دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کا تنازعہ

صدر مملکت آصف زرداری نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے دوران بھی اس بارے میں متنبہ کیا ہے۔بلاول بھٹو بھی اس بارے میں بار بار احتجاج کر رہے ہیں اور سندھ میں دیگر سیاسی جماعتیں بھی احتجاج کررہی ہیں جبکہ دریائے سندھ سے نئی نہریں نکالنے پر سندھ میں احتجاج  بھی شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔ گزشتہ روز سندھ اسمبلی میں بھی تمام جماعتوں نے متفقہ طور پر غیر قانونی کینالز کی تعمیر فوری طور پر روکنے کے لئے قراردادمنظور کی۔ کچھ  لکھاری دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کے فیصلے کو پنجاب کا صوبائی فیصلہ قرار دے رہے ہیں۔ میرے خیال میں وفاق کی منظوری کے بغیر ایسا نہیں کیا جاسکتا۔ گزشتہ دنوں کینالز کی تعمیر کے خلاف کراچی میں ایک احتجاج کے دوران اداروں کے خلاف بھی نعرے لگے ہیں۔ اس بارے میں وفاق کی جانب سے مکمل خاموشی اختیار کی  جانا معاملے کو سنگین تر بنارہا ہے۔یہ بات تو طے ہے کہ پانی پر پہلا حق ہمیشہ ٹیل پر آنے والوں کا ہوتا ہے۔ پہلے تو سندھ کو اس کے کوٹے کا پورا پانی مل رہا ہے اسی لئے تو صوبہ سرسبزوشاداب ہے۔ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ اس معاملے پر وفاق کو فوری طور پر اپنا موقف دینا چاہئے تھا کہ دریائے سندھ سے نئی نکلنے والی نہروں کی قانونی حیثیت کیا ہے اور وزیراعظم تمام وزرائے اعلیٰ کا اس معاملے میں اجلاس طلب کرکے صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کا موجودہ فارمولا دیکھ کر صوبوں کو مطمئن کرتے کہ تمام صوبوں کو فارمولے کے مطابق ہی پانی مل رہا ہے اور نئی نہروں کی تعمیر سے کسی دوسرے صوبے کے پانی کے کوٹے پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اگر دریاؤں میں پانی کم آرہا ہے تو اسی شرح سے صوبوں کے درمیان پانی کے کوٹے میں کمی بھی ہوگی۔ اب اس معاملے میں سب سے پہلے قومی اسمبلی میں بین الصوبائی دریائی پانی کی تقسیم کا نیا فارمولا طے کرکے اسے آئینی شکل دی جائے اور صوبوں کے اس آئینی حق پر ہر صورت عملدرآمد ہونا چاہئے۔ خصوصاً سندھ صوبے کی نہری پانی کی سال بھر کی ضرورت کی بروقت بلاتعطل فراہمی کو یقینی بناکر اسے آئینی تحفظ دیا جانا ضروری ہے۔ صوبوں کے درمیان باہمی پانی کی فراہمی پر کبھی بھی تنازعہ نہیں ہونا چاہئے۔ یہ کام تو فوری طور پر موجودہ حکومت کو کرنا چاہئے۔کسی صورت غیر قانونی کینالز کی تعمیر کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ پہلے ہی خیبرپختونخواہ اور بلوچستان میں کیا حالات ہیں‘ اب سندھ میں بے چینی پیدا کرنے سے ملکی سالمیت کو شدیدخطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ نیشنل ہائی وے اتھارٹی وفاقی ادارہ ہے لیکن سندھ میں موٹرویز کی تعمیر‘ کراچی حیدرآباد‘ سکھر حیدرآباد موٹرویز‘ انڈس ہائی وے اور نیشنل ہائی وے کی تعمیر میں اس کی عدم دلچسپی سے بھی سندھ کے ساتھ امتیازی سلوک کا تاثر پختہ ہو رہا ہے۔ وفاق خاموش ہے اور مختلف لکھاری و احتجاج کرنیوالے کینالز کی تعمیر پر اداروں کو قصوروار قرار دے رہے ہیں۔ اس پروپیگنڈے کا فوری خاتمہ اشد ضروری ہے۔
بین الصوبائی دریائی پانی کی تقسیم کے نئے فارمولے میں یہ بھی طے ہوجانا چاہئے کہ کوئی بھی صوبہ اپنے پانی کے کوٹے کے درست استعمال کے لئے صرف اپنے پانی کی صوبے بھر میں ترسیل کے لئے نئی نہریں تعمیر کرسکتا ہے البتہ کسی بھی صورت دوسرے صوبے کے پانی کے کوٹے میں کوئی کٹوتی نہیں کی جاسکتی البتہ دریاؤں میں پانی کے بہاؤ میں کمی کی صورت میں تمام صوبوں کے درمیان پانی کی اسی شرح سے کمی کا فارمولا بھی طے ہوجائے اور اسے باقاعدہ آئینی تحفظ ملنا چاہئے۔ ساتھ ہی ساتھ وفاق اور صوبوں کو اس معاملے میں ایسا رویہ اختیار کرنا ہوگا کہ صوبوں کے درمیان اعتماد بڑھے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے ڈیم نہ بناکر ملک کو اندھیروں میں ڈبونے اور  بحرانوں کی نذر کرنے کا اعتراف کیاتھا اورکہاتھا کہ 1975ء سے لیکر آج تک جتنی حکومتیں آئی ہیں‘ انہوں نے ڈیموں کی تعمیر پر توجہ نہیں دی جس کی وجہ سے آج ملک اندھیروں اور بدترین بحرانوں کا شکار ہے۔ لیکن اب اس بدترین نااہلی پر رجوع کرنے کا وقت ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ڈکٹیٹرز نے تو پھر بھی ڈیم‘ نہریں اور دریاؤں پر پل بنائے اور ملک میں کئی بڑے کام ہوئے‘ لیکن بدقسمتی سے سیاستدانوں نے ملک کے ساتھ کھلواڑ کیا۔ سیاستدان قوم کے بہترین مفاد کے کسی بھی منصوبے پر اتفاق رائے پیدا نہ کرسکے اور ہمیشہ ایک دوسرے کی کردار کشی کرکے ملک کو بحران در بحران کا شکار کئے رکھا۔ آج حالت یہ ہے کہ دنیا بھر میں بہترین قدرتی آبی وسائل رکھنے والا ملک پانی کے بدترین بحران سے دوچار ہے اور خوراک میں خودکفالت خواب بن گئی ہے حالانکہ ہم اپنے ملک کے قدرتی آبی وسائل سے استفادہ کرتے تو دنیا بھر کو خوراک برآمد کرتے لیکن آج ہم دنیا کی غیر معیاری ترین گندم مہنگے داموں درآمد کرنے پر مجبور ہیں۔بروقت بڑے ڈیموں کی تعمیر سے ہم بجلی کی پیداوار میں بھی دوسرے ملکوں کو بجلی فروخت کرنے کی پوزیشن میں ہوتے لیکن بدقسمتی سے ہم بجلی کی پیداوار کے لئے سالانہ بھاری نقصانات کا شکار ہونے کے باوجود ملک بھر میں بلاتعطل بجلی کی فراہمی میں طویل عرصے سے مسلسل ناکام ہیں اور خطے میں مہنگی ترین بجلی بھی ضرورت مطابق پیدا کرنے کی معاشی پوزیشن سے عاری ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ زراعت کے لئے وافر پانی کی فراہمی سے عاری ہیں لیکن مون سون میں آدھا ملک دریا برد کردیا جاتا ہے۔
جب تربیلا ڈیم بنا تھا اس کے فوری بعد انتہائی سستا دور تھا جب کالا باغ ڈیم کی تعمیری لاگت 7ارب ڈالر کے لگ بھگ تھی تو فوری طور پر منڈا ڈیم‘ اکھوڑی ڈیم‘ کالا باغ ڈیم اور مختلف ڈیم بنائے جاتے۔ میرے خیال سے یہ سارے ڈیم ملاکر اس وقت 15ارب ڈالرز میں تعمیر ہوجاتے اور پاکستان پانی و بجلی کی ضرورت میں خودکفیل ہوجاتا۔ اگر سندھ کی سال بھر کی ضرورت کا وافر پانی صوبے میں ہی دستیاب ہوگا اور چھوٹی بڑی تمام نہریں پختہ ہوجائیں گی تو پھر انڈس ڈیم کی تعمیر کا آغاز کرنے میں سندھ کو ویسے بھی کوئی اعتراض باقی نہیں رہے گا۔صرف یہی نہیں بلکہ پیپلزپارٹی کی ایک سیاسی اور دلیرانہ فیصلے کرنے کی تاریخ ہے۔ اس جماعت نے لاشیں اٹھائیں لیکن کبھی بھی پاکستان توڑنے کی بات نہیں کی۔ آج لوگ صرف اقتدار سے الگ ہوتے ہیں اور پاکستان توڑنے کی دھمکیاں دینے لگتے ہیں۔ کیا قوم کو یاد نہیں کہ ایٹمی پروگرام کی بنیاد کس جماعت کی لیڈرشپ نے رکھی؟ بھٹو شہید ہی ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو پاکستان لائے اور برملا اعلان کیا کہ ہم ایٹمی صلاحیت حاصل کریں گے‘ چاہے ہمیں مٹی کھاکر بھی گزارہ کرنا پڑے۔ پھر قوم نے دیکھا کہ آج الحمداللہ پاکستان کا دفاع ناقابل تسخیر بن چکا ہے تو اس کی بنیادی وجہ بھٹو شہید کا وہ دلیرانہ اور تاریخی فیصلہ ہی تھا کہ آج بھارت جوکہ ہم سے کئی گنا بڑا ملک ہونے کے باوجود پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات نہیں رکھتا۔
اسی طرح قوم کو یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ 2013ء میں زرداری صاحب کی حکومت کے آخری دنوں میں ایران گیس پائپ لائن کا تاریخی معاہدہ کیا گیا اور اس دلیرانہ فیصلے پر عملدرآمد کرلیا جاتا تو آج پاکستان توانائی کے موجودہ بحران کا شکار نہ ہوتا لیکن پیپلزپارٹی کی حکومت جانے کے تقریباً ایک عشرے بعد تک پاکستان میں آنیوالے حکمرانوں کو ایران گیس پائپ لائن منصوبے کو مکمل کرنے کی جرات نہیں ہوئی حالانکہ ایران نے طویل عرصہ قبل ہی اپنی حدود میں گیس پائپ لائن مکمل کررکھی ہے لیکن پاکستان کے حکمرانوں نے اپنی حدود میں گیس پائپ لائن کی تکمیل تو کجا‘ نام تک لینے کی جرات نہیں کی۔ بہرحال پاکستان کی تاریخ میں انقلابی اور دلیرانہ فیصلے کرنے کی پیپلزپارٹی کی پوری ایک سیاسی تاریخ ہے اور موجودہ بحرانوں سے ملک کو نکالنے کے لئے  امید ہے کہ پی پی قیادت  انقلابی فیصلوں کا اعلان کرکے ملک کی تقدیر بدل دے گی۔جو بھی سیاسی لیڈر یہ جرات مندانہ اقدام اٹھا لے گا‘ وہ پاکستان کی تاریخ میں امر ہوجائے گا۔

ای پیپر دی نیشن