پہلا جشن آزادی جو ہم نے دیکھا

فرزانہ چودھری
پاکستان کی اصل قدر قیمت وہ ہی لوگ جانتے ہیں جنہوں نے اس کی آزادی کے لئے عملی جدوجہد میں بھرپور حصہ لیا۔  اوراسے منزلِ مراد تک پہنچانے کے لئے آگ اور خون کے کئی دریا عبورکئے  تھے۔ ان محال مَرتَبَت لوگوں نے اپنے  پیاروں کو ہندوئوں کی شقاوتِ قلبی کی نذر ہوتے ہوئے دیکھا تھا‘  اپنے بچوں کو نیزوں کی نوک پر اچھالے جانے کا  دل دھلا دینے والا منظر دیکھنے کے باوجود  یہ لوگ محض آزادی کی لگن اور پاک وطن کی سرزمین  پر سجدہ  شکر ادا کرنے کی دُھن  میں کسی بھی  مشکل اور رکاوٹ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے آگے ہی آگے بڑھتے چلے  گئے اور جنّت تک آ پہنچے جس کے لئے انہوں نے انسانی تاریخ کی سب سے بڑی قربانی دی تھی۔ پاکستان بنانے والوں کی اس نسل سے آج محض گنتی کے لوگ ہی باقی رہ  گئے  ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں کہ پاکستان جن کی ہر سانس  میں بسا ہواہے اور ہر قطرہ خون کے ساتھ  گردش کرتا ہے۔  پاکستان کا پہلا جشن آزادی منانے والی  تحریک پاکستان  گولڈ میڈلسٹ چند خوش قسمت  معروف شخصیات سے جانتے ہیں کہ  انہوں نے پہلا یوم آزادی کیسے منایا۔
   چیف جسٹس(ر)  فیڈرل شریعت کورٹ آف پاکستان میاں محبوب احمد  نے   بتایا ’’جب پاکستان بنا میری عمر  چودہ برس تھی۔  پہلے جشن آزادی کے روز اسقدر جوش و جذبہ تھا کہ میں بیان نہیں کرسکتا۔ اس روز  لوگوں کے جو جذبات اور احساسات تھے  وہ آج کے جشن آزادی کے موقع پردکھائی نہیں دیتے۔ماضی میں  جشن آزادی کو منانے میں ایک  مقصدیت نظر  آتی تھی  جو اب دکھائی نہیں دیتی۔  اس میں قصور اُس دور کی نسل کا  ہے کہ جس نے اپنی آئندہ  آنے والی نسل  کی اس انداز سے تربیت  نہیں کی۔ ان کو یہ بتایا ہی نہیں  کہ ہم  نے پاکستان کتنی جانیں قربان کر کے حاصل کیا تھا  پاکستان  آپ لوگوں کے لئے ایک نعمت  ہے آج جشن آزادی کا دن کسی مقصدیت کے تحت نہیں  بلکہ لوگ اسے ایک روایتی تہوار  سمجھ کر مناتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے پہلے جشن آزادی کے موقع پر یوم آزادی کے موضوع پر ہونے والے تقریری مقابلے میں حصہ لیا تھا۔  ہمیں  نئی نسل  کو بتانا چاہئے  کہ اگر پاکستان نہ بنتا تو ہمارا  کیا حشر ہوتا۔ اس کی جیتی جاگتی مثال پڑوسی  ملک  میں مسلمانوں کے ساتھ روا رکھا جانے والا غیر انسانی سلوک   ہے۔ ان  میں تو اپنے مذہب کے حوالے سے تفریق پائی جاتی ہے جبکہ ہمارے لئے انسانیت کے زمرے میں تمام انسان  ایک ہی درجہ رکھتے ہیں۔  پہلے جشن آزادی کے موقع پر بھی ملک کی نمایاںعمارتوں  پر چراغاں کیا گیا تھا۔  لاہور میں  دیگر شہروں  کی نسبت زیادہ سجاوٹ دیکھی۔ لاہور شہر  روشنیوں سے جگ مگ  کر رہا تھا۔  لاہور ہائی کورٹ کی عمارت ‘ جی پی او‘  گورنر ہائوس اور ریلوے اسٹیشن کی عمارتوں کو پاکستانی پرچم اور قمقموں سے سجا یا گیا تھا۔  ‘‘
لاہور کے سول سیکرٹریٹ کی عمارت پر پہلی مرتبہ پاکستان کا پرچم لہرانے والی  خاتون فاطمہ صغریٰ نے 68  یوم آزادی کے موقع پر اس کی پہلی جشن آزادی کی روداد سناتے ہوئے بتایا، ’’ ہمیں یہ کبھی نہیں بھولنا چاہئے کہ پاکستان کی بنیادوں میں مسلمان خواتین کی عصمتیں اور لاکھوں مسلمانوں کا خون شامل ہے۔ میں نے کس طرح سیکرٹیریٹ کا گیٹ پھلانگا اور عمارت پر چڑھی، آج بھی ان لمحات کو یاد کرتی ہوں تو میرا دل جوش و جذبے سے لبریز ہو جاتا ہے۔ میں سمجھتی ہوں یہ پاکستان کے روپ میں آزادی حاصل کرنے کی لگن کی انتہا تھی کہ اس دور کے مسلمانوں نے کٹھن اور پتھریلی راہوں پر چلنے سے گریز نہیں کیا۔ اس لئے پاکستان کا پہلا جشن آزادی ہم آزادی کے متوالوں کے لئے ایک نا قابل فراموش دن تھا۔ اس روز ہماری خوشی کی انتہا نہیں تھی کہ ہم نے ہمت اور حوصلے سے غلامی کی زنجیریں توڑ ڈالیں تھیں۔ ہم سب خواتین نے اکٹھے ہو کر پاکستان کا پہلا جشن آزادی  منایا اور ملک کی  ترقی اور خوشحالی کے لئے خصوصی دعائیں کی تھیں۔  ایک طویل جدوجہد کے بعد کامیابی کا جو لطف ہم نے محسوس کیا اس کو میں آج بھی الفاظ میں بیان کرنے سے قاصر ہوں۔ پاکستان کے پہلے  یوم آزادی کے موقع پر ہم سب  بے انتہا خوشی کے ساتھ ساتھ افسوس کے جذبات بھی رکھتے تھے، ہم نے ان مسلمان بہن بھائیوں بزرگوں اور بچوںکی قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کیا اور ان کے ایصال ثواب کے لئے قرآن خوانی  رکھی جنہیں  آزاد وطن کی جد وجہد میں شہادت نصیب ہوئی  ۔  یہ پاکستان کے اولین شہداء  تھے جن کی قربانیوں کی طفیل ہم ہر سال جشن آزادی کے سلسلہ میں ہونے والی تقریبات مناتے ہیں۔ اس وقت پاکستان کے پہلے یوم آزادی کا دن ایک فلم کی مانند میری نظروں کے سامنے گھومنے لگتا ہے۔ ہم سب کی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ قائد اعظم محمد علی جناح اور ہم سب کے پاکستان کو  ترقی اور خوشحالی کے ساتھ تا قیامت قائم و دائم رکھے۔آمین!‘‘
 ایڈووکیٹ محمد شیرخان  صوابی  نے  کہا ’’ ہر سال جب بھی پاکستان کی جشن آزادی کا دن آتا ہے تو خوشی سے نہ صرف  میری آنکھیں نم  بلکہ سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے کہ ہمارے مسلمان بہن بھائیوں کی جان اور مال کی قربانی کا ثمر پاکستان ہے۔   3جون 1947ء کو پاکستان بننے کا اعلان  ریڈیو پر ہوا تو اس وقت میں ہری پور جیل میں تھا۔ مجھے تحریک پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے  پر برصغیر پر قابض انگریزوں نے سول نافرمانی کے تحت چھ ماہ  کیلئے قید میں ڈال رکھا تھا۔مجھے اس وقت جیل میں تین ماہ ہو چکے تھے۔ میں اسلامیہ کالج پشاور میں فرسٹ ایئر کا طالب علم تھا۔ ہم پر ایک ہی دھن سوار تھی ’’بن کر رہے گا پاکستان، لے کر رہیں گے پاکستان۔‘‘ پاکستان کے بننے کے اعلان کے بعد ہمیں جیل سے رہائی مل گئی۔ میرے اس وقت یہ جذبات تھے کہ اگر پاکستان نہ بنا تو میں انڈیا نہیں جائوں گا بلکہ خود کو ختم کر لوں گا۔ پاکستان کا پہلا جشن آزادی  یعنی 14اگست 1947ء کے روز ہم صوابی میں اپنے گائوں نواں کلا، جو اب کرنل شیر خان(نشان حیدر) کے نام سے موسوم ہے، میں موجود تھے۔ گائوں کی ایک معتبر شخصیت عظیم خان، جو اس علاقے کے مسلم لیگ کے صدر تھے، کے ڈیرہ پر سب جمع تھے ۔  پاکستان کا پہلا یوم آزادی  ہم کبھی نہیں بھول سکتے ۔ گائوں میں موجود لوگوں نے پشتون  روایت کے مطابق اس خوشی کا اظہار ہوائی فائرنگ  اور روایتی رقص  کر کے کیا ،گھروں میں خصوصی پکوان پکائے گئے تھے۔  آج یوم آزادی  تو محض شور و غل اور بیہودگی کے مظاہرے تک محدود ہو چکا ہے ۔‘‘
 غفور النسا بیگم  نے  بتایا، ’’جب پاکستان بننے کا اعلان ہوا اور برصغیر کے مسلمانوں نے پاکستان کے لئے ہجرت کی تو ہم بھی اپنے گھر جالندھر کینٹ سے نکل کر فٹ پاتھ پر آکر بیٹھ گئے۔ اس وقت میری نئی نئی شادی ہوئی تھی۔ دو ماہ ہم نے فٹ پاتھ پر گزارے۔ اس وقت میرے شوہر لاہور آئے وہ پاکستان پوسٹ آفس میں کام کرتے تھے۔ انہوں نے بس کا انتظام کیا اور  ہم سب اس میں بیٹھ کر واہگہ باڈر کے ذریعہ پاکستان میں داخل ہوئے۔  ہم والٹن  میں ایک کیمپ میں ٹھہر گئے۔ سب لوگ  زمین پر چادریں بچھا کر  سوگئے۔   مجھے نیند نہیں آرہی تھی ۔ پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھتے ہی میں نے پہلی بات یہ کی اب ہم خطرے سے باہر ہیں۔ ہم نے اپنی منزل پالی ہے۔میرے ذہن میں پاکستان کا پرچم سمایا ہوا تھا۔ اس وقت میں نے پاکستان کے پرچم پر نظم لکھی۔   پاکستان کی خاطر میرے دادا شہید ہوئے تھے۔ ہم اپنا گھر بار اور سازوں سامان سب ہندوستان میں چھوڑ آئے تھے۔ تن کے کپڑوں کے ساتھ ہم پاکستان پہنچے تھے۔  پاکستان کی خاطر ہم نے اپنا سب کچھ قربان کر دیا۔  جب پاکستان بنا اس وقت میری عمر سترہ اٹھارہ سال  تھی۔ جب پاکستان کا پہلا جشن آزدای منایا گیا اس وقت میں اپنے سسرال  والوںکے ساتھ گاؤں میں تھی ۔ ہم سب پاکستان بننے پر بے حد خوش  تھے۔ ہم نے پہلے جشن آزادی کی تیاری میں بھر پور حصہ لیا اور اپنے گھروں پر چراغاں کیا ۔ گاؤں کے بچوں کو پاکستانی پرچم کی جھنڈیاں بنا کر دیں۔  لڑکوں نے ڈھول کی تال پر خوب بھنگڑے ڈالے۔ گھر گھر پاکستانی پرچم   لہرایا  گیا  سکولوں میں جشن آزادی کے حوالے سے خصوصی تقریبات ہوتیں جس میں، میں ضرور شرکت کرتی تھی۔  میری چوتھی نسل بھی جانتی ہے کہ  مسلمانوں نے پاکستان حاصل کرنے کے لیے کتنی قربانیاں دیں۔ ‘‘

ای پیپر دی نیشن