پاک بحریہ اور اداروں کا میری ٹائم سکیورٹی میں قابل تحسین کردار

دنیا معاشی تبدیلیوں سے گزر رہی ہے اور سمندری تجارت پر انحصار بڑھتا جا رہا ہے ۔ اسی وجہ سے قذاقی اور بحری دہشت گردی ایک چیلنج بن چکی ہے ۔ان حالات میں بذریعہ سمندر تجارت کیلئے ایک طاقتور بحریہ ہی واحد تحفظ کی ضمانت ہے ۔پاکستان کی سمندری حدود سندھ اور بلوچستان سے متصل ہیں جس کی وجہ سے دیگر صوبوں کو سمندری زندگی اور اس کے مسائل وممکنہ خطرات سے آگاہی نہیں ہے اور ہو بھی کیسے سکتی ہے کہ ہمارا میڈیا بسا اوقات حقیقی موقع کی بروقت رپورٹنگ ہی نہیں کرتاجبکہ آج دنیا کا ہر ملک سمندری سرحدوں کے ذریعے تجارت کو فروغ دینے کیلئے علاقائی اور بین الاقوامی تعاون کی ضرورت پر متفق ہو چکا ہے کیونکہ کمرشل جہازوں کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس مقصد کیلئے ہر ملک بشمول پاکستان ، میں بحری خطرات سے نمٹنے کیلئے منظم ادارے قائم کئے جا چکے ہیں جو نہ صرف ملکی سرحدوں کا دفاع کر رہے ہیں بلکہ تجارتی امور کو کماحقہ فروغ دینے میں بھی اہم کردار ادا کر رہے ہیں ۔ پاکستان کے بحری اور ساحلی دفاع کے ذمہ دار ان میں پاکستان نیوی کی زیر نگرانی ،پاکستان میری ٹائم سیکیورٹی ایجنسی اور پاکستان کوسٹ گارڈ کے علاوہ گورنمنٹ شپنگ آفس ، کراچی پورٹ ٹرسٹ ،کورنگی فش ہاربر ،میرین فشز ڈیپارٹمنٹ ، پاکستان میرین اکیڈمی ،پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن ،گوادر پورٹ اتھارٹی ،پورٹ قاسم اتھارٹی اورپاکستان کسٹم جیسے درجنوں ادارے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں ۔پاکستان نیوی سے منسلک سبھی ادارے اور قومی سٹیک ہولڈرز باہمی روابط کو مضبوط بنانے اور ملکی سرحدوں کی حفاظت یقینی بنانے کیلئے مشترکہ قومی اور بین الاقوامی مشقوں کا انعقاد کرتے رہتے ہیں تاکہ سیکیورٹی کے طریقہ کار اور اقتصادی صورتحال میںمزید بہتری لائی جا سکے اور کسی بھی جنگ کی صورت میں پچیدہ آپریشنز کی تیاری ہو سکے ۔
اسی ضمن میں رواں برس فروری کے مہینے میں کثیر القومی امن مشقوں کا انعقاد کیا گیا جس میں 60 سے زائد ممالک نے حصہ لیا اور یہ مشقیں سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں ہوئیںجنھیں ’سی سپارک 2024‘ کا نام دیا گیا تھا۔اور اب پاکستان کے سمندری علاقے (کراچی )میں تمام سٹیک ہولڈرز کے ذریعے سیکیورٹی کے موجودہ طریقہ کار کو جانچنے کیلئے ’مشق سی گارڈ  202‘کا انعقاد کیا گیا ۔ بحری مشق سی گارڈ کا انعقاد پہلی مرتبہ سن 2024میں کیا گیا جس میں 50سے زائد ملکی اسٹیک ہولڈرنے حصہ لیاتھا ۔ حالیہ مشق سی گارڈ کے موقع پر کمانڈر کوسٹ رئیرایڈمرل فیصل امین نے اپنے خصوصی پیغام کے دوران کہنا تھا کہ پاکستان کی ایک ہزار کلومیٹر سے زیادہ ساحلی پٹی بیش بہا قدرتی وسائل سے مالامال ہے، ان قدرتی وسائل کے ساتھ مختلف میری ٹائم چیلنجز بھی جنم لیتے ہیں جن میں غیرقانونی فشنگ، نارکوٹکس ، اسمگلنگ، انسانی اسمگلنگ، ماحولیاتی تبدیلی وغیرہ شامل ہیں۔ایسے ہی چیلنجز سے نپٹنے کیلئے پاکستان نیوی نے 2013 میں جوائنٹ میری ٹائم انفارمیشن اینڈ کوارڈینیشن سنٹر(JMICC) قائم کیا تھا تاکہ میری ٹائم ڈومین کے تمام سٹیک ہولڈرز کو ایک پلیٹ فارم فراہم کیا جا سکے اور کسی بھی واقعہ یا حادثہ کی صورت میں بلا رکاوٹ معلومات کی فراہمی اور مئوثر اقدامات کو یقینی بنایا جا سکے ۔ جوائنٹ میری ٹائم انفارمیشن اینڈ کوارڈینینشن سنٹر JMICC کے ساتھ پچاس سے زائد قومی سٹیک ہولڈرز اور بین الاقوامی ا سٹیک ہولڈرز منسلک ہیں ۔اس سنٹر کی زیر نگرانی گذشتہ سال پہلی مشق کا انعقاد کیا گیا جس کے بہت اچھے نتائج برآمد ہوئے تھے لہذا اسی سلسلہ کو آگے بڑھاتے ہوئے اس برس بھی پانچ روزہ مشق Sea Gaurd کا انعقاد کیا گیا جسے قومی ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی پذیرائی حاصل ہوئی ہے ۔اس پانچ روزہ مشق میں دور حاضر کے خطرات کو پیش نظر رکھ کر سیکیورٹی انتظامات کا جائزہ لیا گیا اور ان خطرات سے نمٹنے کیلئے باہمی صلاحیتوں کے استعمال اور مشترکہ حکمت عملیوں کو ضروری قرار دیا گیا۔وقت گزرنے کے ساتھ JMICCایک ،مظم اور پائیدار ادارہ بن چکا ہے ۔یہ پاکستان کے مخصوص اقتصادی زون کے اندر بحری تحفظ کے چیلنجوں سے مربوط انداز میں نپٹنے میں بھی مدد فراہم کرتا ہے ۔اس کی کار کردگی کا ثبوت یہ ہے کہ ابتک اس پلیٹ فارم کے ذریعے ستر سے زائد قیمتی جانوں کو بچایا جا چکا ہے ۔مزید غیر قانونی سمندری سفر کو روکنے ،قذاقی کنٹرول کرنے اور اینٹی نار کوٹکس جیسے جرائم کو روکنے میں بھی کافی مدد ملی ہے یقینا سمندری زندگی سے متعلقہ تمام اداروں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے سے ایک نئے دور کا آغاز ہوچکا اور ان اقدام پر پاکستان بحریہ اور اس کی تمام اعلیٰ قیادت خراج تحسین کی مستحق ہے ۔
پاک بحریہ کی مسافتوں کی نئی اڑان دیکھ کر دشمن گھبرا گئے ہیں کیونکہ انھیں پتہ چل گیا ہے کہ وہ خود ’’کتنے پانی میں ہیں ‘‘ ۔ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے انڈین بحریہ کے سربراہ نے کہا کہ انڈیا پاکستانی بحریہ کی ’’حیرت انگیز ترقی‘‘ سے پوری طرح آگاہ ہے ۔ پاکستان بحریہ نے چند برسوں میں متعدد نئے جہاز اپنے بیڑے میں شامل کیے ہیں اور کئی نئی آبدوزیں ابھی تکمیل کے مراحل میں ہیںمزید ایسا بہت کچھ ہے جس پر کام ہو رہا ہے۔بھارتی بحریہ کے سربراہ ایڈمرل تھرپاٹی کا مزید کہنا تھا کہ ہم پاکستان کی بڑھتی ہوئی فوجی صلاحیتوں کے بارے میں مکمل طور پر آگاہ ہیں ۔اس لیے ہم اپنے ممکنہ مفادات پر پڑنے والے کسی ممکنہ منفی اثر کو زائل کرنے کیلئے اپنی حکمت عملی اور آپریشنل منصوبے تبدیل کر رہے ہیں ۔جبکہ پاکستان بحریہ ہر قسم کے چیلنج کا سامنا کرنے کیلئے مکمل طور پر تیار ہے ۔ گذشتہ مشقوں کے دوران فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’سمندر میں آپریشنز کے دوران پاکستانی بحریہ کے جنگی جہازوں اور ہوائی جہازوں نے انڈین بحریہ کے جہازوں، آبدوزوں اور ہوائی جہازوں کی موجودگی کا بھی سراغ لگایا اور وہ پاکستان نیوی کی جنگی مشقوں کا خفیہ طریقے سے مشاہدہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ امن مشقوں میںمختلف اسٹریٹیجک سوچ رکھنے والے ممالک کی شرکت او ردشمنوں کے سہمے بیانیے پاکستان بحریہ کی ساکھ کی عکاسی کرتے ہیں ۔ تاہم پاکستان بحریہ نے میری ٹائم مشقوں کے ذریعے دنیا کو پیغام دے دیا ہے کہ ہم پاکستان کی امن و سلامتی کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں مگر معاشی تبدیلیوں کو دیکھتے ہوئے اپنے تجارتی تحفظ کی خاطر پر امن سمندری ماحول چاہتے ہیں ۔اس ضمن میں قومی سٹیک ہولڈرز کی مشترکہ کاوشوںاور ٹیکنالوجی کے استعمال سے اب لمبی مسافتوں کا سفر منٹوں میں طے ہوگا جس کے ذریعے پانیوں پر قومی سلامتی اور معاشی ترقی و خوشحالی کی نئی داستان لکھی جائے گی ۔

ای پیپر دی نیشن