میگومی اور  عافیہ دو بیٹیاں اور دو ریاستی رویئے 

جاپان کی ایک بیٹی تھی میگومی یوکوٹا۔ تیرہ برس کی ایک طالبہ، جو 1977 میں اسکول سے واپس آتے ہوئے اچانک غائب ہو گئی۔ برسوں تک کسی کو اندازہ نہ ہو سکا کہ اسے زمین نگل گئی یا آسمان۔ پھر یہ انکشاف ہوا کہ اسے شمالی کوریا کے ایجنٹوں نے اغوا کر لیا تھا۔ خبر سن کر صرف اس بچی کے ماں باپ ہی نہیں، ساراجاپان ہل کر رہ گیا۔ میگومی جسے جاپان اور جاپانی قوم نے اپنی بیٹی مان کر طے کر لیا کہ اس کی واپسی تک، چین سے نہیں بیٹھیں گے۔

پاکستان کی بھی ایک بیٹی ہے جس کا نام ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہے۔  
تین بچوں کی ماں ،بوسٹن کی گریجویٹ اور نیوروسائنس میں پی ایچ ڈی، ، جو ایک دن اچانک اسی طرح لاپتہ ہو گئی۔ جس کے بارے میں برسوں بعد پتہ چلا کہ وہ زخمی، بدحال، اور اپنی شناخت سے محروم لڑکی اب امریکی جیل میں دہشتگردی کے الزام میں قید ہے جس پر تشدد اور ستم کی ہر حد پار کردی گئی ہے۔
بظاھر یہ دونوں بیٹیاں ایک جیسی نہیں،  نہ ان کے حالات، نہ الزامات اور نہ پس منظر۔ لیکن دونوں کی گمشدگی دو مختلف قوموں کے مختلف رویوں کا اظہار بن کر سامنے آتی ہے۔ دونوں کی گمشدگی نے اپنی اپنی قوم کے ضمیر پر دستک دی۔ فرق اتنا ہے کہ جاپانی قوم نے اس دستک کو سنا، اور پاکستانی قوم … اب بھی خاموش ہے۔
جاپان میں جب پہلی بار میگومی کا اغوا منظرعام پر آیا، تو کئی افراد نے سمجھا کہ شاید وہ کہیں  بھاگ گئی  ہے۔ لیکن اس کے والدین نے ہار نہیں مانی۔ وہ سالہا سال میڈیا، پارلیمنٹ، اقوام متحدہ، اور دنیا بھر میں اپنی بیٹی کی واپسی کے لئے آواز بلند کرتے رہے۔ اور
آخرکار جاپانی حکومت نیاس جدوجہد میں ان کا ساتھ دیا۔ جس نے شمالی کوریا کے ساتھ جاپان کے سفارتی تعلقات کا پورا خاکہ تبدیل کر کے رکھ دیا۔ اس وقت کے وزیراعظم جونیچیرو کوئزومی اس معاملے کو اٹھانے خود پیانگ یانگ گئے اور جاپانی قوم کی اجتماعی ہمدردی نے میگومی کو ایک فرد سے زیادہ، ایک قومی علامت بنا دیا اور اس علامت نے جاپانی خارجہ پالیسی میں انسانی حقوق کو مرکزی حیثیت دی۔
دوسری جانب ڈاکٹر عافیہ ہیں  جنہیں  تنہا چھوڑ دیا گیا۔
ہم مانتے ہیں کہ ڈاکٹر عافیہ کا قصہ زیادہ الجھا ہوا ہے، اور شاید ان کے معاملے میں سفارتی گرد و غبار بھی زیادہ ہے۔ لیکن  سوال پھر بھی بہت سادہ ہے کہ کیا ریاست اپنے شہری کو عالمی قانون سے ماورا قید میں رکھنے دے سکتی ہے؟
ڈاکٹر عافیہ کا کیس صرف قانونی پیچیدگیوں سے عبارت نہیں، یہ سیاسی خاموشی، سفارتی کمزوری، اور اخلاقی لاتعلقی کی پوری تاریخ ہے۔
سوال بہت سادہ ہیکہ کیا کبھی کسی وزیراعظم نے اس کا ذکر اقوام متحدہ میں کیا؟
 کیا کوئی پاکستانی سفیر اس کے لیے مسلسل آواز بنا؟
اگر اس بیٹی کے لیے کوئی آواز اٹھی بھی تو وہ چند درد مند دل رکھنے والے افراد کی انفرادی کوششوں تک محدود رہی۔
ریاستوں کا کام ٹیکس لینا نہیں بلکہ اپنے شہریوں کے حقوق کی حفاظت بھی ہوتا ہے۔ ہم نے تو  بیٹی کو ضمیر کی آواز کے بجائے صرف خبر بنادیا۔
ہمارے ارباب اقتدار یہ کیوں نہیں سوچتے کہ جب ریاستیں اپنی بیٹیوں کو تلاش کرتی ہیں، تو وہ صرف ایک فرد کو تلاش نہیں کرتی بلکہ اپنی غیرت، اپنی اجتماعیت، اور اپنے آئندہ نسلوں کے اعتماد کو بچا رہی ہوتی ہیں۔
جاپان نے تو یہ سبق سیکھ لیا اور دنیا کو سکھا بھی دیا۔
لیکن پاکستان… شاید ابھی یہ سب کچھ  سیکھنے کے مرحلے میں ہے۔
اب ایک سوال جاپان سے جو انسانی ہمدردی، امن اور شہری حقوق کا علمبردار ملک ہے اور شمالی کوریا جیسی ریاست  سے اپنے شہریوں کے لیے لڑا ، وہ انسانی حقوق کی بات کرتا ہے اور ایٹم کی تباہ کاری سے انسانیت کو بچانے میں اپنی بہترین توانائیاں اور وسائل صرف کررہا ہے، کیا وہ امریکہ جیسے اتحادی سے انسانی اصولوں کی بنیاد پر سوال نہیں کر سکتا؟
کیا دنیا کے وہ ممالک جو انسانی حقوق کے عالمی محافظ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، صرف اپنے شہریوں کے لیے ہی یہ معیار رکھتے ہیں؟ یا پھر قومیت، رنگ، اور جغرافیئے انسانی ضمیر کے معیار طے کرتے ہیں؟
جاپان کی بیٹی میگومی آج بھی نہیں ملی مگر جاپان اسے بھولا نہیں۔ اس کا نام آج بھی پارلیمنٹ میں گونجتا ہے، سفارتی فائلوں میں زندہ ہے، اور قوم کی یادداشت کا حصہ ہے۔
پاکستان کی بیٹی عافیہ امریکی قید میں تشدد سہ رہی ہے لیکن محض رویوں کے فرق سے ایک قوم اپنی بیٹی کی غیر موجودگی میں بھی باوقار ہے،
اور ایک قوم اپنی موجود بیٹی کو بھلا کر بے توقیر ہو چکی ہے۔

ای پیپر دی نیشن