رقیہ غزل حسب موقع
نو مئی جی ایچ کیو، حملہ کیس سے وابستہ امیدیں اور توقعات ،چھبیس نومبر کی ناقص حکمت عملی کے اثرات ، سٹاک ایکسچینج کی اڑان ، مہنگائی اور بیروزگاری کے پہاڑ تلے دبے سسکتے عوام ،حکومت کے لیے امتحان بن چکا ہے ۔ملکی صورتحال لمحہ بہ لمحہ بدل رہی ہے بظاہر یہی لگ رہا ہے کہ پی ٹی آئی کی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے جبکہ وہ تو ہیں ہی مشکل میں لیکن اب برسر اقتدار اپنی مشکلات میں اضافہ کرتے جا رہے ہیں تبھی تو ہم کہتے ہیں کہ کرسی سے تو اترنا ہی تھا کیا ہی اچھا ہوتا دلوں میں اترے ہوتے ۔۔
ہمارے حکمرانوں کو یہ بات سمجھ نہیں آرہی کہاس خطے کے حالات تیزی سے تبدیل ہوتے جا رہے ہیں مگر ان میں زمینی حقائق سمجھنے کا ادراک نہیں ہی بلکہ ان کے سارے اقدامات اور حکمت عملیاں زمینی حقائق کے بر عکس اور ذاتی مفادات سے جڑی ہوئی ہیں ۔یوں لگتا ہے کہ مشیر و وزیر انھیں وہی بتاتے ہیں جو وہ چینلوں پر رات کو بیٹھ کر مخالفین کے ساتھ تکرار میں ادھر ادھر کی سناتے ہیں بایں وجہ عدم اعتاد نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔ہر شخص بیرون ملک جانے کے لیے پر تول رہا ہے یقینا جو جا سکتے تھے وہ جا چکے ہیں باقی کوششوں میں خوار ہو رہے ہیں کیونکہ ملک میں مہنگائی سارے ریکارڈ توڑ چکی ہے ۔۔ایک دن جو دوائی خریدتے ہیں وہی ایک ہفتےبعد ناقابل برداشت اضافے کے ساتھ ملتی ہے اور یہی حال اشیائے ضروریہ اور اشیائے خوردونوش کا ہے ۔ فروٹس اور گوشت تو کاروباری افرادکی پہنچ سے دور ہو گئے ہیں تو غریب مزدور کو کیسے نصیب ہوسکتے ہیں لیکن نام نہاد ترجمان یہی کہتے ہیں : سٹاک مارکیٹ آسمان تک چلی گئی ، مہنگائی کم ہوگئی ہے ،یہ وہ بات ہے جو عوام کو ہضم نہیں ہورہی ہے ۔۔اپنے عشرت کدہ ایوانوں سے نکلتے ہی نہیں ہیں ،کیسے خبر ہوگی کہ عوام کیسے جی رہے ہیں مزید افسوسناک یہ ہے کہ معاشی حالات پر جھوٹی سروے رپورٹس پیش کی جاتی ہیں اور شادیانے بجائے جاتے ہیں ۔ انھیں لگتا ہے کہ وقت ان کے ہاتھ میں ہے جبکہ وقت کب کسی کا ہوا ہے اور وقت نے ثابت کر دیا ہے کہ مرغیاں اور انڈے بیچ کر انقلاب لایا جائے یا سویلینز کا ملٹری ٹرائل جائز قرار دیکر سزائیں دی جائیں دونوں میں ملکی سالمیت خسارے میں ہے
نو مئی کو جو ہوا وہ تین سالوں کی ذہن سازی کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ پچھہتر سالوں سے جو ہو رہا ہے اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی فرق صرف اتنا تھا کہ اس بارکھلے راستوں کے حوالے سے جو بد نیتی اور منصوبہ بندی سے سہولت دی گئی اس کی وجہ سے گیم منصوبہ بندوں کے ہاتھوں سے بھی نکل گئی کیونکہ مظاہرین کے حوصلے اتنے بلند ہوگئے، کسی کو سمجھ نہیں آئی ہوا کیا ہے !لیکن یہ کہنا کہ ملک مخالف بیانیے پہلی بار سامنے آئے،ا سراسر غلط بات ہے کیونکہ پاکستان کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ ہر حکمران نے کرسی بچانے کے لیے اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ بنایا اور اسی میں بقا تلاش کی لیکن اس کو ہمیشہ معافی ملی اور وہ دوبارہ پوری طاقت سے برسر اقتدار آیا لیکن عوام کو کبھی یہ نہیں بتایا کہ میرا بیانیہ ملک دشمنی کے مترادف تھا جبکہ ادارے ملک و قوم کے لیے ہمیشہ مخلص تھے عموماً یہی سننے میں آتا رہا کہ اب ہم ایک پیج پر ہیں اور وہ پیج ڈھائی تین سال بعد پھرپھٹ جاتا یوں گھر کی صفائی سے لیکر ووٹ کو عزت دو، خوف کے بت توڑ دو اورایبسلوٹلی ناٹ والے سبھی بیانیے سیاسی تاریخ کے اوراق سیاہ کر چکے ہیں ۔۔۔بایں وجہ مجھے حیرت ان پر ہو رہی ہے جو آج کہہ رہے ہیں کہ اداروں کے خلاف منفی مہم چلانے کی اجازت نہیں دیں گے ۔۔سمجھ نہیں آتی کہ کسے کیا کہہ رہے ہیں جبکہ عام آدمی تو ازخود کبھی ایسی جرات ہی نہیں کرتا اور جو کرتے ہیں وہی مقام پاتے پھر عہدے پا کر منظر سے ہٹ جاتے ہیں اور انھی کی باتوں کو عام آدمی جب بولتا ہے تو وہ مجرم بنا دیا جاتا ہے اور اسی لیے میں نے بارہا لکھا تھا کہ اگر آپ ان ہاتھوں کو زنجیریں نہیں ڈال سکتے جن میں ریموٹ کنٹرول ہے تو روبوٹوں کو پکڑنا بند کر دیں کیونکہ اس طرح صرف نفرت پھیلتی ہے
جیسا کہ دوراندیشی کا تقاضا تھا کہ نو مئی کیس میں عام معافی کا اعلان کر دیا جاتا تاکہ مظبت سوچ رکھنے والے پاکستانیوں کے دلوں میں نفرت نہیں ان واقعات پر ندامت ہوتی کیونکہ جنھوں نے یہ زہر ذہنوں میں انڈیلا وہ تو معافیاں مانگ کر ، دلکش عہدے پا کر عیش کر رہے ہیں یا آئندہ عہدوں کے لیے گراﺅنڈ تیار کر رہے ہیں ۔۔حیرانی ہے کہ ہمارے حکمرانوں کو وہ مشیر کیوں نہیںبتاتے وہ باتیں جو شاہوں کو بتایا کرتے تھے کہ عدل کی موت ریاست کے زوال کو دعوت دیتی ہے جبکہ تاریخ بھی گواہ ہے کہ ہرحکمران اور سیاستدان نے اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیے پر اپنی طاقت ثابت کی بلکہ صحافی بھی جو نامور کہلائے انھوں نے یہی حربہ استعمال کیا ۔۔مزید چینلوں اور تھیٹروں میں ایسے جگت باز اور بھانڈ پیش کئے گئے جنھوں نے ادبی پروگراموں اور آرٹ کے نام پر ملکی کرتا دھرتا کے کردار کو ہدف تنقید بنایا جس کی زندہ مثا ل گذشتے ہفتے کراچی اردو کانفرنس میں دیکھی گئی جس میں نمایاں جگت باز ، تھیٹر کے فنکار اور عامیانہ لفاظی سے شعری ادب کو جلا بخشنے والے چھائے ہوئے تھے ۔ ایسی ادبی کانفرنسوں نے ادب کو گہنا دیا ہے اور اس گروہ بندی کے خلاف ادبی افراد باقاعدہ سراپا احتجاج ہیں۔سب سے زیادہ دکھ کی بات تو یہ ہے کہ پاک بحریہ کے شہداءکو نشانہ بنا یا گیا مگر سننے والوں کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی حالانکہ مجھے لگ رہاہے کہ نومئی دوبارہ ہوا ہے ۔۔اگر کوئی سمجھے تو ۔۔!!!پاک فوج کا ذکر تو تھیٹروں میں عام ہوتاہے لیکن جس طرح پاک نیوی کے شہداءکاچیزہ لیاگیا ہے اس پر حکومتی خاموشی سوالیہ نشان ہے ۔اس کانفرنس کے منتظمین کو فوری طور پر ہٹا دینا چاہیے تھا مگر یوں لگتا ہے کہ انھیں بھی خاص آشیر باد حاصل ہے کیونکہ ہر کانفرنس پر کئی لاکھوں لٹایا جاتا ہے اور وہی گنے چنے افراد جن میں بھانڈ، فنکار اور عامیانہ شاعری کرنے والے ہی رول ماڈل ٹھہرتے ہیںاس نا انصافی پر ادبی برادری بھی ناراض ہوچکی ہے بلکہ ادیبوں اور لکھاریونںنے ادبی کانفرنس میں بے ادبیوں پر تحریریں لکھ لکھ کر صفحے سیاہ کر دیے ہیں لیکن کوئی فرق نہیں پڑتا حالانکہ ایسی ادبی کانفرنسوں اور ادبی تقریبات سے ادب کو نہیں بلکہ بے ادبی کی روایت کو فروغ دیا جارہا ہے کیونکہ نوجوان نسل ان محافل میں شریک ہوتی ہے پھر یہی باتیں وہ کرتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ اداروں کے خلاف منفی باتیں کرنے والے ملک و قوم کے دشمن ہیںتو آج یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ اصل دشمن کون ہیںکیونکہ اس وقت خطے میں غیر یقینی صورتحال ہے اور انسان شکست گھر سے کھاتا ہے۔آج سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ایران جنگوں میں گھرا ہوا ہے تو افغانستان میں خواتین اپنے حقوق کے لیے سراپا احتجاج ہیں ۔چین کی کامیابیاں ویسے ہی مغربی ممالک کو ایک آنکھ نہیں بھا رہیں ۔جیسے کہ شام کے اندر باغی قوتوں نے برسر اقتدار قوتوں کو تروند ڈالا ہے ،بھارت اپنی مکاریوں کیوجہ سے حاوی ہو رہا ہے باقی مسلمان پوری دنیا میں مظالم کا شکار ہیںاور سب کی نظریں پاکستان پر لگی ہیں لہذا ہوش کے ناخن لیں ورنہ ۔۔وقت ایک سا نہیں رہتا اور جو آج ہمارے ملک کی اندرونی صورتحال ہے وہی ان ممالک تھی جنھیں ختم نہ ہونے والی جنگیں لپیٹ چکی ہیں ۔۔