ہائر ایجوکیشن کمیشن: کارکردگی، چیلنجز اور اصلاحات

پاکستان کے تعلیمی نظام میں ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کی اہمیت اور کردار کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ادارہ ملک میں اعلیٰ تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے، تحقیق کو فروغ دینے، نوجوان نسل کو عالمی سطح پر مسابقت کے قابل بنانے اور تعلیم کے میدان میں عالمی تقاضوں سے ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے قائم کیا گیا۔ ایچ ای سی نے اپنی تشکیل کے بعد پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کو فروغ دینے کے لیے کئی کامیابیاں حاصل کی ہیں، جو نہ صرف قابلِ تعریف ہیں بلکہ ملک کی مجموعی ترقی کے لیے ناگزیر بھی ہیں۔ ایچ ای سی نے اپنے قیام کے بعد نہ صرف اعلیٰ تعلیمی اداروں کو بین الاقوامی معیار کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی ہے بلکہ عالمی رینکنگ میں پاکستان کی جامعات کی کامیاب موجودگی اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان میں تعلیم کے لیے مختص جی ڈی پی کا تناسب دیگر ممالک کے مقابلے میں کم ہے، جس کا اثر نہ صرف اداروں کے مالی وسائل پر پڑتا ہے بلکہ تعلیم کے معیار پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ تاہم، ایچ ای سی کو درپیش اس چیلنج کے باوجود، پاکستان کی یونیورسٹیاں عالمی رینکنگ میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہیں، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ کم وسائل کے باوجود بھی ہمارے تعلیمی ادارے عالمی معیار کے مطابق ترقی کر رہے ہیں۔ اس لیے ہمیں اپنے ان اداروں پر تنقید کرنے کے بجائے ان کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے۔ 
ایچ ای سی کی کاوشوں کے نتیجے میں پاکستان میں 250 سے زائد اعلیٰ تعلیمی ادارے قائم ہوئے، جو سرکاری، نجی اور عسکری جامعات پر مشتمل ہیں۔ یہ ادارے نہ صرف ملک میں اعلیٰ تعلیم کے مواقع فراہم کرتے ہیں بلکہ تحقیق اور جدت کو بھی فروغ دے رہے ہیں۔ایچ ای سی نے پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے معیار کو بلند کرنے کے لیے سخت قواعد و ضوابط لاگو کیے۔ جامعات میں تعلیمی معیار کو یقینی بنانے کے لیے کوالٹی انہانسمنٹ سیلز (QEC) قائم کیے گئے، جن کی بدولت پاکستانی جامعات نے عالمی رینکنگ میں بہتر پوزیشن حاصل کی۔ 2023 کی QS رینکنگ میں پاکستان کی 14 جامعات دنیا کی پہلی 1000 جامعات میں شامل ہوئیں، جو ایچ ای سی کی بہترین پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ ایچ ای سی نے انڈرگریجویٹ اور گریجویٹ سطح پر تعلیم کی اصلاح کے لیے نئی پالیسیز نافذ کیں، جن کا مقصد طلبہ کو جدید مہارتوں سے آراستہ کرنا تھا۔اس کے علاوہ، اس ادارے نے اعلیٰ تعلیم کے فروغ کے لیے سکالرشپ پروگرامز متعارف کرائے، جن کے ذریعے ہزاروں طلباء کو بیرونِ ملک تعلیم کے مواقع فراہم کیے گئے۔ ان طلباء￿  نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد مختلف شعبوں میں قابلِ قدر خدمات انجام دیں، جس سے ملک کو جدید اور تحقیق پر مبنی ماہرین کی ایک نسل ملی۔
ایچ ای سی نے تحقیقی کلچر کو فروغ دینے کے لیے مختلف گرانٹس،اسکیمز اور منصوبوں کا آغاز کیا۔ اس کے تحت پاکستانی محققین نے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر کئی اہم تحقیقی مقالے شائع کیے، جو نہ صرف پاکستان کے تعلیمی معیار کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہوئے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی پاکستان کا مثبت تعلیمی تشخص اجاگر ہوا۔ قومی سطح پر تحقیقی معیار کو بلند کرنے کے لیے تحقیقی جرائد کی اشاعت ہوئی۔ ایچ ای سی نے فاصلاتی تعلیم کو فروغ دینے کے لیے ڈیجیٹل لرننگ وسائل مہیا کیے، جن میں ڈیجیٹل لائبریری اور ورچوئل یونیورسٹی کے قیام جیسے منصوبے شامل ہیں۔ ان اقدامات سے نہ صرف دور دراز علاقوں کے طلباء کو تعلیم کے مواقع ملے بلکہ طلبہ کو جدید تعلیمی وسائل تک رسائی بھی آسان ہوئی۔
اساتذہ کی تربیت اور ان کی مہارتوں کو جدید تدریسی تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے فیکلٹی ڈویلپمنٹ پروگرامز کا آغاز کیا گیا، جس کے تحت اساتذہ کو بین الاقوامی معیار کے مطابق تدریسی مہارتوں سے آراستہ کیا گیا۔ ایچ ای سی نے یونیورسٹیوں میں انفراسٹرکچر کی بہتری کے لیے اہم اقدامات کیے، جس سے طلباء کو جدید اور سازگار تعلیمی ماحول فراہم ہوا۔ خواتین کی تعلیم کو فروغ دینے کے لیے خصوصی وظائف اور تعلیمی اداروں کا قیام عمل میں لایا گیا، تاکہ خواتین کو تعلیم کے برابر مواقع فراہم کیے جا سکیں۔ ان اقدامات کے ذریعے تعلیمی میدان میں خواتین کی شمولیت میں اضافہ ہوا۔
اگرچہ ایچ ای سی نے اعلیٰ تعلیم کے میدان میں کئی کامیابیاں حاصل کی ہیں، لیکن یہ حقیقت بھی تسلیم کرنی چاہیے کہ ہر ادارے میں بہتری کی گنجائش موجود ہوتی ہے۔ تعلیمی نظام کو مزید مؤثر بنانے اور ایچ ای سی کے کام کو بہتر کرنے کے لیے چند تجاویز یہ ہیں کہ جی ڈی پی کا مناسب حصہ تعلیم کے لیے مختص کیا جائے تاکہ وسائل کی کمی کا مسئلہ حل ہو اور پاکستان کا تعلیمی نظام عالمی معیار کے مطابق بہتر ہو سکے۔ایچ ای سی کا بجٹ بڑھانے سے ادارے کو درپیش مالی مشکلات ختم ہوں گی اور تمام منصوبے بروقت مکمل کیے جا سکیں گے۔ ایچ ای سی کو چاہیے کہ تحقیقاتی فنڈز کی شفاف تقسیم کو یقینی بنائے تاکہ تمام جامعات کو مساوی اور یکساں مواقع حاصل ہوں۔ جامعات کے مالیاتی امور میں شفافیت لانے کے لیے ایک مؤثر آڈٹ سسٹم متعارف کرایا جائے۔  اس کے علاوہ، ایچ ای سی کے اندرونی آڈٹ اور احتسابی نظام کو مضبوط کیا جائے تاکہ بدانتظامی اور غیر ضروری مداخلت کا خاتمہ کیا جا سکے۔ اساتذہ کی ترقی کے لیے آٹو پروموشن کا شفاف اور مؤثر نظام متعارف کروایا جائے تاکہ تدریسی عملے کی کارکردگی میں بہتری آئے۔ دیہی علاقوں میں اعلیٰ تعلیمی اداروں کی تعداد بڑھانے کے ساتھ ساتھ ان کے انفراسٹرکچر کی بہتری پر بھی توجہ دی جائے۔ جدید عالمی ضروریات کو مدّنظر رکھتے ہوئے نئے کورسز اور پروگرامز شروع کیے جائیں، تاکہ طلبہ کو عالمی معیار کے مطابق تعلیم فراہم کی جا سکے۔ اساتذہ کی حوصلہ افزائی کے لیے ان کے معاوضوں اور مراعات میں بہتری لائی جائے۔ 
ایچ ای سی کو یونیورسٹی کے قانون اور ایکٹ کو مزید واضح اور جامع بنانے کے لیے مشاورتی کمیٹی تشکیل دینی چاہیے تاکہ قانونی ابہام دور ہوں۔ انٹرن شپ اور کیپ اسٹون پروجیکٹس کو جامع نصاب کا حصہ بنایا جائے اور ان کے لیے واضح گائیڈ لائنز فراہم کی جائیں۔ یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز اور قائم مقام وائس چانسلرز کے تقرر اور اختیارات کے حوالے سے قوانین میں مزید وضاحت کی جائے۔ تحقیق کے معیار کی بہتری کے لیے شفاف نظام اور جامعات کے ساتھ مشاورت کے مؤثر طریقہ کار کو یقینی بنایا جائے۔ پاکستانی طلباء￿  اور اساتذہ کو انٹرنیشنل کانفرنسز اور ورکشاپس میں شرکت کے مواقع فراہم کیے جائیں، تاکہ وہ عالمی سطح پر اپنی صلاحیتوں کو منوا سکیں۔ اس ضمن میں فی الوقت ملنے والا معاوضہ غیرملکی سفر کے لیے ناکافی ہے۔ ایچ ای سی کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ یونیورسٹی گورننس کے حوالے سے جدید تربیتی پروگرامز متعارف کروائے تاکہ انتظامی ڈھانچے کو مؤثر بنایا جا سکے۔ تعلیمی اداروں میں طلبہ کی زبان دانی کی مہارتوں کو بہتر بنانے کے لیے انگریزی اور دیگر بین الاقوامی زبانوں کی تعلیم کو فروغ دیا جائے۔ 
ان تجاویز پر عمل درآمد کے ذریعے نہ صرف ہائر ایجوکیشن کمیشن کو مزید مؤثر بنایا جا سکتا ہے بلکہ پاکستان کے تعلیمی نظام کو بھی عالمی معیار کے مطابق بہتر کیا جا سکتا ہے۔ ایچ ای سی جیسے ادارے کو ہمیشہ تعمیری تنقید کے ذریعے سپورٹ کرنا چاہیے تاکہ یہ ملک کی تعلیمی ترقی کے لیے مؤثر کردار ادا کر سکے۔ اس ضمن میں پروفیسر ڈاکٹر ارشد منیر لغاری صاحب  کی تعلیمی اصلاحات پر مبنی وقتاً فوقتاً شائع ہونے والی تعمیری تنقید کافی اہمیت کی حامل ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان کی ترقی کا دارومدار ایک مضبوط اور مؤثر تعلیمی نظام پر ہے، اور ایچ ای سی اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن