دعا کے آداب ، احکامات، شرائط اور فضیلت

  امیر افضل اعوان


دعا کا آغاز حضرت آدم ؑ سے ثابت ہے اور یہ ہمیشہ سے ہی ابن آدم کا شعار رہی ہے جب کہ ملائکہ بھی اللہ پاک سے دعا گو رہتے ہیں اور دیگر مخلوقات بھی اللہ رب العزت کی ثناء بیان کرتی ہیںاظہار کا وہ موثر و جامع طریقہ دعا ہے اظہار بندگی کیلئے اللہ پاک خود اپنے بندوں کو دعا مانگے کاحکم دیتا ہے َ
دعا کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے مشرکین نے بھی اپنی عبادات میں اسکو ایک لازمی جز بنایا، بعض مذاہب کی عبادت محض دعا تک ہی محدود ہے۔
 تخلیق آدم کے بعد سب سے پہلی عبادت جو حضرت آدم ؑ اور اماں حوا کو سکھائی گئی وہ دعا ہی تھی اور اس کا تذکرہ قرآن کریم میں بھی موجود ہے’’ دونوں بول اٹھے کہ اے ہمارے پروردگار ! ہم اپنی جانوں پر ظلم کر گزرے ہیں، اور اگر آپ نے ہمیں معاف نہ فرمایا اور ہم پر رحم نہ کیا تو یقینا ہم نامراد لوگوں میں شامل ہوجائیں گے‘‘ سورہ الاعراف، آیت 23 ،دعا کا آغاز حضرت آدم ؑ سے ثابت ہے۔ قرآن پاک سے حضرت نوح   ؑ، حضرت یونس ؑ، حضرت یوسف ؑ، حضرت ایوب ؑ، حضرت سلیمان ؑ، حضرت لوط  ؑ، حضرت ابراہیم ؑ، حضرت اسماعیل ؑ، حضرت زکریا  ؑ، حضرت موسیٰ   ؑ، حضرت عیسیٰ  ؑ، حضرت طالوت ؑ اور اصحاب کہف کے علاوہ دیگر انبیاء کرام ؑ کا دعا مانگناقرآن پاک   سے ثابت ہے اور سورۃ آل عمران میں حضرت عمران ؑ کی ذوجہ اور حضرت مریم  ؑکی والدہ کی دعا بھی موجود ہے۔ اللہ پاک خود اپنے بندوں کو دعا مانگے کاحکم دیتا ہے، اس حوالہ سے قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ’’ کہہ دو کہ میرے پروردگار نے تو انصاف کرنے کا حکم دیا ہے، اور یہ کہ ہر نماز کے وقت سیدھا (قبلے کی طرف) رخ کیا کرو اور خاص اسی کی عبادت کرو اسی کو پکارو، اس نے جس طرح تم کو ابتداء  میں پیدا کیا تھا اسی طرح تم پھر پیدا ہو گے‘‘ سورہ الاعراف، آیت29 ، اس آیت مبارکہ میں دعا کے احکامات کے ساتھ ساتھ دعا کے آداب بھی بیان کردیئے گئے۔  سورہ المؤمن، آیت 65 ، اس آیت مبارکہ میں خالق کائنات کی اطاعت و تابعداری کے ساتھ اس کی کبریائی کا بھی واضح بیان موجود ہے، آداب دعا کے حوالہ سے قرآن کریم میں ایک اور مقام پر فرمایا گیا ہے کہ ’’ اللہ کسی بھی شخص پراس کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا ہر شخص نے جو نیکی کمائی ہے، اس کا پھل اسی کے لئے ہے اور جو بدی سمیٹی ہے اس کا وبال اسی پر ہے (ایمان والو تم یوں دعا کیا کرو) اے ہمارے رب! ہم سے بھول چوک میں جو قصور ہوجائیں ان پر گرفت نہ کرنا، اے مالک! ہم پر وہ بوجھ نہ ڈالنا جو تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالے تھے، پروردگار! جس بار کو اٹھانے کی طاقت ہم میں نہیں ہے، وہ ہم پر نہ رکھ، ہمارے ساتھ نرمی کر، ہم سے درگزر فرما، ہم پر رحم کر، تو ہمارا مولیٰ ہے اور کافروں کے مقابلہ میں ہماری مدد کر‘‘ سورہ البقرہ، آیت 286 ، غور فرمایئے کہ اس آیت مبارکہ میں بندہ کے لئے دعا کا طریقہ کار بڑی وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا گیا کہ بندوں کو چاہیے وہ اپنے گناہوں پر اظہار ندامت کے ساتھ رب کائنات کے حضور رحم و کرم کی استدعا کریں۔
 سورہ البقرہ ، آیت 186 ، اس آیت مبارکہ میں دعا کی قبولیت کی شرط بھی بیان کردی گئی کہ بندے اپنے رب کی بات مان لیا کریں اور اس پر ایمان کامل رکھیں، قرآن کریم میں دعا کے احکامات، آداب اور شرائط بیان کرتے ہوئے ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’ تم لوگ اپنے پروردگار سے دعا کیا کرو گڑ گڑا کے بھی اور چپکے چپکے بھی واقعی اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو نہ پسند کرتا ہے جو حد سے نکل جائیں‘‘ سورہ الاعراف، آیت 55 ، اسی طرح ایک اور جگہ فرمایا گیا ہے کہ ’’ اور ملک میں اصلاح کے بعد خرابی نہ کرنے اور خدا سے خوف کھاتے ہوئے اور امید رکھتے ہوئے دعائیں مانگتے رہنا، کچھ شک نہیں کہ خدا کی رحمت نیکی کرنے والوں سے قریب ہے‘‘ سورہ الاعراف، آیت 56 ، اس آیت مبارکہ میں تعمیر سے تخریب کی طرف جانے کی ممانت اور خوف خدا کے ساتھ دعائیں مانگتے رہنے کا درس دیا جارہا ہے، اسی مفہوم کے ساتھ قرآن کریم میں ایک اور مقام پر فرمایا جارہا ہے ’’ ان کی دعابس یہ تھی کہ اے ہمارے رب ! ہماری غلطیوں اور کوتاہیوں سے در گزر فرما، ہمارے کام میں تیرے حدود سے جو کچھ تجاوز ہوگیا اسے معاف کر دے، ہمارے قدم جما دے اور کافروں کے مقابلہ میں ہماری مدد کر‘‘ سورہ آل عمران ، آیت 147، یہاں درس دیا جارہا ہے کہ جب زندگی میں مصیبت و تکلیف کا سامنا ہو کسی بھی گمراہی یا بددلی کا شکار ہونے کی بجائے تو اللہ تعالیٰ کے حضور کامیابی، فتح و نصرت کی دعا کرنی چاہیے۔
دنیا کی فانی زندگی میں ہمارے گرد شیطان نے جال بن رکھے ہیں اور وہ انسان کی سوچ کو بھٹکانے کے ساتھ ساتھ اس کو زلت و ذلالت کی پستیوں میں دھکیلنے کے لئے کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا ، انسان کو صراط مستقیم پر گامزن رکھنے کے لئے خالق کائنات خود ثابت قدمی کا درس دیتے ہوئے قرآن پاک میں ارشاد فرما ہے کہ ’’ وہ دعامانگتے ہیں) اے ہمارے رب کجی پیدا نہ کر ہمارے دلوں میں اس کے بعد (کہ)جب تونے ہدایت دے دی ہمیں اور عطا فرما ہمیں اپنی طرف سے رحمت بے شک توہی سب کچھ عطاکرنے والا ہے‘‘ سورہ آل عمران ، آیت 8 ، یہاں مستقیم اور منحرف دو قسم کے لوگوں کا ذکر ہورہا ہے اور اللہ نے مومنوں کو تعلیم دی کہ وہ اللہ سے ایمان پر ثابت قدمی کی دعا کیا کریں، اسباب دنیا کی تقسیم پر انسان کو رنجیدہ خاطر ہونے کی بجائے اپنے حال پر مطمئن رہنے کا درس دیتے ہوئے قرآن کریم میں فرمان ربانی ہے کہ ’’ اور جو کچھ اللہ نے تم میں سے کسی کو دوسروں کے مقابلہ میں زیادہ دیا ہے اس کی تمنا نہ کرو جو کچھ مردوں نے کمایا ہے اسکے مطابق ان کا حصہ ہے اور جو کچھ عورتوں نے کمایا ہے اس کے مطابق ان کا حصہ ہے، ہاں، اللہ سے اس کے فضل کی دعا مانگتے رہو، یقیناً اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے‘‘ سورہ النساء ، آیت 32 ، اس آیت مبارکہ میں بہت زیادہ وضاحت کے ساتھ بیان کیا جارہا ہے کہ مرد و زن دنیا میں جو محنت کررہے ہیں ان کا حصہ اسی محنت کے مطابق رکھا گیا ہے وہ اس پر راضی ہوجائیں اور اللہ تعالیٰ سے اس کے فضل و کرم کے طلب گار رہتے ہوئے دعا کا سلسلہ جاری رکھیں، مزید ہمیں یہ بھی درس دیا جارہا ہے کہ اگر کوئی شخص آپ کو دعا دے تو ہمیں چاہیے کہ ہم بھی جواباً اسی طرح نیک جذبات کا اظہار کریں’’ اور جب تمہیں سلامتی کی کوئی دعا دی جائے تو تم بھی سلامتی کی اس سے بہتر دعا دو یا اسی کو لوٹا دو یقیناً اللہ تعالیٰ ہر چیز کا حساب کرنے والا ہے‘‘ سورہ النسا، آیت 86 ، یہاں سلام کی شکل میں ایک بندے کی طرف سے درسرے شخص کو دی جانے والے سلامتی کی دعا کا بیان ملتا ہے اور حکم دیا جارہا ہے کہ اس صورت میں زیادہ بہتر الفاظ کا چنائو کیا جائے۔ 
قرآن پاک میں کچھ دعائیں ایسی بھی ہیں کہ جو اللہ تعالیٰ نے صرف حضور اکرم ؐ اور آپؐ کی امت کو سیکھانے کے لئے ارشاد فرمائیں، جس طرح متعدد مقامات پر آپ ؐ کو حکم فرمایا گیا کہ ، ان الفاظ میں دعا مانگی جائے اور یہ بات سورۃ اخلاص، سورۃ الکافرون، سورۃ الفلق اور سورۃ الناس سمیت دیگر آیات قرانی میں بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کی گئی ہے ، اسی طرح قرآن کریم میں ایک مقام پر فرمایا گیا ہے کہ ’’ اور (اے پیغمبر ؐ! تم دعا کرو کہ اے رب، (ہمیں) بخش دے اور (ہمارے حال پر) رحم فرما، تو سب رحم کرنے والوں سے بہتر رحم کرنے والا ہے‘‘ سورۃ المومنون، آیت 118، اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطاء کردہ دعائوں میں تمام دعائوں کی سرتاج سورۃ فاتحہ ہے کہ جس میں حمد ربانی بھی ہے ، تذکرہ آخرت بھی ہے، ہر خیر کا سوال بھی ہے اور یہاں ہر قسم کے شر سے پناہ مانگنا بھی سیکھادیا گیا، قرآن پاک کے بعد ہمارا سب سے بڑا سرمایہ وہ دعائیں ہیں کہ جو رسالت مآب حضرت محمد ؐ کی زبان مبارک سے ارشاد ہوئیں، تاثیراً ان کا بھی وہ ہی مقام ہے جو کہ قرآنی دعائوںکا ہے، ہمارے پیارے نبی ؐ نے بھی ہمیں اس کی تلقین کی ، آپؐ  زندگی کے ہر معاملہ میں دعا کا خصوصی اہتمام کرتے تھے اور ان دعائوں کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا و آخرت کی کوئی بڑی سے بڑی اور چھوٹی سے چھوٹی بھلائی ایسی نہیں کہ جس کی آپ  ؐ نے دعا نہ فرمائی ہو اور اسی طرح کوئی بڑی سے بڑی اور چھوٹی سے چھوٹی برائی ایسی نہیں کہ جس سے آپؐ  نے پناہ نہ مانگی ہو۔۔۔

ای پیپر دی نیشن