مذاکرات میں تاخیر کیوں؟

چند روز قبل 25دسمبرکو بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کی ہم نے 148ویں سالگرہ منائی ہے۔ اس عظیم شخصیت کی انتھک جدوجہد سے وطن عزیز پاکستان ہمیں ملا۔ قیامِ پاکستان کے چند مقاصد بھی تھے جن کے حصول کے لیے لاکھوں مسلمانوں نے قائداعظم کی سرپرستی میں اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے۔ دربدر ہوئے اور بڑی مشکلات کا سامنا کرنے کے بعد یہ وطن حاصل کیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ 77سال گزر چکے ہیں۔ کیا ان عظیم مقاصد کو ہم نے حاصل کر لیا ہے؟ یا اُن کا ہمیں علم بھی ہے کہ وہ کیا تھے؟ جواب نفی میں ہے۔ قائداعظم نے تو ہمیں اتحاد، ایمان اور تنظیم کا درس بھی دیا۔ ہم نے ان کی کسی ایک بات کو بھی اہمیت دینا مناسب نہیں سمجھا۔ انہوں نے تو فرمایا تھاکہ اس نئی مملکت کی قومی اور سرکاری زبان اردو اور صرف اردو ہو گی۔ ان کی تعلیمات پر عمل پیرا نہ ہو کر آج انفرادی و اجتماعی طور پر ہمیں پریشانیوں و ذلّت کا سامنا ہے۔ انہوں نے حکم دیا تھا کہ ہر ادارہ آئین کے مطابق اپنی اپنی ذمہ داریاں نبھائے گا۔ آئین کو تو ویسے ہی ہم نے ردّی کی ٹوکری میں پھینک دیا ہے۔ بجائے ملکی مفاد میں آئین پر عمل کرنے کے ہم ہر روز ذاتی مفادات کے لیے آئینی ترامیم لے آتے ہیں۔ چائنہ ہم سے ایک سال بعد آزاد ہوا تھا وہ پوری دنیا پر حکمرانی کے خواب دیکھ رہا ہے۔ دوسری طرف ہم اس وقت پوری دنیا کے مقروض ہیں۔ اندرونی و بیرونی طور پر ہمیں پریشانیوں کاسامنا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ ہمارے حکمران طبقے کو شروع سے ہی قومی نہیں بلکہ ذاتی مفادات عزیز اور مقدم رہے ہیں۔ 77سال سے وہ لوٹ مار میں مگن ہیں۔ اندرون و بیرون ملک ان کی جائیدادوں کے انبار لگے ہیں۔ وہ کسی کو بھی جواب دہ نہیں ہیں۔ دوسری طرف عام عوام کی زندگی اجیرن بنی ہوئی ہے۔ 
سرکار پہلے عوام کو ان کی تمام بنیادی سہولیات مہیا کرتی ہے۔ پھر ان سے ٹیکس لیتی ہے۔ یہاں کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ٹیکسز کے انبار لگا دیئے گئے ہیں۔ سہولت نام کی کوئی چیز ہی نہیں۔ تین چار سال سے ملک میں بدامنی، قانون شکنی، بیروزگاری، غربت عروج پر ہے۔ حکمرانوں کی ذاتی لڑائیاں ہی ختم نہیں ہورہیں۔ فوج اور عدلیہ جیسے مقدس اداروں کو بھی متنازع بنا دیا گیا ہے۔ تیسری پارٹی کو اگر پانچ سال پورے کرنے دیئے جاتے تو الیکشن میں عوام مرضی سے اپنے نمائندے چن لیتے۔ مگر اس دن سے ملک میں انتشار، لاقانونیت، تیسری پارٹی اور حکومت دونوں کی طرف سے جاری ہے۔ مناسب تھا کہ آپ تیسری سیاسی پارٹی پر کچھ عرصے کے لیے پابندی لگا دیتے۔ نہ ہی وہ الیکشن میں حصہ لیتے اور نہ ہی فارم47کی آوازیں سننے کو ملتیں۔ پھر9مئی کو ملک میں تماشا لگا۔ فوجی تنصیبات پر حملے ہوئے۔ خوب ہماری جگ ہنسائی ہوئی ا ور ہو رہی ہے۔ کئی لوگوں کو پکڑا گیا۔ چند ایک کی ضمانت ہو چکی ہے۔ بات یہ ہے کہ پاک فوج تو سب کی ہے۔ پورے ملک سے مائوں کے بیٹے اور بیٹیاں وطن عزیز کے دفاع کے لیے اس میں شمولیت اختیار کرتے ہیں۔ یہ کسی ایک سیاسی پارٹی کی نہیں ہے۔ وطن کے دفاع میں یہی جوان اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرتے ہیں۔ ان کا احترام ہر شہری پر فرض ہے۔ عمران خان جیل میں ہے۔ اس بدامنی کو فوری طور پر ختم ہونا چاہیے۔ جس کے لیے مذاکرات کے علاوہ کوئی راستہ ہی نہیں۔ فوج اور عوام تو آپس میں لازم و ملزوم ہیں۔ یک جان دو قالب ہیں ۔ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے سیاسی لیڈر حکومت میں ہیں۔ انہیں ملکی سلامتی و خوشحالی کے لیے ایک قدم بڑھ کر یہ کام کرنا چاہیے کہ ملک میں امن قائم ہو۔ ترقی کا سفر جاری ہو ۔ مذاکرات میں تاخیر انتہائی نقصان دہ ہے۔ خواجہ آصف، عطا تارڑ، فیصل کریم کنڈی، شرجیل میمن جیسے ترجمانوں کو سوکنوں والا کردار ادانہیں کرنا چاہیے بلکہ صلح کے لیے اقدامات اٹھانے چاہیے۔ 
پی ٹی آئی کے یہ مطالبات درست ہیں کہ جوڈیشل کمیشن بنایاجائے اور جو بھی قصور وار ہو اسے سزائیں دی جائیں۔ وزیراعظم صاحب آج بار بار فرماتے ہیں کہ میں جو کچھ بھی ہوں ملکی معیشت جو بہتری کی طرف گامزن ہے تو اس کا کریڈٹ چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر صاحب کو جاتا ہے۔ ان کی یہ بات سوفیصد درست ہے حالانکہ یہ کام تو سیاستدانوں کے کرنے کے ہیں۔ جب سیاستدان ہی نااہل ہوں تو ملک کو چلانے کے لیے کسی کو تو یہ ذمہ داری اٹھانی ہوتی ہے۔ ہم جنرل عاصم منیر صاحب سے بھی درخواست کرتے ہیں کہ اللہ پاک نے آپ کو عزت و منصب سے نوازا ہے۔ پہلے کی طرح آپ اب بھی فراخدلی وصلہ رحمی سے کام لیتے ہوئے جو ملزمان قابل معافی ہیں انہیں معاف کر دیں۔ اللہ تعالیٰ بھی معاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ سیاستدانوں کے اصول ہی اپنے ہوتے ہیں۔ سانحہ ماڈل ٹائون میں تیرہ لوگوں کو قتل کر دیا گیا تھا وہ فائل ہی کہیں دَب گئی ہے۔ خواجہ آصف جیسے ’’بزرگ‘‘ لوگوں کو رنجشیں ختم کرنے کے لیے کردار ادا کرنا چاہیے۔ ذاتی مفادات کو نہیں ملکی و عوامی مفادات کو ترجیح دینی چاہیے۔لہٰذا مذاکرات میں ایک لمحہ کی تاخیر بھی مناسب نہیں۔ لڑائی ختم کرنی ہو تو ماضی کی باتیں اور غلطیاں ایک دوسرے کو معاف کرنا پڑتی ہیں ورنہ آگے نہیں بڑھا جا سکتا۔
٭…٭…٭

سید روح الامین....برسرمطلب

ای پیپر دی نیشن