طالبان کی حکومت میں قیدیوں کے ساتھ سلوک ہمیشہ سے موضوع بحث رہا ہے۔ حالیہ دنوں میں افغانستان میں 70 سال سے زائد عمر کے برطانوی جوڑے، پیٹر اور باربی رینالڈز، کی گرفتاری نے دنیا میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔ یہ جوڑا 18 سال سے افغانستان میں تربیتی منصوبے چلا رہا تھا۔ان کا مقصد ماؤں اور بچوں کی مدد کرنا تھا۔ مغربی میڈیا کے مطابق، طالبان نے انھیں اچانک گرفتار کر لیا۔ اب وہ انتہائی سخت حالات میں قید ہیں۔ یہ معاملہ اس وقت مزید پیچیدہ ہو جاتا ہے جب اسے ایک اور مشہور کیس، ایون ریڈلی کی گرفتاری، کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔
ایوان ریڈلی، ایک برطانوی صحافی تھیں، 2001ء میں طالبان کے ہاتھوں قید ہوئیں۔ اس وقت طالبان کی حکومت کا بین الاقوامی تشخص سخت گیر اور جابرانہ تھا، لیکن ریڈلی کو ان کی قید کے دوران غیر متوقع طور پر عزت و احترام سے رکھا گیا۔یہ ان دنوں کا واقعہ ہے جب امریکا افغانستان پر نائن الیون کے بعد حملے کی تیاری کر رہا تھا۔ایوان ریڈلی اپنی شناخت چھپا کر گلے میں کیمرہ ڈالے خچر پر سوار ایک گائید کی معیت میں سفر کر رہی تھیں۔خچر بدکا، بھاگا اور ریڈلی کی اصل شناخت اور شخصیت آشکار ہوگئی۔ طالبان نے گرفتاری کے بعد انھیں ذہنی یا جسمانی تشدد کا نشانہ نہیں بنایا۔اسلامی قوانین کے مطابق، ان کے ساتھ نرم رویہ رکھا۔ اس تجربے نے ریڈلی کو اتنا متاثر کیا کہ بعد میں انھوں نے اسلام قبول کر لیا۔ ان کا کہنا تھا کہ طالبان نے ان کے ساتھ جو حسن سلوک کیا، وہ اس کی توقع نہیں کر رہی تھیں۔
ریڈلی کے بارے میں کہا گیا تھا کہ وہ اس بیماری کا شکار تھیں جس میں یرغمالی اپنے اغوا کاروں کے ساتھ ہمدردی محسوس کرنے لگتا ہے۔ تاہم، ریڈلی کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنے اغوا کاروں کے ساتھ انتہائی بدتمیزی کا رویہ اپنایا۔ وہ نہ صرف ان پر تھوکتی رہیں بلکہ کھانے سے بھی انکار کرتی رہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ طالبان کی قید سے رہائی کے بعد ہی ان کی اسلام میں دلچسپی پیدا ہوئی۔ ریڈلی نے ایک واقعہ سناتے ہوئے بتایا کہ طالبان کے نائب وزیر داخلہ کو اس وقت ان کے پاس آنا پڑا جب انھوں نے قید خانے کی الگنی سے اپنا انڈرویئر اتارنے سے انکار کر دیا، جو طالبان فوجیوں کے کوارٹرز سے نظر آ رہا تھا۔ نائب وزیر نے کہا، ’دیکھو، اگر فوجی اس طرح کی چیزیں دیکھیں گے تو ان کے دل میں برے خیالات پیدا ہوں گے۔‘ ریڈلی نے حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ’افغانستان پر دنیا کا امیر ترین اورطاقتور ترین ملک حملہ کرنے والا تھا اور وہ میرے انڈرویئر سے پریشان تھے‘۔وہ طنزاً کہتی ہیں، ’امریکا کو طالبان پر بم برسانے کی ضرورت نہیں تھی، بس عورتوں کی رجمنٹ کا ایک دستہ ہیلی کاپٹر میں بھیج دیتا جو اپنے انڈرویئر لہراتی ہوئی گزر جاتیں تو سارے طالبان خود ہی بھاگ جاتے۔‘ نہ صرف طالبان کی حکومت کے دوران بلکہ جب وہ امریکا کے ساتھ برسر بیکار تھے۔ان کا اقتدار ختم ہو چکا تھا۔وہ امریکا کے مقابلے کے لیے پہاڑوں پر جا چڑھے تھے۔ اس دوران بھی ان کا قیدیوں کے ساتھ سلوک بین الاقوامی قوانین ہی کے مطابق نہیں بلکہ مثالی تھا۔
اکتوبر 2017ء میں پاک فوج نے امریکا کی طرف سے فراہم کردہ انٹیلی جنس پر کرم ایجنسی میں کارروائی کرکے پانچ غیر ملکیوں کو بازیاب کروایا تھا۔ ان کو افغانستان سے کرم ایجنسی منتقل کیا جا رہا تھا۔ کینیڈین شہری جوشوا بوئلے اور اس کی امریکی بیوی کیٹلان کولمن کو 2012ء میں افغانستان سے اغوا کیا گیا تھا۔ امریکی خفیہ ادارے ایک عرصہ سے ان کی تلاش میں تھے مگر ناکامی سے دوچار ہوئے۔ جوشواکے والدین نے پاک فوج کاشکریہ اداکیا۔یہ بہت بڑی خبر تھی، اتنی بڑی کہ اس پر صدرٹرمپ بھی جھوم اٹھے تھے۔اس خبر کا حیران کن پہلو یہ تھا کہ اس جوڑے کے ہاں قید کے دوران تین بچے بھی پیدا ہوئے۔فائیو ان ٹو، یہ میاں بیوی جوڑا، یعنی دو اغوا ہوئے تھے پانچ بازیاب ہوئے۔ اغوا بذات خود ایک جرم ہے۔
افغان طالبان اپنے وطن پر غیر ملکی قبضے کے خلاف برسرِ پیکار تھے۔ ان کی امریکا، افغان اشرف غنی انتظامیہ اور امریکی اتحادیوں کے ساتھ کھلی جنگ تھی۔ دونوں ایک دوسرے کے مفاد کو نقصان پہنچانے کے لیے کسی بھی حد تک چلے جاتے۔ایسے اغواکی ،ایسی وارداتوں کی حوصلہ افزائی تو کیا حمایت بھی نہیں کی جاسکتی مگراس کے بعد اغوا کاروں کے مغویان سے حسن سلوک پر نظرہونی چاہیے۔ امریکی تو طالبان کو بم اور گولی سے اڑا دیتے تھے۔
ایوان ریڈلی کو تب طالبان حکومت کے دوران گرفتار کیا گیا مگر اب طالبان بکھرے ہوئے تھے۔ ریڈلی دس دن قید میں رہیں۔ یہ جوڑا پانچ سال ’اغوا کاروں‘ کے ہتھے چڑھا رہا۔ اس دوران جوشوا بوئل اور کٹلین کے ہاں تین بچے بھی پیدا ہوئے۔ مغویوں کو کس شان سے رکھا اور زچگی کا بھی اہتمام کیا گیا۔ مقبوضہ ملک میں مفروروں کے ہاں اس قدر سہولیات کا ہونا قابض فورسز کی بے بسی کا اظہار اور اغوا کاروں کی طاقت کا غماز تھا۔ برطانوی جوڑے پیٹر اور باربی رینالڈز کی کہانی، تاہم ایک بالکل مختلف تصویر پیش کرتی ہے۔ 79 سالہ پیٹر اور 75 سالہ باربی، جو افغانستان کو اپنا دوسرا گھر سمجھتے تھے، فروری میں گرفتار کر لیے گئے۔ ان کے خلاف کوئی واضح الزام نہیں تھا اور نہ ہی ان پر کسی غیر قانونی سرگرمی کا کوئی ثبوت فراہم کیا گیا۔ ان کی بیٹی سارہ کے مطابق، ان کے والدین کو قید میں بدترین حالات کا سامنا ہے۔ باربی کی صحت تیزی سے بگڑ رہی ہے، انھیں غذائی قلت کا سامنا ہے اور وہ اکثر بے ہوش ہو جاتی ہیں۔ پیٹر کو دل کی بیماری لاحق ہے اور ان کی حالت بھی مسلسل خراب ہو رہی ہے۔ ان پر تشدد کیے جانے کی اطلاعات بھی موصول ہو رہی ہیں اور انھیں زنجیروں میں جکڑ کر رکھا جا رہا ہے۔
یہ واقعات طالبان کے رویے میں تضاد کو ظاہر کرتے ہیں۔ ایوان ریڈلی کے معاملے میں طالبان نے ایک مغربی خاتون قیدی کے ساتھ حسن سلوک کیا جبکہ پیٹر اور باربی جیسے عمر رسیدہ افراد جو افغانستان کی خدمت میں اپنی زندگی گزار چکے ہیں، ان کو ظالمانہ سلوک کا سامنا ہے۔ کیا طالبان کے رویے بدل گئے ہیں؟ اگر ان کے رویے بدلے ہیں تو اس کی کیا وجوہات ہو سکتی ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ مغربی میڈیا دنیا کو طالبان سے متنفر رکھنے کے لیے ایسی خبریں دے رہا ہے؟ طالبان حکومت کی طرف سے اس کی وضاحت آجائے تو بہتر ہے بلکہ اس جوڑے کو وہ رہا کر دیں تو یہ ان کی طرف سے احسن اقدام ہوگا۔