بھارت کی ہندو سرکار اور دیگر مذاہب

تمام دنیا کے برعکس بھارت میں عالمی یوم  خواتین اپنے ہی انداز سے منایا گیا۔ اس روز قریب قریب چالیس ہزار خواتین، جو کسانوںکے ساتھ کام کرتی ہیں، نے اکٹھے ہو کر نئی دہلی کا رخ کیا اور بھارتی حکومت کے کچھ سخت قوانین کے خلاف احتجاج میں شرکت کی۔ یاد رہے کہ بھارتی پنجاب،  اتر پردیش اور ہریانہ سے تعلق رکھنے والے لاکھوں کسان کئی ماہ سے بھارتی حکومت کی جانب سے بنائے گئے نئے قوانین کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ منڈیوں  اور زرعی اجناس کی فروخت کے بارے میں بنائے گئے یہ قوانین کسانوں کے معاشی قتل کا سبب بنیں گے۔  یاد رہے کہ ان کسانوں کی غالب اکثریت  سکھ ہے۔ کچھ لوگوںکا یہ بھی کہنا ہے کہ جس طرح مودی سرکار  مسلمانوں  اور دلت آبادی سے نفرت کرتی ہے اسی طرح در حقیقت  بھارت کی انتہا پسند ہندو حکومت  در حقیقت  سمجھتی ہے کہ دیگر مذاہب کی طرح ہندوستان میں سکھوں کی بھی کوئی جگہ نہیں اور ان قوانین کا اصل مقصد در اصل سکھ کسانوں کو نشانہ بنانا ہے۔ اگر ہم مودی جی  کے  ماضی ،  انکی خواہشات  اور  پالیسیوں کو  نظر میں رکھیں تو  یہ سب  حقیقت نظر آتی ہے۔ بلکہ  اگر غور کیا  جائے تو مسٹر مودی  ایک ذہنی  مریض نظر آتے ہیں جو اپنی بنائی ایک خیالی دنیا میں قید صرف منفی سوچوں میں گھرا بیٹھا ہے ۔
 ماضی پر  نظر دوڑائیں تو  مسٹر مودی  اور  انکی پارٹی کو بھارت میں مقبولیت بابری مسجد کی شہادت کے بعد ملنا شروع ہوئی ۔ انکے  دور حکومت میں گجرات میں  2002  میں ہونے والی مسلمانوں کی نسل کشی مودی سرکار کا ایسا کارنامہ  ہے جسکا  لہو رہتی دنیا تک  وزیر اعظم مودی کے ہاتھوں پر نظر آتا رہے گا۔ ان کے وزیر  اعظم بننے تک  دنیا میں انکی  پہچان  انتہا  پسندی  اور دہشتگردی تھی ا ور  اسی  بنا پر انکے  امریکہ  میں  داخلہ  پر  پابندی  تھی۔ گجرات  فسادات  سے متعلق  بہت سے کیس  ابھی بھی انڈیا  کی عدالتوں میں مسٹر مودی  اور  اسوقت کی گجرات  سرکارکے خلاف زیر سماعت ہیں۔ ان  میں ’’ دائود  برادران  بنام  مودی  وغیر‘‘ہ  اور  دوسرا  ’’ذکیہ جعفری بنام مودی  سرکار  وغیرہ‘‘  شامل  ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ  مودی کی گجرات کی وزارت  اعلیٰ  کے دور کو  ابتدا میں  میڈیا  نے  ترقی کے شاندار  دور  کے طور پر پیش کیا۔ یہ الگ  بات  ہے کہ آج  اقتصادی  ماہرین  اس بات پر متفق ہیں کہ شروع میں فائدہ  مند نظر آنے والی پالیسیوں نے  در حقیقت گجرات میں غربت،  افلاس  اور  بیروزگاری  کو بڑھانے کے علاوہ کچھ نہیں  کیا ( بحوالہ  انڈین رزروّ   بنک کا سروے 2013)۔ اس پس منظر میںمسٹرمودی کے پہلے دور حکومت کا آغاز ہوا۔ان کے وزیر اعظم بننے کے بعد کچھ حلقوں کا حلقوں کا خیال تھا کہ اب وہ کچھ احساس ذمہ داری اور  تدبر کا  مظاہرہ کریں گے،  لیکن  ہوا  اس کے بر عکس۔ صوبائی  حکمران کے طور پر مودی  اور انکی پارٹی  کی  پالیسی مسلم کشی تک  محدود تھی لیکن مرکزی حکومت  ملتے ہے  انکی  انتہا  پسندی  اور  دہشتگردی  میں بھی اضافہ ہوا  اور  انہوں  نے  بھارت  میں  ہر قسم کی  فرقہ واریت  اور  نفرت کو  فروغ  دینا  شروع کر دیا ، چاہے  وہ  علاقائی  یا  نسلی ہو  یا  لسانی اور مذہبی۔ مسلم  دشمنی کے ساتھ ساتھ انہوں نے تمام  مذاہب  بشمول بدھ مت،  پارسی، کرسچین اور سکھوں  کے خلاف مذہبی منافرت کو  دل کھول کر ہوا  دی۔ یہاں تک کہ نچلی ذات کے ہندوئوں کے لیے بھی بھارت کی زمین تنگ کر کے رکھ دی گئی۔ ان میں سب سے قابل ذکر ’’ دَلِت ‘‘  ہندو  ہیں۔  یہ  دراصل نچلی ذات کے  ہندو ہیں اور کچھ دوسرے  مذاہب کے غریب لوگ بھی ان میں شمار کیے جاتے ہیں۔ ’’  انڈیا  گوّ رنز  ریسرچ  انسٹی  ٹیوٹ ‘‘ کی  2014  کی رپوٹ کے مطابق بھارت میں پرائمری سے پہلے سکول چھوڑ جانے والوں میں سے نصف کے قریب  ’’  دلت آبادی‘‘  سے تعلق  رکھتے  ہیں۔ آج  کے زمانے  میں  بھی سکولوں میں 80  فیصد سے زیادہ دلت  بچوں کو نسلی امتیاز کا سامنا کرنا  پڑتا ہے۔ایک سروے کے مطابق بھارت کے  65 فیصد  ہیلتھ  ورکر  دلت آبادیوں میں قدم رکھنا  پسند نہیں کرتے اور 47 فیصد ’’ دلت‘‘  لوگوں کو راشن  ڈپوئوں  میں قدم رکھنے کی اجازت نہیں ہے  ۔ یاد  رہے  بھارت میں  167 ملین دلت آباد ہیں۔  مودی سرکار کا پہلا دور حکومت  اختتام ہوا تو انہوں نے کمال  چالاکی اور عیاری سے  پاکستان دشمنی کی بنیاد پر الیکشن  جیتنے کا منصوبہ بنایا۔   اور اس کے لے پاکستان اور بھارت کو جنگ کے دھانے پر لا کھڑا کیا جس کے نتیجے میں نہ صرف خطے بلکہ تمام دنیا کا امن خطرے میں پڑ گیا۔  پاکستان کے فہم اور فراست کی وجہ سے خطہ جنگ سے تو بچ کیا لیکن بہر حال مودی جی کی  منصوبہ بندی  کامیاب ہو گئی اور  وہ ایک بار پھر الیکشن جیت گئے۔ اپنے دوسرے دور حکومت میں  مودی سرکار  اپنی سابقہ  اقلیت کش پالیسیوں کو مزید تیزی سے آگے بڑھا رہی ہے اور  اب  انکے پنجے سکھو ں تک پہنچتے بھی نظر آ رہے ہیں اور لگتا ہے کہ وہ وقت دور نہیں جب بھارت کی حکومت کہے  گی کہ ہندوستان میں سکھوں کے لئے بھی کوئی جگہ نہیں ہے۔

ای پیپر دی نیشن