رمضان المبارک میں اشیائے صرف کی ہوشربا قیمتوں سے خواتین پریشان

عنبرین فاطمہ 

رمضان کا مہینہ سر پر ہے اور پاکستانی جس چیز سے سب سے زیادہ ڈر رہے ہیں وہ ہے مہنگائی۔ آسمان سے باتیں کرتی ریکارڈ توڑ مہنگائی نے صارفین کے چودہ کے چودہ طبق روشن کر رکھے ہیں۔ گھروں میں استعمال کی عام اشیاء کی موجودہ قیمتوں کا جائزہ لیں تو جو گراسری دو سال پہلے 15 ہزار میں آتی تھی اب 30ہزار تک پہنچ چکی ہے۔ اگرچہ یہی سامان 5 سال پہلے 10 ہزار میں بھی مل جاتا تھا۔ کمانے والے تو مشکل میں ہیں ہی( کہ اب ایک کیا دو روزگاروں سے بھی گزارہ مشکل ہو چکا ہے اور لوگ تین تین کام ایک ساتھ کرنے پر مجبور ہیں) ساتھ ہی ساتھ گھر چلانے والیاں، یعنی خواتین بھی سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ماہانہ ملنے والے خرچے میں سب کچھ کیسے مینج کریں۔ویسے بھی رمضان المبارک آتے ہی پاکستان میں ہر چیز کی قیمت میں دوگنا اضافہ ہونا ہماری پرانی روایت ہے۔ اِس وقت جس چیز کی قیمت میں پہلے ہی دو گنا اضافہ ہو چکا ہے رمضا ن میں اسکی قیمت مزید بڑھ کر اکثریت کی پہنچ سے باہر ہوجائیگی۔اس وقت پھلوں کی قیمتیں پہنچ سے باہر ہیں جیسا کہ کیلے 350 روپے میں مل رہے ہیں اور رمضان میں ان کی قیمت پانچ سو روپے ہو جائیگی۔ سیب ایک کلو 300روپے ہیں رمضان میں ان کی بھی قیمت 500روپے ہوجائیگی اور یہ چیز خود ریڑھیوں والے کہہ رہے ہیں۔آٹا جو کہ اس وقت ڈیڑھ سو روپے کلو ہے ، پانچ کلو آئل کی قیمت پہلے ہی 2700 سے بڑھ کر 3300روپے ہو چکی ہے لیکن ابھی اس پر رمضان کا جمپ لگنا باقی ہے۔گوشت تو دور کی بات ہے آج لوگ سبزی بھی نہیں خرید سکتے۔ اسی طرح سے رمضان المبارک میں جو چیزیں سب سے زیادہ استعمال ہوتی ہیں ان میں بیسن قابل زکر ہے یقینا اس کی بھی قیمت میں رمضان میں ہوشربا اضافہ ہو جائیگا جو کہ پاکستانیوں کے لئے ڈبل مصیبت بننے والی ہے۔اگر 2019 سے اب کی قیمتوں کا جائزہ لیں تو پتا چلتاہے کے 2019 میں کچھ بنیادی ضرورتوں کی سرکاری قیمتیں دال چنا 105 روپے کلو، دال مسور 95-100 روپے کلو، ثابت مسور 85-90 روپے فی کلو، دال ماش 135-140 فی کلو، سفید چنے 115-120 روپے فی کلو، بیسن 110-115 فی کلو اور چاول 110 سے 130 روپے فی کلو تھے۔ اب جبکہ انکی سرکاری قیمتیں دال چنا 215-230 روپے فی کلو، دال مسور 235 روپے فی کلو، ثابت مسور 250 فی کلو، دال ماش 355 فی کلو، دال مونگ 255 فی کلو، بیسن 225 روپے فی کلو، سفید چنے 400 روپے فی کلو اور چاول 230 روپے فی کلو ہیں۔ لیکن سرکاری قیمتوں پر یہ اشیا خورد و نوش کسی بھی دکان پر دستیاب نہیں  ہوتی ہیں۔ اگر کسی دکان پر ان میں سے کوئی شے سرکاری نرخ پر دستیاب ہو تو اسکا معیار اتنا خراب ہوتا ہے کے وہ جانوروں کو بھی کھلائی جائے تو وہ بھی بیمار پڑ جائے۔کچھ ایسی ہی صورتحال اس وقت سبزی ، پھل، گوشت اور دودھ  دہی کی قیمتوں میں ہے۔ اس وقت ہر کوئی مہنگائی کا رونا روتا ہوا نظر آرہا ہے خصوصی طور پر اس مہنگائی نے مڈل کلاس طبقے کی کمر توڑ دی ہے گھروں کا بجٹ بری طرح متاثر ہو چکا ہے۔ مہنگائی سے سب سے زیادہ متاثر طبقہ خواتین کا ہے وہ سراپا احتجاج ہے کہ کہاں کریں اور کیا نہ کریں تھوڑے سے پیسوں میں گھر چلائیں کرایہ دیں یا بچوں کی سکول کی فیسوں کی ادائیگی کریں۔ اہم بات یہ ہے کہ موجودہ سیاسی، سماجی اور معاشی بحران کے سامنے سرمایہ داروں ، دانشوروں، ماہرین اور تجزیہ نگاروں نے بھی ہار مان لی ہے اس مہنگائی نے محنت کش طبقے کو تو بالکل ہی ختم کرکے رکھ دیا ہے۔ محنت کش طبقے کی زندگیاں اجیران ہو چکی ہیںایسے میں قیمتوں میں مزید اضافہ ان پر مزید بوجھ ڈال دے گا۔ ہر سال آئی ایم ایف کے ساتھ جو معاہدہ ہوتا ہے اس معاہدے کی شرائط ہی اتنی مشکل ہوتی ہیں کہ جس کی وجہ سے ٹیکسوں میں تیزی سے اضافہ ہوتارہتا ہے۔ اشیائے خورد و نوش، ادویات ہو یا پٹرول کی بڑھتی قیمتیں ،محنت کش طبقہ مارا گیا ہے۔ آج سرمایہ دارانہ نظام اور حکمران طبقہ محنت کش طبقے کے مسائل حل کرنے کی طاقت نہیں رکھتا اور نہ ہی یہاں کا حکمران طبقہ ان مسائل کو حل کرنا چاہتا ہے۔ موجودہ جتنی بھی سیاسی پارٹیاں ہیں ان میں سے کسی کے پاس بھی مہنگائی، بے روزگاری، ٹیکسوں میں اضافے، مہنگے علاج، تعلیمی مسائل، کام کی جگہوں پر خواتین کے مسائل سے نکلنے کا کوئی بھی پلان نظر نہیںآتا۔ اس ساری صورتحال میں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ آئی ایم ایف کی جو ڈیل لیٹ ہو رہی ہے ، اسکی وجہ سے بھی مہنگائی بڑھ رہی ہے۔سیاسی عدم استحکام مہنگائی کی جلتی آگ پر تیل کا کام کررہا ہے کیونکہ حکومت یکسو ہو کر مالی معاملات اور اکانمی پر توجہ دینے سے قاصر ہے۔عمران خان اپنی احتجاجی سیاست کے باعث ملک میں سیاسی عدم استحکام کا باعث بن رہے ہیں اور بڑوں کی اس لڑائی میں نہ تو حکومت کی توجہ ہے کہ مہنگائی کو کنٹرول کیا جائے نہ ہی انتظامیہ پرائس کنٹرول پر کوئی کام کررہی ہے۔ اگر ہم کہیں کہ سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے حکومتی مشینری انتطامی معاملات پر فوکس کرنے کی بجائے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہے تو بے جا نہ ہو گا ۔ منڈی کا آڑھتی ہو یا ریڑھی پر سامان فروخت کرنے والا سب اپنی مرضی کی قیمتوں پر مال بیچ رہے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن