یہ ایک زندہ جاوید حقیقت ہے کہ پاکستان دنیا کی وہ واحد مملکت ہے جو اسلام کے نام پر حاصل کی گئی ہے۔یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ سعودی عرب دنیا کی پہلی اسلامی ریاست ہے جس کی بنیاد اسلام پر رکھی گئی تھی۔ اس لحاظ سے پاکستان دنیا کی دوسری بڑی اسلامی ریاست ہے، اسے اسلام کا قلعہ بھی قرار دیا جاتا ہے۔ اسکے قیام کے پیش نظر مقاصد میں سب سے اہم تھا ایسا قطعہ زمین حاصل کرنا جہاں اسلام کو ’’کمز ور‘‘ ہونے سے بچایا جا سکے درحقیقت اسلامی ریاست کا مطلب ہی ایسی ریاست کا قیام تھا جہاں عدل و انصا ف کا بول بالا ہو،امن و سلامتی کا شہرہ ہو، ہر انسان خوشحال ہو، اقلیتوں کو مذہبی آزادی ہو،عام آدمی کو بنیادی حقوق حاصل ہوں۔ الغرض ایسی ریاست جہاں راوی چین ہی چین لکھتا ہو مگر بدقسمتی سے آج پاکستان کے طول و عرض میں قیام پاکستان کا مقصد دگرگوں ہے۔ آج یہ ایک جمہوری دور ہے جس میں حکمران اپنے قول و فعل کو ’’مستند‘‘ منوانا چاہتے ہیں۔ وزیروں اور مشیروں کی پوری فوج اور مکمل نظام عدل موجود ہے، پھر بھی ہر شخص سڑکوں پر انصاف کے لیے دہائی دے رہا ہے ،فیصلے بھی التوا کا شکار ہیں اور نظام زنگ آلود ہو جانے کی وجہ سے چلنے سے قاصر نظر آتا ہے۔مگر آج میں جمہوری دور پر کچھ نہیں لکھوں گی، ذرا گزرے زمانوں کی بات ہو جائے۔ بات ہو رہی تھی بادشاہت کی تو مجھے ایک بادشاہ کا قصہ یاد آگیا۔
پرانے وقتوں میں ہر طبیعت کا بادشاہ گزرا ہے۔ منصف ، جابر ،ظالم ،خدا ترس اور جیسے ان کے اعمال تھے ویسے انکے انجام بھی ہوئے کیونکہ یہ قانون فطرت ہے کہ انسان جو بوتا ہے وہی کاٹتا ہے۔ گزرے زمانوں کی بات ہے کہ ایک بادشاہ تھا۔ جس کے عدل و انصاف کا دور دور تک شہرہ تھا۔ جس کے عہد میں شیر اور بکری ایک گھاٹ پانی پیتے تھے۔کسی طاقتور میں بھی اتنی جرأت نہیں تھی کہ وہ مجرم کو بچانے کے لیے سفارش کرے! ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ بادشاہ کا بیٹا شکار کھیل کر واپس آرہا تھا،شہزادے کی طبیعت میں کافی حد تک الہڑ پن اور بے نیازی موجود تھی جو کہ اکثر شہزادوں کی طبیعت کا خاصہ ٹھہرتی ہے۔ شہزادہ فتح سے سرشار گلوری چباتا ہوا ہاتھی پر سوارگنگناتا ہوا جا رہا تھا کہ ایک گھر میں کسان کی بیوی تھی۔ غریب کی جھونپڑی کا نقشہ ہاتھی پر بیٹھ کر اور واضح ہو گیا تھا۔ شہزادے کو شرارت سوجھی اور اسی ترنگ میں پان کی گلوری اس عورت پر تھوکی ، فقرے کسے بلکہ دست درازی کی بھی کوشش کی۔ وہ غریب عورت سہم گئی اور رونے لگی اور شہزادہ قہقہے لگاتا گنگناتا ہوا چلا گیا۔ کسان کی بیوی اس بے عزتی کیوجہ سے کنویں میں چھلانگ لگانے لگی تھی مگر کسان نے اسے سمجھا بجھا کر بٹھایا اور سمجھایا کہ بادشاہ ایک خدا ترس اور نیک انسان ہے۔ اس نے ہمیشہ انصاف کیا ہے۔ایک طرف اس کا بیٹا ہے تو کیا ہوا اگر وہ حقیقتاً منصف ہے تو انصاف ضرور کرے گاوگرنہ جو آج تک ہم سنتے اور دیکھتے آئے ہیں سمجھ لینا بادشاہ کا مکرو فریب تھا جو ڈھول پیٹنے والوں نے مشہور کر رکھا تھا۔ بیوی کو سمجھا بجھا کر کسان محل کی طرف چل دیا اوربادشاہ سے فریاد کی۔ بادشاہ وزیر با تدبیر سے مخاطب ہوا: تم اس بارے کیا کہتے ہو! وزیر بولا: بادشاہ سلامت! انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ شہزادے نے جو کسان کے ساتھ کیا ہے ویسے ہی اس کے ساتھ کیا جائے تاکہ آئندہ کوئی ایسی حرکت نہ کرسکے مگر چونکہ شہزادہ حضور آپ کے جانشین ہیں، وہ سزا سے مبرا ہیں۔ آپ کسان کو چلتا بھی کر سکتے ہیں‘‘ بادشاہ نے سر جھکا لیا، چند لمحوں بعد سر اٹھایا اور نفرت سے بیٹے کی طرف دیکھ کر کہا! ’’تو رب کے غضب سے نہیں ڈرتا مگر میرے بیٹے مجھے اس مالک دوجہاں سے بہت ڈر لگتا ہے‘‘ اور فیصلہ سنا دیا۔۔ جس کے مطابق کسان کو ہاتھی اور پان کی گلوری دی جائے اور ایسے ہی کسان شہزادے کے محل کی طرف سے گزرے اور شہزادے کی بیوی کو اس کے سامنے کیا جائے۔ اس فیصلے کے ہوتے ہی سب پر سکوت طاری ہو گیا اور سب درباری بول اٹھے، اے وقت کے بادشاہ! ’’یہ مناسب نہیں ہے سزا پر غور کیا جائے اور اس آدمی کو سزا دی جائے اس نے شہزادہ حضور کی شکایت کرنے کی گستاخی کی ہے۔‘‘ مگر۔۔ بادشاہ نے کہا! ’’حکم کی تعمیل ہو‘‘ اتنی دیر میں کسان بادشاہ کے قدموں میں گر پڑا اور بولا اے عظیم بادشاہ! خدا آپ کا اقبال بلند رکھے، مجھے میرا انصاف مل گیا ہے۔ مجھے اور کچھ نہیں چاہیے‘‘ بادشاہ نے اسے زیورات اور اشرفیوں کے ساتھ رخصت کیا۔ بعد میں شہزادہ خود بھی اس سے معافی مانگنے گیا۔ افسوس۔۔۔! نہ وہ بادشاہ رہے نہ وہ وزیر با تدبیر۔۔ رہ گئے توصرف ’’درباری‘‘۔ جنھیں نہ ’’خدا‘‘ سے ڈر لگتا ہے اور ’’نہ روز حشر‘‘ سے۔ بس اپنی مطلب براری مقصود ہے تو ایسے میں کون انصاف مانگے، کس سے مانگے اور کون انصاف دے گا؟ مگریاد رہے جہاں جہاں انصاف کی موت ہوئی وہ ریاستیں صفحہ ہستی سے مٹ گئیں۔ آج اگر ہمیں قیام پاکستان کے مقاصدکو پورا کرنا ہے تو انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنا ہوگا اور کالے قوانین کا سہارا لینے کی بجائے نظام عدل کو شفاف اور آزاد کرنا ہوگا کیونکہ عدل ہی خوشحالی کا ضامن ہے!کہا جاتا ہے کہ ایک بادشاہ نے ایک دانشوربزرگ سے کہا کہ ایک ایسا حکیمانہ قول لکھ کر دو جو میری رہنمائی ریاستی خوشحالی میں کرے،اس نے لکھ کر دیا: باپ مرجاتا ہے، بیٹا مر جاتا ہے، پوتا مر جاتا ہے، بادشاہ بہت خفا ہوا۔ کہا!یہ کیا لکھا ہے میں نے خوشحالی کا راز کہا تھا۔ اس دانشور بابا نے کہا: عالم پناہ! میں نے وہی لکھا ہے۔ اگرآپ کا پوتا پہلے مرجائے یا بیٹا آپ سے پہلے مر جائے تو آپ پر مصیبت ٹوٹ پڑے گی لیکن اگر یہ ترتیب ایسے ہو جیسے میں نے بتائی ہے تو یہ فطری عمل ہوگا کیونکہ فطری ترتیب میں ہی خوشحالی ہے۔ اسی طرح عدل و انصاف کے تقاضوں کو یقینی بنانے اور انصاف کی فراہمی جلدی اور حق دار کی داد رسی کرنے میں ہی ریاست کی خوشحالی ہے ورنہ ریاست کا زوال ہے اوریہ نوشتہ دیوار ہے کہ ایسی ریاست زیادہ دیر نہیں چل سکتی ہے جہاں حکمرانوں کا طرز حیات یہ ہو کہ؛
سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا
مستند ہے میرا فرمایا ہوا