تفہیم مکالمہ... ڈاکٹر جمیل اختر
jamillahori@gmail.com
نئے سال کی آمد کو دنیا بھر میں مختلف انداز سے منایا جاتا ہے۔ کچھ لوگ اسے تفریح اور خوشیوں کا ذریعہ بناتے ہیں، جبکہ کچھ اپنی زندگی کا تجزیہ کرتے ہیں اور آئندہ کے لیے نئے عزائم باندھنے اور بہتر فیصلے کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسلام ہر نئے دن کو انسان کے لیے اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت اور ایک غنیمت کے طور پر دیکھتا ہے، جس میں انسان اپنے گزرے ہوئے اعمال پر غور کرے اور اپنی اصلاح کی کوشش کرے۔ اس تناظر میں نئے سال کا آغاز بھی انسان کے لیے ایک غنیمت ہی ہے کہ وہ اپنے اعمال کا محاسبہ کرے، اپنی کمزوریوں کو دور کرے، ماضی کی غلطیوں سے سبق حاصل کرے، بہتر انسان بننے کی کوشش کرے، ا?ئندہ کے لیے ایک بہتر اور با مقصد زندگی کا عزم کرے۔ یہ عمل درحقیقت اسلام کی اس بنیادی تعلیم سے مطابقت رکھتا ہے جو خود احتسابی اور اصلاح نفس پر زور دیتی ہے۔ قرا?نِ کریم اور سنتِ نبوی? ہمیں اپنی زندگی کے ہر لمحے کو مقصدیت کے ساتھ گزارنے اور مسلسل بہتری کی کوشش کرنے کا درس دیتے ہیں۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں، یہ عمل نہ صرف انفرادی طور پر ہمیں بہتر بناتا ہے بلکہ سماجی طور پر بھی ایک مثبت تبدیلی لاتا ہے۔ جب ہم اپنی کوتاہیوں کو پہچانتے ہیں اور انہیں سدھارنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہم اپنے ارد گرد کے لوگوں کے لیے ایک مثال بن جاتے ہیں۔
اسلام ہمیں مسلسل خود احتسابی کا درس دیتا ہے۔ قرآن پاک میں فرمایا گیا: "اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور ہر شخص دیکھے کہ اس نے کل کے لیے کیا آگے بھیجا ہے۔" (الحشر: 18) یہ آیت مبارکہ ہمیں اپنی ذمہ داریوں کی یاد دہانی کراتی ہے اور اس بات پر زور دیتی ہے کہ ہم اپنی زندگی کے ہر لمحے کا محاسبہ کریں، اپنے گزرے ہوئے اعمال کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ ہم نے اللہ کے حکم کے مطابق زندگی گزاری یا نہیں۔ نبی اکرمﷺ نے فرمایا کہ عقل مند وہ ہے جو اپنے نفس کا محاسبہ کرے اور مرنے کے بعد کے لیے تیاری کرے (ترمذی)۔ یہ حدیث شریف خود احتسابی کی اہمیت کو واضح کرتی ہے اور ہمیں اس بات کا شعور دیتی ہے کہ دنیاوی زندگی ایک عارضی قیام ہے، جہاں ہمیں اپنے اعمال کے ذریعے آخرت کے لیے زادِ راہ تیار کرنا ہے۔ حضرت عمر فاروق ؓکا قول ہے کہ اپنے اعمال کا محاسبہ کرو قبل اس کے کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے۔ یہ قول اس بات کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے کہ مسلمان کو دنیا میں ہی اپنے اعمال کا جائزہ لینا چاہیے تاکہ آخرت میں وہ اللہ کے حضور شرمندہ نہ ہو۔
خود احتسابی کا مطلب صرف یہ نہیں کہ ہم اپنی عبادات کو شمار کریں، بلکہ ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ ہمارے اخلاق، ہمارے تعلقات، اور ہمارے معاملات دوسروں کے ساتھ کیسے ہیں۔ کیا ہم نے اپنے والدین، بہن بھائیوں، اور دیگر رشتہ داروں کے حقوق ادا کیے؟ کیا ہم نے اپنی روزمرہ کی زندگی میں سچائی، امانت داری، اور عدل کا مظاہرہ کیا؟ ہمیں اپنی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے نئے سال کے آغاز پر کچھ عملی اقدامات کا عہد کرنا ہو گا۔
دینی اور روحانی پہلو سے ہمیں خود میں مثبت تبدیلیاں لانی ہوں گی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم پانچ وقت کی نماز کی پابندی کریں، قرآن پاک کو سمجھ کر پڑھیں، اللہ سے تعلق مضبوط کریں، دعا اور ذکر و اذکار کا اہتمام کریں، اور اپنی زندگی کو سنت نبوی? کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں۔ ہمیں اپنے دینی علم میں اضافہ کرنا ہو گا تاکہ دین اسلام کو صحیح طرح سمجھ کر اس کے مطابق عمل کر سکیں۔ اخلاقی پہلو سے بھی ہمیں خود میں مثبت تبدیلی لانی ہو گی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی شخصیت میں وہ اخلاقی خوبیاں پیدا کریں جن کی اسلام ہمیں تعلیم دیتا ہے۔ جھوٹ، غیبت، حسد، اور تکبر جیسے عیوب سے بچنے کی کوشش کریں۔ اپنے اندر صبر، شکر، اور عاجزی پیدا کریں۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ مومنوں میں سب سے کامل ایمان والا وہ ہے جو اخلاق میں سب سے بہتر ہو۔ لہٰذا، ہمیں اپنی اخلاقی تربیت پر خاص توجہ دینی چاہیے تاکہ ہم معاشرے کے لیے ایک مثالی فرد بن سکیں۔
سماجی پہلو سے ہمیں اپنے آپس کے مسلکی اختلافات کو ختم کرنے، محبت اور بھائی چارے کو فروغ دینے کا عہد کرنا ہو گا۔ عصر حاضر میں مسلمانوں کے درمیان فرقہ واریت اور تفرقہ بازی ایک اہم مسئلہ ہے۔ ہمیں اس سے بچنے اور امت کے اتحاد کے لیے کوشش کرنے کا عہد کرنا ہو گا۔ فرمانِ الہٰی ہے کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور فرقوں میں نہ بٹو۔ (آل عمران: 103) ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے بھائیوں کے ساتھ محبت اور بھائی چارے کا مظاہرہ کریں اور اختلافات کو دور کرنے کی کوشش کریں۔ اسلام ہمیں نہ صرف مسلمانوں کے ساتھ بلکہ تمام انسانوں، چاہے وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہوں، کے ساتھ اچھا برتاو¿ کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ ہمیں غیر مسلموں کے حقوق کا احترام کرنا چاہیے اور ان کے ساتھ انصاف اور بھلائی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ نبی اکرم ﷺکا ارشاد ہے کہ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے۔ یہ اصول صرف مسلمانوں تک محدود نہیں بلکہ ہر انسان کے لیے ہے۔
نئے سال کے آغاز پر ہمیں یہ عہد بھی کرنا چاہیے کہ ہم اپنی معاشرتی ذمہ داریوں کو بہتر طریقے سے نبھائیں گے۔ غربا اور مساکین کی مدد کریں گے، یتیموں کا سہارا بنیں گے، اور ان لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کریں گے جو کسی مشکل میں مبتلا ہیں۔ نیا سال ہمارے لیے ایک تازہ آغاز اور اپنی زندگی کو بہتر رخ دینے کا موقع ہے۔ یہ وقت ہے کہ ہم اپنی کمزوریوں کو پہچانیں اور ان کو طاقت میں بدلنے کے لیے قدم اٹھائیں۔ ایک مومن کی پہچان یہی ہے کہ وہ ہر نئے دن کو پہلے سے بہتر بنانے کی جستجو کرے۔ آئیں، اس نئے سال کو اپنی ذات، سماج اور امت کے لیے ترقی کا سال بنائیں اور اپنی زندگی کو اللہ کی رضا کے مطابق ڈھالنے کی سنجیدہ کوشش کریں۔ خود احتسابی اور مثبت عہدوں کے ذریعے ہم اپنی زندگی کو نہ صرف خود کے لیے بلکہ دوسروں کے لیے بھی بہتر بنا سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان عہدوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری زندگیوں کو اپنے دین کے مطابق گزارنے کی ہمت دے۔ (آمین)