احسان ناز
پاکستان میں اس وقت اپوزیشن جماعتیں اور حکمران ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا چکے ہیں سیاسی دشمنیاں ذاتی دشمنی میں بدل چکی ہیں حکومت اپوزیشن کو اپنے راستےسے ھٹانے کے لیےھر وہ حربہ استعمال کر رہی ھے۔ دوسری طرف مولانا فضل الرحمن نے جس طرح 26 ویں ترمیم کے موقع پر فیصل اباد کے گھنٹہ گھر کا رول ادا کیا تھا اس کی بازگشت ابھی تک عوام نہیں بھولے کہ مذاکرات تحریک انصاف کے ساتھ اور 26 ترمیم میں ووٹ شہباز شریف کے ساتھ اور اس پر طرہ یہ کہ اگر میں 26 ویں ترمیم میں شامل نہ ہوتا تو خاندان شریفاں اور زرداریاں نہ جانے کیا ترامیم میں لاتے کہ ائین کا حلیہ بگڑ جاتا تو میں بڑی معذرت کے ساتھ مولانا فضل الرحمن سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ 26 ویں ترمیم نے ہی تو ظالم حکمرانوں کو گولیاں چلانے والا حکمران بنا دیا اگر اپ 26 ترمیم کے سلسلہ میں حکومت کی مدد نہ کرتے تو سانحہ ڈی چوک نہ ہوتا اور 26 نومبر کی رات کو تحریک انصاف کے لشکر کوجو اپنے قائد کی کال پر پہنچا تھا حکمرانوں نے نہ وارننگ دی اور نہ ہی مذاکرات کے لیے ان کو انگیج کیا گیا سارے علاقے کی بتیاں گل کر کے پی ٹی ائی کے کارکنوں کا محاصرہ کیا گیا۔ خاندان شریف اور خاندان زرداری نے معرکہ 26 نومبر کو وہی کردار ادا کیا جو کہ فلسطین کے علاقہ غزہ میں اور مقبوضہ کشمیر کے شہرو ں
میں مسلمانوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ مگر لاشیں ورثا کو دے دی جاتی ہیں لیکن موجودہ حکمران تو اتنے ظالم ہیں کہ م لاشیں ڈی چوک میں سے ورثہ کو دینے کی بجائے وقفان حال کے مطابق غائب کر دیں۔
لیکن وزیر داخلہ محسن نقوی اور وزیر اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ کئی دفعہ پریس کانفرنس کر کے صحافیوں کو یہ بتا چکے ہیں کہ 26 نومبر کو نہ کوئی گولی چلی ہے اور نہ ہی کوئی لاش ہے اگر پی ٹی ای کے لوگوں کے پاس ان لاشوں کے یا گولی چلنے کی ثبوت ہیں تو وہ ہمارے سامنے لائیں وہاں پر موجود صحافی جن کو بھنگ پلائی ھوتی ھے سوال تک نہیں کرتے وہ گنگ ھوتے ہیں اس وقت یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کے وہ لوگ جو کہ حکومت کی طرف سے کھڑی کی گی 16 رکاوٹیں عبور کر کے ڈی چوک پہنچتے تھے تو وہ کون سی ہوا تھی جس کے چل جانے سے تحریک انصاف کے چارج کارکن اپنا سامان اور گاڑیاں چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہو گئے یہ ان پر چلائی جانے والی سیدھی گولیوں کے اثرات تھے وہ جان بچانے کے لیے گولیوں کی بوچھاڑ میں ڈی چوک کی گلیوں میں نکلے تو ان کو حکمرانوں کا سامنا کرنا پڑا اور وہ رات کے اندھیرے میں قتل بھی ہوئے زخمی بھی ہوئے پکڑے بھی گئے
یہ وقت تو مولانا کا حکمرانوں کے خلاف نعرہ مستانہ بلند کرنے کا تھا لیکن اس وقت چالاک لومڑی کی طرح مولانا فضل الرحمن ایک ترمیم مدرسوں کے بارے میں پیش کی جانے والی ترمیم پر عمل درامد کرنے کے لیے مناسب وقت دیکھتے ہوئے چل نکلے ہیں اور اس میں کوئی گنجائش نہیں ہے ایسا نہ ہو جس میں مولانا فضل الرحمن کو مال پانی نہ ملے اس لیے انہوں نے پہلا راستہ پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹوزرداری سے ملاقات کر کے اغاز کیا ہے اب دیکھیے حکمرانوں کی طرف سے مولانا فضل الرحمن کے گھر پر ڈیرے ڈال دیے جائیں گے اور ان کی ہر خواہش کو پورا کیا جائے گا اور ان کا پی ٹی ائی کی طرف بڑھنے والا ہاتھ ان کی طاقت کا ذریعہ بنے گا اور وہ پھر اس حربہ سے اپنے لیے مراعات اور سہولت حاصل کریں گے اور اس کا کریڈٹ وہ پھر خود لینے کی بجائے بلاول بھٹو زرداری کو دیں گے جن کی مدد سے وہ مدرسوں کا بل کامیاب کرانے میں کامیاب ہو گئے میں پہلے بھی اپنے متعدد کالموں میں لکھ چکا ہوں کہ مولانا فضل الرحمن کا پی ٹی ائی کی طرف ہاتھ بڑھانا چال ہے اور وہ اس میں 100 فیصد کامیاب ہوئے ہیں اور اب دوبارہ وہ پی ٹی ائی کو ہی اندھن بنا کر اپنے جذبات کا مداوا کریں گے اور پاکستان تحریک انصاف کو سبق سکھانے میں اہم کردار ادا کریں گے