مہر عبدالخالق لک
آج باچا خان کے جنازہ کی وڈیو دیکھی تو پڑھنا مجبوری بن گیا اور تاثرات لکھنا بھی ضروری ہوگیا لیکن فائدہ یہ ہوا کہ تعصب کی ایک اور عینک ٹوٹ گئ۔۔
بنیادی طور پر میرا موضوع برصغیر کے وہ سیاست دان ہیں جنہوں نے اپنی قوم کی خاطر جیل کی مشقت اٹھائی۔۔۔ ان کے لیے سیاست کے راستے پھول کے بستر نہیں تھے، ان کی جھولی شہرت کی پکی پکائی کھیر نہیں ڈالی گئی تھی۔ انہوں نے قوم کی خاطر کشت اٹھائے تھے دکھ سہے تھے۔ تبھی قوم نے انہیں اپنے سر آنکھوں پر بٹھایا۔
سیاستدانوں کے بارے میں عام تاثر یہی ہے کہ جیل ان کا دوسرا گھر ہوتا ہے ، اس تناظر میں اگر ہم برصغیر کی سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین کی زندگیوں کا جائزہ لیں تو ایک بات تو واضح ہو جاتی ہے کہ گانگریسی رہنما جیل جانے سے کبھی بھی پیچھے نہیں ہٹے تاہم مسلم لیگی رہنماوں کے مقدر میں جیل یاترا کم کم ہی دیکھنے میں آئی اور یہ روایت تاحال کئی ناموں میں منقسم مسلم لیگ نبھا رہی ہے۔
اپنے قارئین کی سہولت کے لیے یہ تحقیقی مضمون لکھ رہا ہوں تاکہ مختصراً ہی سہی لیکن آپ کو ان شخصیات کے بارے میں علم ہو جائے جنہوں نے سیاسی سفر شروع کرنے سے پہلے یا بعد میں جیل اور سزاوں کا سامنا کیا اور کالی دیواروں کے اس پار بیٹھ کر بھی اپنی قوم کے اذہان میں روشنی آباد کی۔ اسی سلسلے میں پہلے میں نے بھگت سنگھ پر لکھا پھر گاندھی جی اور آج خان عبد الغفار خان پر لکھ رہا ہوں۔
خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان کا تعلق چار سدہ سے تھا انہیں ’فرنٹیئر گاندھی‘ بھی کہا جاتا ہے۔ انگریزوں کے خلاف باچا خان نے تاریخی مزاہمت کی تھی۔باچا خان 1890 میں پیدا ہوئے تھے اور وہ خدائی خدمتگار تحریک کے بانی تھے جس کی بنیاد انہوں نے 1929 میں رکھی تھی۔ تقسیم ہند سے قبل باچا خان اس خطے میں انگریزوں سے جان چھڑانا چاہتے تھے اور پشتون ا?بادی پر مشتمل پشتونستان بنانے کی جدوجہد میں مصروف تھے۔باچا خان کا عدم تشدد کا فلسفہ ا?ج بھی لوگ یاد کرتے ہیں تاہم عدم تشدد کے فلسفے کے باجود باچا خان نے مختلف اوقات میں تقریبا 37 سال جیل کاٹی لیکن وہ اپنے نظریے سے ہیچھے نہیں ہٹے۔
پاکستان بننے سے قبل خیبر پختونخوا میں باچا خان کے بھائی ڈاکٹر خان صاحب کی صوبہ سرحد میں حکومت تھی لیکن تقسیم ہند کے بعد وہ حکومت ختم کی گئی اور 1948 میں باچا خان کو جیل بھیج دیا گیا۔ وہ 1954 تک جیل میں رہے۔1958 میں جنرل ایوب خان نے مارشل لا نافذ کیا تو باچا خان کو وزارت کی پیشکش کی گئی لیکن باچا خان نے انکار کر دیا۔اس کے بعد ان کو 1964 تک جیل میں رکھا گیا تاہم خراب صحت کی وجہ سے رہا کر دیا گیا۔ برطانیہ میں علاج کے بعد انہوں نے افغانستان میں خود ساختہ جلاوطنی اختیار کر لی۔جلاوطنی کے بعد 1972 میں وہ بھٹو کے دور میں واپس وطن ا? گئے جب باچا خان کے صاحبزادے عبدالولی خان کی نیشنل عوامی پارٹی نے اس وقت کے صوبہ سرحد میں حکومت قائم کی لیکن 1973 میں ذوالفقار علی بھٹو نے باچا خان کو ملتان میں گرفتار کر لیا تاہم 1976 میں انہیں رہا کر دیا گیا۔باچا خان 1988 میں لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور میں انتقال کر گئے۔
باچا خان نے کہا تھا کہ میں اب بوڑھا ہو چکا ہوں گاوں گاوں ، گلی گلی نہیں گھوم سکتا تاکہ اپنی قوم کو یہ بتا سکوں کہ اسلام کے نام پر آپ کے ساتھ جو کھیل کھیلا جا رہا ہے یہ بربادی کے سوا کچھ نہیں۔ اور آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ واقعی پاکستان میں عوام کے ساتھ اسلام کے نام پر جو ہو رہا ہے اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ جبکہ اسی حوالے سے ایک بار انہوں نے کہا تھا کہ قومیں صرف دم درود سے بیدار نہیں ہوتیں۔ قوموں کو بیدار
کرنے کے لیے ایسے افراد کی ضرورت ہوتی ہیں جو بے غرض، دیانتدار، ایماندار اور صرف خدا کی خاطر اپنی قوم کی خدمت کے لیے تیار ہو۔ اگر قوم کی ترقی کا
دارو مدار صرف دم درود پر ہوتا، وضائف و دعاوں سے قوم ترقی کر سکتی تو ہمارے اپنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اتنی محنت نہ کرتے ، قربانیاں نہ دیتے ، تکالیف نہ اٹھاتے۔
جبکہ ان کا یہ قول مجھے بہت پسند ہے کہ اگر آپ جاننا چاہتے ہیں کہ معاشرے کی تہذیب کیسی ہے تو دیکھیں کہ وہ خواتین کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہیں!!