گلوبل ویلج
مطلوب احمد وڑائچ
matloobwarraich@yahoo.com
ہر سال تقریباً دو سے اڑھائی لاکھ پاکستانی فریضہ حج کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب کا رخ کرتے ہیں۔ بظاہر یہ ایک مذہبی عمل ہے، مگر اس کے پیچھے ایک وسیع تر نظام، اربوں روپے کی معیشت اور کئی انتظامی چیلنجز جْڑے ہوتے ہیں۔ لاکھوں افراد کا ایک ہی وقت میں ایک ملک سے دوسرے ملک جانا، وہاں قیام، طعام اور عبادات کی ادائیگی جیسے مراحل حکومت اور نجی شعبے کے لیے ایک بڑا امتحان ہوتے ہیں۔
ایک ہوائی جہاز میں اوسطاً 250 افراد سوار ہو سکتے ہیں، اس لحاظ سے اڑھائی لاکھ افراد کو سعودی عرب پہنچانے کے لیے سینکڑوں پروازیں درکار ہوتی ہیں۔ صرف سفر ہی نہیں، بلکہ مکہ و مدینہ میں ان حاجیوں کے قیام، خیموں، قربانی،خوراک، طبی سہولیات اور دیگر ضروریات کی فراہمی بھی ایک منظم انتظامیہ کی متقاضی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں اس عمل کو سالانہ منصوبہ بندی کے بجائے آخری وقت پر جلد بازی میں مکمل کیا جاتا ہے، جس سے مشکلات مزید بڑھ جاتی ہیں۔
زرمبادلہ کا بہاؤ اور حج کی معیشت:پاکستانی بیرونِ ملک مقیم افراد ہر سال وطن میں اربوں ڈالر زرمبادلہ بھیجتے ہیں۔ لیکن حیران کن طور پر ان ہی میں سے کئی افراد جب حج یا عمرہ ادا کرتے ہیں تو وہی زرمبادلہ سعودی معیشت کو واپس چلا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا پہلو ہے جسے اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے۔موجودہ اعداد و شمار کے مطابق، سعودی عرب میں تقریباً 25 لاکھ پاکستانی مزدور اور محنت کش مقیم ہیں۔ ان میں سے ایک بڑی تعداد ہر سال حج یا عمرہ کی ادائیگی کی خواہش رکھتی ہے۔ اگر ان میں سے صرف 40 فیصد بھی سالانہ حج کریں، تو یہ نہ صرف پاکستانی عوام کی مذہبی وابستگی کا مظہر ہے، بلکہ ایک کثیر زرمبادلہ بھی سعودی معیشت میں جمع ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ لاکھوں پاکستانی بھی جو پاکستان سے براہِ راست حج یا عمرے پر جاتے ہیں، ہر سال اربوں روپے کی صورت میں سعودی عرب کی معیشت کو مستحکم کرتے ہیں۔
عمرہ اگرچہ فرض نہیں، لیکن پاکستان میں اس کی مذہبی اہمیت اور عقیدت اس حد تک ہے کہ لاکھوں لوگ اپنی زندگی کی جمع پونجی خرچ کر کے یا خیرات و زکوٰۃ کے ذریعے رقم جمع کر کے عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں(ایک محتاط اندازے کے مطابق صرف رمضان کے مہینے میں دنیا بھر میں موجود پاکستانیوں کی کثیر تعداد اور پاکستان سے تقریباً پچاس لاکھ لوگ عمرے کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب کا رخ کرتے ہیںاور دس ارب ڈالرز کی خطیر رقم رمضان کے خصوصی عمرہ کی ادائیگی پر خرچ کی جاتی ہے جو کہ پاکستان کے سالانہ بجٹ کے قریب تر ہے)۔ کئی لوگ کئی برسوں تک پیسے بچا کر یا قرض لے کر اس نیت سے جاتے ہیں کہ شاید اللہ کا گھر دیکھنا نصیب ہو جائے۔لیکن یہ سوچنے کی بات ہے کہ جو خطیر رقم عمرے پر خرچ ہوتی ہے، اگر وہ پاکستان میں تعلیمی اداروں، ہسپتالوں، فلاحی منصوبوں یا معاشی بہتری پر خرچ ہو تو شاید اس کا فائدہ اجتماعی طور پر قوم کو زیادہ ہو۔ اس پر کوئی فتویٰ یا دینی رائے دینا مقصد نہیں، لیکن بطور پالیسی ساز ریاست کو ضرور سوچنا چاہیے کہ حج و عمرہ جیسے مذہبی فرائض کو منافع بخش کاروبار میں بدل دینا کہاں تک درست ہے؟
سرکاری حج پالیسی: انتظام یا مفادات؟پاکستانی حکومت ہر سال حج پالیسی کا اعلان کرتی ہے، جس میں سرکاری اور نجی دونوں کوٹے شامل ہوتے ہیں۔ لیکن اکثر یہ پالیسی تاخیر سے آتی ہے، جس کے باعث نجی حج آپریٹرز کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس سال بھی یہی ہوا، جب حج کی پالیسی وقت پر جاری نہ ہو سکی۔ حج جیسے اہم اور حساس معاملے میں تاخیر صرف بے ترتیبی نہیں، بلکہ کئی ارب روپے کے نقصان کا باعث بھی بن جاتی ہے۔
پاکستان کی مختلف ٹریول ایجنسیاں ایڈوانس میں سعودی عرب میں ہوٹل، خیمے، ٹرانسپورٹ اور دیگر سہولیات کی بکنگ کرتی ہیں۔ ایاٹا کے مطابق، اس سال تقریباً 700 ارب روپے کی پیشگی ادائیگیاں کی جا چکی تھیں۔ لیکن سعودی حکومت نے اپنی حج پالیسی میں تبدیلی کر دی، اور پاکستان کی حکومت نے اس پر اتفاق کر لیا، جس کے بعد 72 ہزار نجی کوٹے والے حاجی متاثر ہو گئے۔
واپسی کی رقم اور عوامی تکلیف:جن افراد کی حج درخواستیں رد ہوئیں، یا جن کے لیے بندوبست ممکن نہ رہا، ان کو واپس صرف جزوی رقم دی جاتی ہے، وہ بھی لمبے وقت بعد۔ ایئرلائنز اور ہوٹلز مکمل رقم فوری واپس نہیں کرتے۔ بلکہ کٹوتی کے بعد ہی کچھ رقم لوٹائی جاتی ہے، اور وہ بھی سالوں بعد۔
ان حاجیوں میں بڑی تعداد بزرگ شہریوں کی ہوتی ہے، جن کے لیے حج آخری خواہش ہوتی ہے۔ کئی لوگ بیماری، عمر رسیدگی اور کمزور جسمانی حالت میں صرف اس لیے حج پر جانا چاہتے ہیں کہ شاید دوبارہ زندگی کا موقع نہ ملے۔ لیکن جب ان کی امیدوں پر پانی پھرتا ہے، تو یہ محض مالی نقصان نہیں، بلکہ جذباتی اور روحانی اذیت بھی ہوتی ہے۔
حج پیکجز اور طبقاتی تفریق:اس وقت پاکستان میں حج کے چار بڑے پیکجز دستیاب ہیں:
سب سے سستا: 12 لاکھ روپے،درمیانی پیکج: 17 لاکھ روپے،اعلیٰ پیکج: 24 لاکھ روپے،وی آئی پی پیکج: 36 لاکھ روپے
سوچنے کی بات یہ ہے کہ جس شخص نے اپنی پوری زندگی کی کمائی یا زیورات بیچ کر 12 لاکھ روپے جمع کیے ہوں، اگر اسے بعد میں آدھی رقم بھی واپس نہ ملے یا کئی سال بعد ملے، تو وہ کس حال میں ہو گا؟ حج جیسے مقدس فریضے کو اس حد تک مہنگا اور طبقاتی بنا دینا باعثِ شرمندگی ہے۔
ریاست کی ذمہ داری اور ممکنہ اصلاحات:ریاست کو چاہیے کہ وہ حج و عمرہ کو منافع بخش کاروبار کے بجائے ایک عوامی خدمت سمجھے۔ بھارت سمیت کئی ممالک اپنے حاجیوں کو سبسڈی دیتے ہیں، ان کے سفری اور رہائشی اخراجات کم کرتے ہیں، تاکہ کم آمدنی والے افراد بھی اس فرض کو ادا کر سکیں۔ پاکستان کو بھی اس ماڈل سے سبق لینا چاہیے۔یہ بات سمجھنے کی ہے کہ حج پر جانے والے پاکستانی نہ صرف عبادت گزار ہوتے ہیں بلکہ وہ قوم کے محنت کش، غریب، اور ایمان دار لوگ ہوتے ہیں۔ ان کے ساتھ مالی ناانصافی یا تاخیری رویہ اْن کے ایمان اور ریاست پر اعتماد کو متزلزل کر سکتا ہے۔
نتیجہ: عبادت کا تقدس بحال کرنا ہوگا:حج ایک عبادت ہے، سرمایہ کاری نہیں۔ یہ لوگوں کا اللہ سے تعلق مضبوط کرنے کا ذریعہ ہے، نہ کہ حکومت اور ٹریول ایجنٹس کے لیے کمائی کا ذریعہ۔ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ بروقت حج پالیسی تیار کرے، تمام اسٹیک ہولڈرز کو شامل کر کے شفاف اور منصفانہ نظام رائج کرے، اور حاجیوں کو عزت و احترام دے۔
ریاستی سطح پر حاجیوں کی مالی مدد، سبسڈی اور ان کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے، تاکہ یہ فریضہ صرف مالدار طبقے تک محدود نہ رہے، بلکہ ہر عام پاکستانی کے لیے بھی قابلِ رسائی ہو۔ یہی حقیقی خدمت اور دین سے محبت کی علامت ہو گی۔
رواں سال 72ہزارحج زائرین کو پیش آنے والی مشکلات جہاں ان زائرین کے لیے ذہنی اور معاشی جھٹکے و شاک کا سبب بنی ہے وہیں ہمارے ملک کے سینکڑوں ادارے ،ٹریول ایجنسیاں اور اس کام سے وابستہ کئی ہزار افراد کے دیوالیہ ہو جانے کا شدید خدشہ موجود ہے بلکہ چھوٹے اور درمیانے بزنس سے جڑے ہوئے ان لوگ کا بزنس تباہ ہو جانے کا بھی خدشہ ہے کیونکہ سعودی حکومت اور محکمہ حج سے وابستہ عرب اتھارٹیز کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔اس وقت پاکستانی ٹورز اینڈٹریولزسے وابستہ لوگ کھربوں روپیہ سعودی عرب میں پھنسا کر اپنے معزز صارفین کے ہاتھوں خوار ہو رہے ہیں۔حکومت پاکستان اور وزیراعظم شہبازشریف کو چاہیے کہ وہ سعودی عرب کے ولی عہد شہزاد ہ محمد بن سلمان کو صورت حال کی سنگینی کا بتائیں ، اس لیے کہ پاکستان عمرہ و حج انڈسٹریز میں حکومت سعودی عرب کا سب سے بڑا ’’خریدار و کسٹمر ‘‘ہے ۔ہمیں امید ہے کہ ان کی توجہ سے پاکستان آنے والے دنوں میں شدید بدامنی اور معاشی بدحالی سے بچ سکتا ہے۔