ہر سال 3 مئی کو ’’عالمی یومِ صحافت‘‘ منایا جاتا ہے جس کا مقصد صحافت کی آزادی، صحافیوں کے حقوق، اور معلومات تک رسائی کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہوتا ہے۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ آزاد اور غیر جانب دار میڈیا کسی بھی جمہوری معاشرے کا بنیادی ستون ہے۔آزادی صحافت اور آزادی اظہار رائے کسی بھی ملک اور سماج کی ترقی کی ضامن سمجھی جاتی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں ریاستی جبر اور غیر ریاستی عناصر کی مبینہ کارروائیوں کے سبب صحافت کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ گزشتہ دو سال کے دوران پاکستان میں 4 صحافی قتل کیے گئے، 104 مقدمات درج کیے گئے، اور 200 سے زائد صحافیوں کو قانونی نوٹسز موصول ہوئے۔ پاکستان اْن تین ممالک میں شامل ہے جہاں پیکا جیسے سخت قوانین کے تحت آن لائن رائے دینے پر بھی مقدمات قائم کیے جا سکتے ہیں۔ پاکستان کے صحافیوں کی مشکلات:
1. جان کا خطرہ:
کئی صحافیوں کو اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے جان لیوا خطرات کا سامنا ہوتا ہے، اور بعض اوقات انہیں اپنی جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔
2. تحریری و تقریری آزادی کی کمی:
میڈیا پر ادارہ جاتی دباؤ، سیاسی مداخلت، اور سنسرشپ کی وجہ سے صحافیوں کو کھل کر سچ بولنے سے روکا جاتا ہے۔ بعض اوقات سول سوسائٹی کی جانب سے بھی دباؤ کا سامنا ہوتا ہے۔
3. معاشی مسائل:
میڈیا ادارے مالی مشکلات کا شکار ہیں، جس کے باعث صحافیوں کو وقت پر تنخواہیں نہیں ملتیں یا وہ روزگار سے محروم ہو جاتے ہیں۔
4. قانونی دباؤ:
جھوٹے مقدمات اور قانونی ہراسانی کے ذریعے صحافیوں کو خاموش کرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
5. خواتین صحافیوں کو ہراسانی:
خواتین صحافیوں کو میدان عمل اور آن لائن دونوں محاذوں پر ہراسانی اور امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
حل کیسے ممکن ہے؟
ایک غیر جانبدار، خودمختار اور مؤثر میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی قائم کی جائے جو صحافیوں کے حقوق کا تحفظ کرے۔
ایسے مؤثر اور واضح قوانین بنائے جائیں جو صحافیوں کی جان، عزت، اور پیشہ ورانہ آزادی کا تحفظ کریں، اور ان پر سختی سے عمل درآمد بھی کروایا جائے۔ عالمی یوم صحافت کے موقع پر پاکستانی صحافتی برادری اس بات کا عزم کرتی ہے کہ وہ ہر دباؤ کے باوجود سچائی کو عوام تک پہنچانے کی ذمہ داری نبھاتی رہے گی۔ ایک آزاد، محفوظ، اور باوقار صحافت ہی ترقی یافتہ پاکستان کی بنیاد ہے۔