مروہ خان میرانی
ایک دن امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ مسجد کے دروازے پر اپنے خچر سے اترے۔ آپ نے اپنا خچر حفاظت کے خیال سے ایک شخص کے حوالے کیا اور مسجد میں تشریف لے گئے۔ آپ کے جانے کے بعد اس شخص کے دل میں خیانت آگئی اور آپ کے خچر کی لگام اتار کر فرار ہو گیا۔ حضرت علی رضہ نماز سے فارغ ہو کر جب مسجد سے باہر تشریف لائے تو آپ کے ہاتھ میں دو درہم تھے۔ یہ دو درہم آپ خچر کی نگہبانی کرنے والے شخص کو بطور انعام دینا چاہتے تھے،لیکن آپ نے دیکھا کہ خچر بغیر لگام کے خالی کھڑا ہے۔ بہرحال آپ بغیر لگام کے خچر پر سوار ہو کر گھر پہنچے اور غلام کو دو درہم دیے کہ بازار سے دوسری لگام خرید لائے۔ غلام بازار گیا، اس نے وہی لگام ایک شخص کے ہاتھ میں دیکھی جو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی چوری ہوئی تھی، پوچھنے پر معلوم ہوا کہ ایک شخص یہ لگام دو درہم میں بیچ گیا ہے۔ واپس آ کر غلام نے یہ بات حضرت علی رضہ کو بتائی تو آپ رضہ نے فرمایا: "بندہ بعض اوقات خود صبر نہ کرنے اور عجلت سے کام لینے کی وجہ سے رزقِ حلال کو حرام کر دیتا ہے۔ حلانکہ جو کچھ رب العزت نے اس کی قسمت میں لکھا ہوتا ہے اس سے زیادہ اسے نہیں ملتا"۔
اس واقعے سے ہمیں یہ سبق سیکھنے کو ملتا ہے کہ انسان کی قسمت میں رزق پہلے سے موجود ہے جو اسکی موت سے پہلے ختم نہیں ہوگا۔ حدیث مبارک ہے کہ"رزق کو اپنے سے دور نہ سمجھو جو رزق مقدر ہو چکا ہے اس کو حاصل کیے بدن موت نہیں آ سکتی اس لیے طلب رزق میں خودداری اور شریعت کے حق کا خیال رکھا کرو حلال کو حاصل کیا کرو اور حرام کو چھوڑ دیا کرو- (ابن حبان)
اللہ پاک نے بڑے واضح الفاظ میں بیان کیا ہے کہ:
"اور حکم کر اپنے گھر والوں کو نماز کا اور ہم تجھ سے رزق کے طلبگار نہیں ہیں بلکہ ہم تجھ کو رزق عطا کرتے ہیں اور انجام اہل تقوی کا ہے"-(سورہ طہ: 132)
اللہ سبحانہ و تعالی نے رزق سے بڑھ کے جس بات کو اہمیت و ترجیح دی ہے وہ نماز ہے لیکن ہماری کم عقلی کا ثبوت کہ ہم رزق کماتے کماتے اپنی زندگی فنا کر دیتے ہیں نامال و دولت رہتی ہے اور نہ صحت۔
مشہور کہاوت ہے کہ چادر دیکھ کے پاو¿ں پھیلاو¿ لیکن ہمارے ہاں یہ المیہ ہے کہ دوسروں کی چادر دیکھ کے اپنے پاو¿ں پھیلائے جاتے ہیں۔ ایک دوسرے سے مقابلے کے چکروں میں دولت حاصل کرنے کی تگ و دو میں ہی لگے رہتے ہیں پھر چاہے رزق حلال ہو یا حرام زندگی کا سٹینڈرڈ، اعلی درجے کا ہونا چاہیے۔
اعلیٰ برینڈز کے کپڑے حاصل کرتے کرتے یہ بھول جاتے ہیں کہ کفن کا کوئی برانڈ نہیں ہوتا۔ اختتام سب کا ایک جیسا ہی ہے تو پھر زندگی میں مقابلہ کیسا؟ جن لوگوں سے مقابلہ کرتے ہوئے حرام کو اپنا ساتھی بنایا وہی لوگ قبر میں نہ آپ کے کام آئیں گے اور نہ آخرت میں اور نہ وہ دولت جو کمائی گئی۔ جب کہ ہمارے نبی نے اس سے برعکس اپنے خاندان کے لیے دعا فرمائی:
"اے ہمارے معبود! آل محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو حسب ضرورت اور بقدر کفالت رزق عطا فرما!"۔ (اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو پسند نہیں فرمایا کہ ال محمد صلی اللہ علیہ وسلم عیش و عشرت کی زندگی بسر کریں)- (بخاری)
پھر قرآن پاک میں ایک اور جگہ آتا ہے
"پھر جب نماز پوری کر لی جائے تو زمین میں پھیل جاو¿ اور اللہ کے فضل سے حصہ تلاش کرو اور اللہ کو بہت یاد کیا کرو تاکہ تم فلاح پاو¿"- (سورہ جمعہ: آیت نمبر 10)
پھر واضح الفاظ میں نماز پہلے اور رزق دوسرے نمبر پہ ہے۔ سوال یہ نہیں کہ رزق کمانے کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ اصل زور اس بات کا ہے کہ رزق کمانے میں اپنا آپ ہلکان نہ کیا جائے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ پھر ارشاد فرماتا ہے:
"اللہ تعالیٰ فراغ کر دیتا ہے رزق جس کا چاہتا ہے اور (جس کا چاہتا ہے) تنگ کر دیتا ہے"-(13:26)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "(شریعت کے دیگر) فرائض کے بعد حلال روزی حاصل کرنا فرض ہے"- (بیہقی)
ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: "جس بدن کو حرام غذا دی گئی وہ جنت میں داخل نہ ہوگا"-(بیہقی)
رزق کی کشادگی کے لیے بھی سنت پر عمل درآمدد ہونا چاہیے۔
"جو شخص رزق میں کشادگی اور عمر میں اضافہ چاہتا ہو اسے چاہیے کہ صلہ رحمی کرے"- (بخاری)
اور اس کے ساتھ ساتھ صدقات کو مت روکیں چاہیں آپ ایک آدھی کھجور ہی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی راہ میں دیں۔
استغفار کی کثرت سے اللّٰہ سبحانہ و تعالیٰ گناہوں کو مٹانے کے بعد اپنی رحمت سے رزق میں برکت عطا فرماتا ہے۔ بالکل بارش کی قطروں کی طرح جب وہ زمین پر پڑتی ہے تو مختلف چیزیں اگاتی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی رزق میں برکت کی دعا فرماتے تھے۔
حضرت علی رضہ کا خوبصورت قول ہے:
"میں ایک حرام کے شک میں سو حلال بھی چھوڑ سکتا ہوں"- اللہ ھو اکبر۔ حدیث مبارکہ سے مزید اس بات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں
"لوگوں! حلال بھی ظاہر ہے اور حرام بھی کھلا ہوا ہے لیکن ان دونوں کے درمیان بعض چیزیں مشتبہ جن کا حکم ہر شخص کو معلوم نہیں ہوتا پس جو شخص مشتبہات سے بھی اپنے آپ کو محفوظ رکھتا ہے اس کا دین اور آبرو دونوں محفوظ رہتے ہیں جو متشابہات کی پرواہ نہیں کرتا وہ ایک دن حرام میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ یاد رکھو ہر بادشاہ کی ایک چراغ گاہ ہوا کرتی ہے جس میں تمام آدمیوں کے مویشی داخل نہیں ہو سکتے جو چرواہا اپنے مویشیوں کو بادشاہ کے جنگل سے دور اور پرے پرے چراتا ہے اس کے جانور ہمیشہ محفوظ رہتے ہیں لیکن جو چرواہا بادشاہ ہی کے جنگل کے قریب اپنے جانور چھوڑ دیتا ہے تو اس کے جانور تھوڑی سی غفلت سے شاہی جنگل میں گھس جاتے ہیں اور وہ بادشاہ کے چپڑا سی ان جانوروں کو پکڑ لیتے ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالی کے ححارم بھی اس کا ممنوعہ رقبہ ہے۔ جو بندہ متشابہات سے نہیں بچتا وہ کسی نہ کسی دن حرام میں مبتلا ہو جاتا ہے۔( بخاری مسلم)
اللہ سبحانہ و تعالیٰ خود بھی پاک ہے اور پاک ہی چیزوں کو قبول کرتا ہے اللہ تعالیٰ نے جس بات کا حکم پیغمبروں کو دیا ہے اسی بات کا حکم عام مسلمانوں کو بھی دیا ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو پاک کمائی کا حکم دیا ہے۔ اے پیغمبروں پاکیزہ کھانا کھاو¿ اور نیک عمل کرو اس طرح عام مسلمانوں کو بھی حکم دیا ہے، اے مسلمانوں! پاکیزہ غذا کھایا کرو مطلب یہ کہ غذا کی پاکیزگی کے متعلق انبیاء مرسلین اور عام مسلمان ایک ہی کلمہ میں شامل ہیں۔ اللہ پاک ہماری نیتوں کو اور ہمارے کردار کو حضرت داو¿د علیہ السلام جیسا بنا دے کہ بادشاہی ہونے کے باوجود خود ہاتھ کی مزدوری سے رزق حلال کمانے کی کوشش کریں تاکہ اللہ رب العزت کی خوشنودی حاصل کر سکیں اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔
حضرت سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا: "حلال کھا اور سچ بول پھر خدا نہ ملے تو مجھ سے پوچھ"-
اللہ تعالیٰ ہم سب کو حلال روزی کمانے، خود کھانے اور دوسروں کو کھلانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین
حلال کو مشکل کر دیا جائے تو حرام آسان ہو جاتا ہے۔۔۔۔ حلال کو آسان اور حرام کو مشکل بنائیے۔