پاکستانی غزل اکیسویں صدی میں

اردو غزل کا سفر صدیوں پر محیط ہے، مگر ہر دور میں اس نے خود کو وقت کے تقاضوں کے مطابق ڈھالا ہے۔ غالب، میر، مومن سے لے کر فیض، ناصر کاظمی، احمد فراز اور پروین شاکر تک، ہر شاعر نے غزل کو ایک نئی جہت دی۔ لیکن آ ج کے عہد میں، جب زندگی کی رفتار تیز ہو چکی ہے، سماجی اور سیاسی مسائل پیچیدہ ہو چکے ہیں، اور اظہار کے ذرائع بدل چکے ہیں، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اردو غزل اس جدید دنیا میں کہاں کھڑی ہے؟

اسی سوال کا شاندار تجزیہ ہمیں معروف شاعرہ، محقق اور کالم نگار لبنیٰ صفدر کی تازہ ترین کتاب "پاکستانی غزل اکیسویں صدی میں" میں ملتا ہے۔ یہ ایک اہم تحقیقی کتاب ہے جو جدید اردو غزل کے ارتقا، موضوعات، اسالیب اور فکری رجحانات کا گہرائی سے جائزہ لیتی ہے۔
لبنیٰ صفدر کے مطابق، آج کی غزل کلاسیکی روایت سے جْڑی ضرور ہے، مگر یہ محض روایتی عشقیہ جذبات تک محدود نہیں رہی۔ جدید اردو غزل میں زندگی کے ہر پہلو کو شاعری میں سمویا جا رہا ہے۔ آج کے شعراء  کے کلام میں محبت، ہجرت، شناخت، سماجی انصاف، نفسیاتی مسائل، جدیدیت، اور سائنسی ترقی جیسے موضوعات نمایاں ہیں۔
لبنیٰ صفدر کی کتاب "پاکستانی غزل اکیسویں صدی میں" اردو غزل کی ارتقائی تاریخ، کلاسیکی اور جدید اسالیب کے موازنے، اور بیسویں صدی کے اختتام سے اکیسویں صدی کی پہلی دو دہائیوں تک کے شعرا کے تخلیقی سفر کا جامع تجزیہ پیش کرتی ہے۔ اس کتاب میں غزل کے فکری و فنی رجحانات، اسلوبیاتی تبدیلیاں اور جدید شعری تقاضے تفصیل سے زیرِ بحث آئے ہیں۔
یہ کتاب اس لحاظ سے بھی منفرد ہے کہ اس میں صرف نامور شعرا کا ذکر نہیں کیا گیا، بلکہ ابھرتے ہوئے اور کم معروف شعرا کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ عام طور پر اردو ادب میں تنقیدی کتابیں چند معروف ناموں تک محدود رہتی ہیں، لیکن اصل ادبی تحریکیں نئے لکھنے والوں کے تجربات اور اختراعات سے پروان چڑھتی ہیں۔
لبنیٰ صفدر نے جدید اردو غزل میں نمودار ہونے والے نئے لب و لہجے، اسلوب اور فکری اپروچ پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ ان کے مطابق، آج کے نوجوان شعرا جدید اور آسان زبان میں شاعری کر رہے ہیں، جس سے ان کی رسائی زیادہ وسیع ہوئی ہے۔
اکیسویں صدی میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی نے زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کیا ہے، اور ادب بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ سوشل میڈیا اور آن لائن پلیٹ فارمز نے شاعری کی رسائی کو مزید وسعت دی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک سوال بھی اٹھتا ہے کہ: کیا سوشل میڈیا پر لکھی جانے والی شاعری میں واقعی ادبی معیار برقرار رہتا ہے؟ کیا نئی نسل کے شعرا غزل کی روایتی نزاکت اور حسن کو برقرار رکھ پا رہے ہیں؟ جدیدیت کے نام پر کیا اردو شاعری میں سطحیت تو نہیں آ رہی؟ یہ وہ سوالات ہیں جن پر بات کرنا بہت ضروری تھا، اور لبنیٰ صفدر نے ان سب کا متوازن اور مدلل تجزیہ پیش کیا ہے۔
ماضی میں غزل کا بنیادی موضوع محبوب، ہجر، وصال، اور گل و بلبل کی کہانیاں ہوا کرتی تھیں، لیکن آج غزل کا دائرہ بہت وسیع ہو چکا ہے۔ لبنیٰ صفدر کی تحقیق سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جدید اردو غزل میں ہمیں سماجی ناہمواری، سیاسی شعور، فلسفیانہ فکر، نفسیاتی پیچیدگیاں، حتیٰ کہ ماحولیاتی تبدیلی جیسے موضوعات بھی نظر آتے ہیں۔
آج کے شعرا نہ صرف ذاتی تجربات کو بیان کر رہے ہیں بلکہ وہ معاشرتی ناانصافی، طبقاتی فرق، اور انسانی حقوق جیسے موضوعات پر بھی شاعری کر رہے ہیں۔ اس تبدیلی نے اردو غزل کو ایک نئے فکری اور جذباتی افق پر لا کھڑا کیا ہے۔
اکیسویں صدی کی اردو غزل میں نسائی لب و لہجہ بھی زیادہ نمایاں ہوا ہے۔ خواتین شاعرات نے اپنی شاعری میں محض رومانوی جذبات کے بجائے، عورت کی آزادی، اس کی شناخت، سماجی مسائل اور نفسیاتی پیچیدگیوں کو زیادہ کھل کر بیان کیا ہے۔ اس حوالے سے پروین شاکر کے بعد فہمیدہ ریاض، کشور ناہید، زہرہ نگاہ اور دیگر شاعرات نے جدید غزل کو ایک نیا زاویہ دیا ہے۔ لبنیٰ صفدر نے بھی اس پہلو پر روشنی ڈالی ہے کہ کس طرح آج کی شاعرات اپنی الگ پہچان بنانے میں کامیاب ہو رہی ہیں
لبنیٰ صفدر کی تحریر کی سب سے بڑی خوبی اس کی گہرائی، مدلل انداز اور تحقیقی وسعت ہے۔ یہ کتاب محض ایک روایتی تنقیدی تبصرہ نہیں، بلکہ ادبی تحقیق کا ایک اہم حوالہ ہے۔
لبنیٰ صفدر کی کتاب میں تقریباً 1100 سے زائد شعرا کا ذکر موجود ہے۔ ان کے نمائندہ اشعار کو موضوعاتی درجہ بندی کے تحت پیش کیا گیا ہے، جس سے نہ صرف غزل کے بدلتے رجحانات واضح ہوتے ہیں بلکہ قاری کو مختلف شعری اسالیب کا ایک وسیع منظرنامہ بھی میسر آتا ہے۔یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اردو غزل آج بھی زندہ، متحرک اور ارتقا پذیر ہے۔ یہ نئے دور کے تقاضوں کے مطابق ڈھل رہی ہے، مگر اپنی اصل روح کو قائم رکھے ہوئے ہے۔ جہاں ایک طرف جدیدیت کے نام پر سطحیت کا خدشہ موجود ہے، وہیں دوسری طرف کئی سنجیدہ شعراء  اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے غزل کو ایک نیا آہنگ دے رہے ہیں۔
لبنیٰ صفدر جیسے محققین کا کام ہمیں یہ سمجھنے میں مدد دیتا ہے کہ جدید اردو غزل کس سمت میں جا رہی ہے۔ ان کی تحقیق سے یہ واضح ہوتا ہے کہ غزل ایک جمود کا شکار صنف نہیں بلکہ ایک ایسا ادبی اظہار ہے جو ہر دور کے احساسات اور تجربات کو اپنے اندر سمو لینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
یوں، اردو غزل کا مستقبل روشن نظر آتا ہے، جہاں کلاسیکی رنگ اور جدید موضوعات مل کر ایک نئی شاعری کو جنم دے رہے ہیں جو ہر نسل کے قاری کو اپنے سحر میں جکڑ لینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
یہ کتاب نئے شعرا کے لب و لہجے، ان کی فکری اپروچ، اور ان کے تجرباتی مزاج کا نہایت باریک بینی سے جائزہ لیتی ہے۔
ادبی تحقیق اکثر مشکل اور خشک ہو جاتی ہے، لیکن لبنیٰ صفدر کی تحریر نہایت رواں، دلچسپ اور بامحاورہ اردو میں لکھی گئی ہے۔ یہ کتاب جدید اردو غزل کے قاری، محقق، اور نقاد کے لیے ایک قیمتی اثاثہ ثابت ہوتی ہے، جو غزل کے فکری اور فنی پہلوؤں کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔

ای پیپر دی نیشن