پاکستان میں دہشت گردی روز بروز بڑھ رہی ہے۔ پہلے دہشت گرد چند لوگوں کو اغوا کرتے یا حملہ کرتے تھے۔ اب تو انہوں نے اپنے پنجے ٹرینوں کو اغوا کرکے ا ان میں بیٹھے ہوئے سینکڑوں لوگوں کو دہشت گردی کی بھینٹ چڑھانے کا سلسلہ بھی شروع کر دیا ہے۔ جعفر ایکسپریس میں خواتین بچے بوڑھے نوجوان اور ہر مکتبہ فکر کے لوگ سوار تھے جو کوئٹہ سے پشاور کے لیے روانہ ہوئی تو دہشت گردوں نے اس پوری ٹرین کو یرغمال بنایا جس میں اطلاعات کے مطابق چار سو سے زیادہ مسافر سوار تھے اور ان میں پاکستان آرمی کے نوجوان جو چھٹیوں پر اپنے گھروں کو جا رہے تھے ان کی تعداد بھی کوئی 100 کے لگ بھگ تھی دہشت گردوں نے بڑی مہارت اور بدمعاشی سے جعفر ایکسپریس کو اس جگہ روکا اور محصور کیا جو سرنگ کا علاقہ تھا یہ سرنگ اتنی باریک اور حساس ہے کہ ٹرین سے اتر کر اس سرنگ میں عام آدمی چل پھر نہیں سکتا تو اس منصوبہ بندی کے لیئے نہ جانے دہشت گردوں کو کتنا عرصہ لگا ہوگا۔ بہرحال انہوں نے اپنے منصوبے کے مطابق جعفر ایکسپریس کو اغوا کیا اور اس میں موجود مسافروں کو یرغمال بنایا۔ جونہی قانون نافذ کرنے والے اداروں اور افواج پاکستان کے سپوتوں کو اس ناپاک منصوبے کا علم ہوا تو انہوں نے منصوبہ بندی کر کے موقع پر موجود تمام مسافروں کو دہشت گردوں سے آزاد کرایا اور اس دوران افواج پاکستان کے نہایت ہی چاک و چوبند دستوں نے بغیر کسی جانی نقصان کے33 دہشت گرد جہنم واصل کر دیے۔ یہ ایک بہت بڑا کارنامہ ہے کہ تمام دہشت گرد مارے گئے اور اللہ کے فضل و کرم اور ہمارے فوجی جوانوں کی مہارت سے کوئی بھی یرغمالی لقمہ اجل نہ بن سکا اس طرح افواج پاکستان کو جتنا بھی خراج تحسین پیش کیا جائے وہ کم ہے اور اس مہارت کو پوری اقوم عالم میں سرا جا رہا ہے کہ کمال کی پاکستانی فوج ہے جس نے اپریشن کرتے ہوئے ایک بھی شہری کو زخمی تک نہیں ہونے دیا اور دہشت گردوں کو تہہ تیغ کر دیا۔ اس موقع پر میں افواج پاکستان کے سپہ سالار جناب سید عاصم منیر اور اس دہشت گردی کے واقعہ کا خاتمہ کرنے والی پوری ٹیم کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ ہمارے فوجی جوان اسی طرح آئندہ بھی دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اپنا احسن طریقہ کار اختیار کریں گے اور جو خیبر پختون خواہ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں روزانہ دہشت گردی ہو رہی ہے اس کا خاتمہ کریں گے۔ دوسری جانب اتحادی حکمران یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتے کہ اس دہشت گردی کے پیچھے تحریک انصاف چھپی ہوئی ہے۔ وہ اس الزام کو ثابت کرنے کے لیے ایک ہی دلیل دیتے ہیں کہ عمران خان نے اپنے دور حکومت میں ایسے طالبان کو معافی دی اور ان کو پاکستان میں واپس بسایا جو پہلے دہشت گردی میں ملوث تھے۔ اب وہی لوگ دوبارہ سرگرم عمل ہیں اور انہوں نے پاکستان کو دہشت گردی کا اڈہ بنا دیا ہے۔ جعفر ایکسپریس کے سانحہ کو بھی قومی اسمبلی میں خواجہ آصف بڑے دھڑلے سے جعفر ایکسپریس میں ہونے والی دہشت گردی کو تحریک انصاف کی جھولی میں ڈال رہے تھے جبکہ اسد قیصر قومی اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے یہ گردان کر رہے تھے کہ ہم پاکستان میں کسی بھی جگہ ہونے والی دہشت گردی کی پرزور مذمت کرتے ہیں اور جعفر ایکسپریس کو جس طریقے سے افواج پاکستان کے جوانوں نے واگزار کرایا ہے اور 33 دہشت گردوں کو واصل جہنم کیا ہے اس پر میں اور میری پارٹی پاکستان تحریک انصاف انہیں خراج تحسین بھی پیش کرتی ہے اور جو اشخاص سول اور ملٹری کے اس میں شہید ہوئے ان کے لیے دعائے مغفرت اور ان کے لواحقین کے لیے صبر جمیل کی دعا کرتی ہے۔ لیکن پھر بھی حکمران بغیر کسی ثبوت کے تحریک انصاف کو پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں۔ پاکستان اس وقت جس دوراہے پر کھڑا ہے اس میں تو تمام پاکستانیوں کو مل کر اکٹھے ہو کر دہشت گردی بھوک ننگ امن و امان اور دیگر مسائل پر قابو پانیکے لیے کردار ادا کرنا چاہیئے۔ وزیراعظم میاں شہباز شریف کی قیادت میں آل پارٹیز کانفرنس منعقد کرنے کے لیے حکومتی عہدے داروں کو تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سے جیل میں جا کر ملاقات کر نی اور انہیں اے پی سی کے لیے مدعو کرنا چاہیئے لیکن یہاں گنگا الٹی بہہ رہی ہے۔ گزشتہ روز جعفر ایکسپریس کو کلیئر کرنے کے لیے اپریشن جاری تھا لیکن کوئٹہ میں تحریک انصاف کے ایم این اے کے گھر پر چھاپہ مار کر چادر اور چادیواری کو پامال کیا جا رہا تھا جبکہ جس ایم این اے کے گھر پر چھاپہ مارا گیا وہ اسلام آباد میں قومی اسمبلیی کے اجلاس میں موجود تھے۔ اس سے قبل جب بھی پاکستان تحریک انصاف نے کوئی جلسہ جلوس ریلی نکالنے کے لیے پروگرام ترتیب دیا تو پنجاب بھر میں کارکنوں کو گھروں میں محصور کر دیا گیا اور ان کی گلیوں کو نو گو ایریا بنا دیا گیا تاکہ نہ رہے بانس نہ بجے بنسری۔