روایت ہے کہ تمام اشیا خوردو نوش کی سرکاری قیمتیں جناب DCO صاحب روزانہ کی بنیاد پر جاری کرتے ہیں جو تمام چھوٹے بڑے دکاندار اپنی اپنی ریڑھیوں اور دکانوں پر آویزاں کرتے ہیں۔ یہ بھی ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ ان قیمتوںپر کبھی عمل نہیںکیا جاتا اور نہایت ڈھٹائی سے آویزاں نرخوں سے زیادہ قیمتیں وصول کی جاتی ہیں۔ یہی سب کچھ رمضان مبارک میںبھی ہوتا ہے ، بلکہ باقی گیارہ مہینوں سے کہیں زیادہ نرخ وصول کیے جاتے ہیں۔ نہ کوئی روک ٹوک اور نہ کہیں حکومت کی رٹ نظر آتی ہے۔ چھوٹے دکاندار ہیرا پھیری تو کرتے ہیں لیکن سینہ زوری نہیں ۔ جب سے بڑے بڑے ’’سپر سٹور ‘‘ اور شاپنگ مالز وجود میں آئے ہیں تو ایک عجیب چیز دیکھنے کو مل رہی ہے۔ ان بڑے سٹوروں میں ہر چیز کی قیمت لکھی ہوتی ہے جو یقینا سرکاری نرخوں سے بہت زیادہ ہوتی ہے۔یہاں تک تو ٹھیک ہے کہ ہم سب اس ظلم اور زیادتی کے عادی ہو چکے ہیں۔ لیکن ایک فیشن یہ بھی وجود میں آیا ہے کہ ان تمام بڑے سٹوروں اور شاپنگ مالز میں ایک ’’ DCO کائونٹر‘‘ بھی بنایا جاتا ہے۔ شاپنگ مال کے کسی دور دراز کے کونے میں ناقابل استعمال دالیں، کئی روز کی گلی سڑی سبزیاں اور پھل اور گوشت کی چند چھیچھڑا نما بوٹیاں پڑی ہوتی ہیں جن پر سرکاری نرخ آویزاں ہوتے ہیں کہ اس ریٹ پر تو یہی کچھ مل سکتا ہے اگر کسی میں ہمت ہے تو سرکاری ریٹ پر یہ سب خرید کر کھا لے۔ ساتھ ہی قابل استعمال اشیاء پر بھی پڑی ہوتی ہے ہیں جن پر ’’ اوپن مارکیٹ ریٹ‘‘ لکھا ہوتا ہے۔ ہر پاکستانی کی طرح میں بھی یہ سب دیکھتا ہوں اور سوچنے پرمجبور ہو جاتا ہوں کہ کیا ماجرا ہے کہ اس DCO کائونٹر پر تو ملک کا قانون لاگو ہوتا ہے ۔ باقی کی تمام دکان جہاں ان ہی چیزوں پر کچھ اور ریٹ آویزاں ہیں کیا حکومت پاکستان اور ریاست کی رٹ سے باہر ہے؟ اور تو اور گوشت فروخت کرنے والی ایک بڑی چین ، اور کئی بڑی دکانوں میں گوشت کا ایک کلو 900 گرام کا ہے ، یعنی جب آپ ایک کلو گوشت خریدتے ہیں تو دراصل آپ کو 900 گرام گوشت دیا جاتا ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں اور یہ سب کچھ سب کے سامنے، اعلانیہ اور سینہ زوری کے ساتھ ہو رہا ہے۔ ہم بطور پاکستانی یہ قبول کر چکے ہیںکہ اوپن مارکیٹ یعنی اصلی نرخوں اور سرکاری ریٹ میں بہت فرق ہوتا ہے، اس لیے میں یہ مطالبہ کرتا ہوں کہ سب کچھ سرکاری ریٹ پر عملی طور پر دستیاب ہو، لیکن پھر بھی DCO کائونٹر میں پڑی ناقابل استعمال اشیاء کی حالت، ان پر آویزاں ریٹ اور باقی دکان میں سر عام آویزاں ریٹ اور مہنگائی مجھے ایک عجیب تماشا لگتے ہیں۔ ان بڑے مگر مچھوں نے پورے پاکستان کی طرح سرکاری ریٹ پر چیز نہیںدینی تو نہ دیں، لیکن DCO کائونٹر کے اس تماشے کو دیکھ کر کم از کم مجھے لگتاہے کہ یہ بڑے مگرمچھ قانون کے منہ پر تھپڑ رسید کر رہے ہیں۔ وہ بھی سینہ تان کر ، کہ کر لو جو کر سکتے ہو۔ میں حکومت سے اتنا مطالبہ ضرور کرتا ہوں کہ اگر سرکاری نرخ ناموں پر عمل کروانا ممکن نہیں ہے تو سرکاری نرخ نامے جاری کرنا ہی بند کر دیں کہ اور کچھ نہیں تو کاغذ اور سیاہی کی بچت ہی ہو جائے گی۔ اگر یہ کرنا بھی ممکن نہیں تو کم از کم اس مذاق کو ختم کروائیں اور یہ DCO کائونٹر بند کروا دیں تاکہ ریاست اور حکومت کی بیچارگی کا یوں کھل کر اور سرعام مذاق تو نہ اڑایا جائے۔
انتظامیہ کی بیچارگی اپنی جگہ، لیکن کچھ فرض ہم سب پر بھی عائد ہوتا ہے۔ ہم نماز، روزہ اور عبادات بے شمار کریں، لیکن ایک سوال یہ بھی ہے کہ ہم اللہ کی مخلوق کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں اور مخلوق کو آرام دیتے ہیں ۔ اللہ اپنی مخلوق سے ستر مائوں جتنا پیار کرتا ہے تو اللہ کو وہ شخص زیادہ پیاراہو گا جو بس اس کے آگے سر جھکاتا ہو یا وہ شخص زیادہ پیارا ہو گا جو اس کی مخلوق کا خیال رکھتا ہو، اس کی مخلوق کے لیے آسانی پیدا کرتا ہو یا کم از کم ایسا کرنے کی کوشش کرتا ہو؟ اگر ہمارے کاروباری طبقے کی کوششوں سے ، بازاروں میں اشیاء نہ خالص ہوں نہ مقدار میں پوری ملیں ، ہر جانب جھوٹ، چوری اور ملاوٹ کا بازار گرم ہو، بچوں کو دودھ کے نام پر کیمیکل ملا گندہ پانی اور بیماروں کو دوا کی شیشی میں زہر مل رہا ہو گا تو اللہ تعالیٰ نے یہ سب کچھ کرنے والوں کی نمازوں کا کیا کرنا ہے؟ یقینا ہماری یہ نمازیں اور عبادات ہمارے منہ پر مار دی جائیںگی۔
دکاندار اور تاجر رمضان کے پہلے عشرے کو لوٹ کھسوٹ کے عشرے کے طور پر منا رہے ہیں اور دوسرا عشرہ انکے لیے ’’ چل چلائو کا عشرہ ‘‘ ہے کہ جو جیسا چل رہا ہے چلنے دو۔ کیا فرق پڑتا ہے رات کو تراویح ادا کر کے گناہ دھو لیں گے۔ اور تیسرا عشرہ تو برکتوں سے بھرپور ’’ عید کا عشرہ ‘‘ ہے کہ خاندان سے ملنا ملانا بھی ہے اور اپنے بچے بھی ہیں لہذا منافع خوری اور بے ایمانی کو کئی گنا کر دینا لازم ہے۔ ڈرنے کی کیا بات ہے یہ سب گناہ تو ایک عمرے کی مار ہیں۔ عمرے کا خرچہ نکال کر بھی بہت منافع بچ جائے گا۔اگر پھر بھی کوئی شک رہ گیا تو کسی مسجد میں زور دار افطاری کروا دیں گے۔ ویسے تو ہماری ساری زندگی ہی ایک امتحان اور آزمائش ہے، لیکن سال کے گیارہ مہینے تو ہم سب کچھ شیطان کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں او ر یہ بارہواں مہینہ ہمارا اصل امتحان ہوتا ہے اور اب آزمائش یہ ہے کہ ہم اپنے اندر موجود شیطان یعنی اپنی طمع اور اپنے نفس کو قید کر سکتے ہیں یا نہیں۔ ہم اللہ کی مخلوق کے لیے آسانی پیدا کر سکتے ہیںیا نہیں؟ کہیں ایسا نہ ہوکہ ہم اپنی عبادات ہاتھوں میں پکڑے دیکھتے رہ جائیں اور اپنی مخلوق سے ستر مائوں جتنا پیار کرنے والا اللہ امریکہ اور یورپ کے ’’کافروں‘‘ کو اپنی مخلوق سے پیار کرنے کے صلے میں آخرت میںبھی ہم سے بہتر قرار دے دے۔