ہر سال بہبود کی چیئر پرسن عید ملن پارٹی کا ضرور انعقاد کرتی ہیں۔ میرا اسلام آباد جانے کا ارادہ تھا مگر پریذیڈنٹ آف بہبود ایسو سی ایشن سلمیٰ ہمایوں کے میسج پر مجھے رکنا پڑااور میں وہاں پہنچ گئی۔اس مرتبہ سلمیٰ ہمایوں نے کچھ خواتین کو بطور مہمان بھی بلایا ہوا تھا۔ نیلم اسماعیل اور دیگر دو خواتین بھی مدعو تھیں۔
موسم گو کہ ابھی اتنا گرم نہیں تھا خواتین دیدہ زیب لباس میں جلوہ افروز تھیں۔خواتین کے چہرے پھولوں کی طرح نکھرے شاداب تھے۔ ٹولیوں میں بٹی ہوئی محو گفتگو تھیں۔سلمیٰ ہمایوں بتا رہی تھیں کہ نصیر آباد کا سکول بہت ہی خستہ حال تھا۔ اسکی renovationکیلئے بہت پیسے چاہیئیں تھے۔مگر سمجھ نہیں آرہا تھا کہ شروع تو کروا دیا تھا…اور سوچ سوچ کے پریشان ہو رہی تھی کہ یہ پایہ تکمیل تک پہنچ بھی سکے گا یا نہیں۔ لیکن میرے اللہ نے میرا نیک جذبہ دیکھ کر اس کا بندوبست کر دیا اور نصیرآباد کا مکمل سکول نئے سرے سے تیار ہو گیا…سلمیٰ ہمایوں کے ساتھ جو خواتین مل کر کام کرتی ہیں۔وہ اپنے اپنے گھروں سے نکل کر اللہ کی راہ میں اس کی خوشنودی کیلئے ان تھک محنت کرتی ہیں۔اپنا قیمتی وقت نکال کر انسانیت کے بھلے کیلئے کام کرتی ہیں۔ اس ملک میں غربت،بیماری اور تنگ دستی بے پناہ ہے۔ دیکھا جائے تو ان اداروں میں بھی کام ہو رہا ہے مگر اصل کام ہمارے اہلِ اقتدار کو کرنا چاہیے۔ جب کرسی پر بیٹھتے ہیں تو حلف اٹھاتے ہیں کہ اللہ کی مخلوق کیلئے اچھا سوچیں گے، لوگوں کے مسائل حل کریں گے اور غربت دور کریں گے اور ہماری حکومت کو کچھ خبر نہیں۔ وہ ایک فٹ بال کا میچ کھیل رہی ہے۔کک لگی تو فٹ بال ادھر کیچڑ اچھالتا ہوا تیزی سے بڑھے گا۔پھر اپوزیشن والے اپنی زبانوں سے تیر برساتے ہوئے وہ بال جہاں سے آیا ہے ادھر اچھالیں گے۔ وہ صرف اور صرف اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ اپنی کرسی کیسے بچائیں گے لیکن ملک کی بہتری کا سوچنے کیلئے انکے پاس وقت نہیں ہے۔ یہ وقت ان کو نکالنا چاہیے اور چھوٹے چھوٹے ادارے غریبوں کیلئے جوکام کر رہے ہیں وہ بہت ہی ناکافی ہیں۔
بہبو د کی سال میں تین مرتبہ سیل لگتی ہے اور اس کی آمدنی سے غریبوں کی خوشحالی کیلئے کام کیا جاتا ہے۔
اور اس کے علاوہ تعلیم،اورانکم جنریشن۔اور ہیلتھ کیلئے بھی ایک ہسپتال بلڈنگ کے گراؤنڈ فلور میں بنا ہے جہاں غریب غربا پچاس روپے کی پرچی بنا کر اپنا علاج کروا سکتے ہیں۔اس کام کیلئے لوگوں کے تعاون اور donations کی ضرورت ہوتی ہے۔ مجھے صاحب حیثیت لوگوں سے درخواست کرنی پڑتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ donationدیں تا کہ یہ ادارہ پھلتا پھولتا رہے…اور اللہ کی راہ میں جو چندہ دے گا اس کا مقام اللہ کی نظر میں کیا ہو گا…ظاہر ہے…دنیا کے علاوہ آخرت میں بھی اجر ملے گا۔
لنچ کے دوران بہبود کی ایگزیکٹو شمیم صاحبہ اسی میز پر براجمان تھیں جہاں میں بیٹھی تھی۔ وہ میرے ساتھ محو گفتگو تھیں تو میں نے ان سے پوچھا سلمیٰ صاحبہ نے جو نصیرآباد کا سکول ہے اس کو پایہ تکمیل تک پہنچایا ہے۔اس کیلئے آپ سب نے ان تھک محنت کی ہے۔ تو میں نے شمیم سے پوچھا کہ یہ بالکل فری ہے یا پیسے بھی دینے پڑتے ہیں۔ وہ بتانے لگی کہ طالب علم صرف دو سو روپیہ ماہانہ دیتے ہیں لیکن بہت سی مراعات ان کو ملتی ہیں۔ تو میں نے ان کو کہا کہ آپ لوگ بہت نیکی کا کام کر رہی ہیں۔ اپنا قیمتی وقت نکال کر بہبود کیلئے کام کرتی ہیں یہ بہت سعادت کی بات ہے۔ جب بھی بہبود کے بارے میں سنتی ہوں اور آپ کے کام دیکھتی ہوں تو بہت خوش اور مطمئن ہوتی ہوں۔
ہمارا ملک ایسے بحران میں گھرا ہوا ہے کہ بجلی کی اس قدر لوڈشیڈنگ ہے، غربت الگ سے ہے اور اتنے زیادہ بجلی کے بل ادا کر رہے ہیں کہ یوں سمجھ لیں ہمارا ملک ایک دھانے پر کھڑا ہے۔ بس ایک زور کی آندھی آنے کی دیر ہے۔سارا سسٹم درہم برہم ہو کر رہ جانا ہے۔ عوام کی پریشانی دور کرنے کی اس وقت اشد ضرورت ہے۔ لے دے کر پھر کہنا پڑتا ہے کہ اہلِ اقتدار ملک کے داخلی اور خارجی معاملات پر سنجیدگی سے غور کریں اور اس کا حل نکالیں۔ہم معاشرے میں اندرونی طور پراس قدر ایک دوسرے کو دشمن سمجھنے پر تلے ہوئے ہیں کہ معاشرہ دو حصوں میں تقسیم ہو رہا ہے اس لئے سیاست دانوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔۔ہم تنہا ہو گئے ہیں۔ اس لئے خارجہ پالیسی کا از سرِ نو جائزہ لینا اشد ضروری ہے۔ ہمارا ملک اس سٹیج پر کسی سے دشمنی نہیں لے سکتا اور نہ ہی جنگ کے میدان میں کود سکتا ہے۔ انسان کیا کچھ نہیں کر سکتا اگر سچے جذبہ کے ساتھ کام کرے۔ میرے خیال سے یہ نتیجہ نہیں نکالنا چاہیے کہ ہم دفاع نہیں کر سکتے بلکہ ہم تو ایٹمی قوت ہیں۔
ہماری بہبود کی خواتین کسی سے کم نہیں ہر شعبے میں انہوں نے اپنا لوہا منوایا ہے اور انسانیت کا جذبہ ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہے۔ اپنے وطن سے محبت کرتی ہیں…ملک کی بہتری کا سوچتی ہیں اور ساتھ ساتھ جو سنگین معاملات درپیش آتے ہیں ان کے بارے میں غور و خوص کرتی ہیں اور اس کا حل نکالنے کے لئے تگ و دو کرتی ہیں۔ اس سے بڑی نیکی اور کیا ہو گی.۔