھ صدر معلم کی تدریس مہارت اور انتظامی صلاحیت کی اساس پر ہوا یہ ادارہ جہالت کے اندھیرے میں روشن ستارہ بن کر چمکا۔ آپ نے قلیل امیدوں اور جلیل مقاصد کو پیش نظر رکھا آپ کی ذات اس سکول کی ترقی‘ ناموری اور شہرت کے لئے امتیازی نشان بن گئی۔ ملنساری کے ساتھ ساتھ باغ و بہار شخصیت کے حامل تھے طبعیت میں موج صبا کا خرام تھا آپ صرف ماہر تعلیم نہیں بلکہ نیک سیرت بزرگ صاحب دل اور صاحب کردار انسان کے طورپر جانے اور پہچانے جاتے تھے موٹی موٹی آنکھیں‘ فربہ جسم‘ خوشنما مسکراتا ہوا چہرہ قلب و نظر کی وسعتوں کی نشان دہی کرتا آپ ہمیشہ دہم جماعت کے کمزور سیکشن کو پڑھاتے۔ معلوم سے نامعلوم اور آسان سے مشکل کا اصول اپناتے۔ سالانہ نتیجہ شاندار ہوتا طلباءاور والدین دعائیں کرتے۔ آپ دوستوں کے دوست اور یاروں کے یار تھے جس محفل میں موجود ہوتے اسے جاندار اور شاندار بنا دیتے۔ وہ بہت معاملہ فہم تھے ان کی تاریخی اور دلچسپ باتوں میں مٹھاس اور جادو ہوتا۔ ایسی گفتگو ہوتی کہ پتھریلی زمین سے گل لالہ پیدا ہوتے ماتحت عملہ کا خاص خیال رکھتے اور حوصلہ افزائی کرتے دوست دار اور دوست نواز تھے ان کا حلقہ احباب بہت وسیع تھا جو امرائ‘ حکام‘ وکلاءتجار کے علاوہ غرباءپر مشتمل تھا آپ خوش پوشاک تھے اجلا اور ستھرا لباس پہنتے سفید شلوار قمیض جناح کیپ اور خوب صورت اچکن کا اضافہ کرتے۔ سبز رنگ کی ڈائنمو والی صاف ستھری سائیکل آپ کی شخصیت اور آپ کا وقار بڑھاتی۔ 1978ءمیں سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہوئے آپ کی مقبولیت کی وجہ سے الوداعی تقریبات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
ملتان کے مختلف تعلیمی اداروں میں بہت خوب صورت انداز میں الوداعی تقاریب کا اہتمام کیا گیا ا نکے اپنے سکول میں اساتذہ کی طرف سے ایک بہت پروقار الوداعی محفل سجائی گئی اساتذہ و دیگر معززین کی کافی تعداد موجود تھی مخدوم علمدار حسین گیلانی‘ مخدوم رحمت حسین گیلانی اور مخدوم فیض مصطفیٰ گیلانی مہمانان خصوصی تھے ان کی شاندار تدریسی اور انتظامی خدمات کی تعریف کی گی انہیں خراج تحسین پیش کیا گیا اس موقع پر ساز و آواز کے ساتھ خوبصورت غزل پیش کی گئی ”انشا جی اٹھو اب کوچ کرو“ سامعین اور حاضرین آبدیدہ ہو گئے۔
ان کی اولاد میں ایک بیٹی ماہر تعلیم‘ دو بیٹیاں ڈاکٹر دو بیٹے ملک سے باہر اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔ 1995ءمیں علم و ادب اور درس و تدریس کا ماہ تخت ملتان کی مٹی کو عزیز ہو گیا۔
جنہیں ہم دیکھ کر جیتے تھے ناصر
وہ لوگ آنکھوں سے اوجھل ہو گئے ہیں

ای پیپر دی نیشن