اینٹی ریپ ایکٹ مکمل نافذ نہیں‘ کیسز سب سے زیادہ رپورٹ ہو رہے ہیں: جسٹس عالیہ نیلم

لاہور (خبر نگار) لاہور ہائیکورٹ نے زنا کے الزام میں گرفتار ملزم واجد علی کی درخواست ضمانت پر اٹارنی‘  ایڈووکیٹ جنرل اور پراسیکیوٹر جنرل سمیت آئی جی پنجاب کو آئندہ سماعت 10 فروری پر دوبارہ طلب کر لیا ہے۔ چیف جسٹس مس عالیہ نیلم کی سربراہی میں تین رکنی فل بنچ نے سماعت کی۔ چیف جسٹس مس عالیہ نیلم نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل کو بلایا تھا وہ کیوں نہیں آئے، یہ پورے ملک کا معاملہ ہے، اٹارنی جنرل کو پیش ہونا چاہیے تھا۔ جس پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب  نے عدالت کو بتایا کہ جب سے اینٹی ریپ ایکٹ بنا ڈیڑھ لاکھ کیسز رجسٹرڈ ہوئے۔ جسٹس علی ضیاء باجوہ نے ریمارکس دیئے کہ آپ کی رپورٹ کے مطابق پنجاب میں ہر پندرہ منٹ کے بعد ایک ریپ ہو رہا ہے، ہم تو آپ کے حساب سے بھارت سے آگے نکل گئے ہیں، بھارت تیسرے نمبر پر ہے، وہاں ہر پندرہ منٹ میں ریپ ہو رہا ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہاکہ یہ سب کیسز ریپ کے نہیں ہیں، پنجاب کے ہر سنٹر میں ایسے کیسز کے لیے خواتین تعینات ہیں، میڈیکل افسر اور باقی کو ٹریننگ کرائی جا رہی ہے، جھوٹے مقدمات درج کرانے والوں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جاتی ہے۔ جسٹس علی ضیاء  باجوہ نے ریمارکس دیئے کہ جن لوگوں نے جھوٹے ریپ کے مقدمات درج کرائے ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے ریمارکس میں کہا کہ رپورٹ کے مطابق ریپ کے کیسز سب سے زیادہ رپورٹ ہو رہے ہیں، اس کے بعد منشیات اور قتل کے مقدمات ہیں، اینٹی ریپ ایکٹ مکمل طور پر نافذالعمل نہیں ہے، اینٹی ریپ ایکٹ کی تین سٹیجز ہیں، کیس کو فائل کرنے سے پہلے اینٹی ریپ ایکٹ کو پڑھ لینا چاہیے۔ 30 فیصد ریپ کے جھوٹے کیسز درج کرائے گئے، جینڈر بیسڈ وائلنس کیس کی تحقیقات کے لیے پرفارما میں ٹراما کا کالم شامل کریں، آئی جی پنجاب نے ریپ کیسز کے حوالے سے اچھا کام کیا ہے، جرائم کو ہم سب نے مل کر ہی ختم کرنا ہے، ان کیسز کی تفتیش کے لیے افسروں کی بہترین ٹریننگ کی ضرورت ہے۔ پراسیکیوٹر جنرل پنجاب فرہاد علی شاہ نے مختلف سیکشنز کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ 17 سکیل سے کم کا کوئی پولیس افسر ان کیسز کی تحقیقات نہیں کر سکتا۔آئی جی پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ سیف سٹی اتھارٹی کی مدد سے ورچوئل پولیس سٹیشن قائم کر دیا گیا ہے ، ریپ سے متاثرہ خاتون ای میل، کال یا واٹس ایپ کے ذریعے شکایت درج کرا سکتی ہے۔جسٹس فاروق حیدر نے ریمارکس دیئے کہ رولز میں کچھ ترمیم کی بھی ضرورت ہے، ایڈووکیٹ جنرل حکومت کے علم میں لائیں، آئی جی پنجاب، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب اور ایف آئی اے سب مل کر بیٹھ جائیں رولز میں کمی کوتاہی کو دور کریں۔ 

ای پیپر دی نیشن