وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ بھارت سے مذاکرات کیلئے تیار ہیں مگر اپنے دفاع سے غافل نہیں رہ سکتے، بھارت کشمیریوں کی جدوجہد آزادی سے دنیا کی توجہ ہٹانے کیلئے لائن آف کنٹرول پر اشتعال انگیز ی کرتا ہے۔ اس سے خیر کی توقع رکھنا بے وقوفی ہوگی مگر پھر بھی انکے ساتھ بامعنی ڈائیلاگ کرنے کیلئے تیار ہیں۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ مودی کی طرف سے کشمیر کو بنیاد ی مسئلہ ماننے تک مذاکرات ممکن نہیں۔
مسئلہ کشمیر کو لٹکائے رکھنا اور اس پر ٹال مٹول بھارت کی فطرت بن چکا ہے۔ بھارت مقبوضہ وادی میں اپنا قبضہ مضبوط تر بنانے کیلئے کوشاں رہا ہے۔ وہ کبھی کشمیر کو متنازعہ سمجھتا تھا مگر اب اسے اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے۔ اسکی پوری کوشش ہے کہ پاکستان اس مسئلہ سے لاتعلق ہو جائے۔ ایسا قطعی ممکن نہیں، بھارت کو بھی اس کا ادراک ہے اس لئے وہ متنازعہ علاقے میں ”سٹیٹس کو“ کیلئے بھی سرگرداں رہا ہے۔ کشمیر کے حوالے سے پاکستان کی پالیسی اقتدار میں آنےوالوں کے مائنڈ سیٹ کی عکاس رہی ہے۔ مسلم لیگ پاکستان کی خالق جماعت اور اسکے ہر دھڑے کے سربراہ کا قائد کے جان نشین ہونے کا داعی ہے مگر کشمیر پر کسی کی بھی قائد جیسی کمٹمنٹ نہیں رہی۔ کوئی مصلحتوں کا شکار رہے اور کسی نے ذرا زوردار آواز بلند کی۔ قائد جیسی پرعزم قیادتیں آتیں تو مسئلہ کشمیر حل ہو چکا ہوتا۔ مسئلہ کشمیر کا حل اقوام متحدہ نے استصواب کی صورت میں تجویز کر دیا ہے۔ اس پر عمل کی ضرورت جس سے بھارت راہ فرار اختیار کر چکا ہے۔ عالمی برادری دونوں ممالک کو مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کشمیر حل کرنے کو کہہ رہی ہے۔ مگر بھارت سنجیدگی سے مذاکرات پر آمادہ نہیں ہوتا اس پر وزیراعظم خاقان عباسی کا دوٹوک بیان پاکستانیوں اور کشمیریوں کی امنگوں کے عین مطابق ہے کہ مودی کے کشمیر کو بنیادی مسئلہ ماننے تک مذاکرات ممکن نہیں۔شاہد خاقان عباسی کا یہ بیانیہ اپنے لیڈر اور کشمیری وزیراعظم میاں نواز شریف کے موقف سے بھی بہتر اور زیادہ واضح ہے۔ اس پر ان کو ڈٹے رہنے کی ضرورت ہے۔ بھارت مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کشمیر کے حل پر تیار نہیں ہوتا تو ہمیں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بھارت کی جانب سے کشمیر کو متنازعہ ماننے کا انتظار کرنے کے بجائے مسئلہ کشمیر کے حل کے دیگر ذرائع استعمال کرنے پر غور کرنا چاہئے۔