ڈپلومیسی، تکرار اور روایات

 محمد محسن اقبال

اقوام عالم میں سربراہان مملکت کے درمیان سفارتی ملاقاتوں کا انعقاد بین الاقوامی تعلقات کے طے شدہ اصولوں کے مطابق ہوتا ہے، تاکہ گفتگو ایک ایسے وقار کے ساتھ کی جائے جو قومی عزت و احترام اور بین الاقوامی توقعات کا عکاس ہو۔ یہ اصول محض رسمی نہیں بلکہ سفارت کاری کے لازمی اجزاءہیں جو فریقین کے مابین باہمی احترام کو یقینی بناتے ہیں، چاہے وہ مخالفین ہی کیوں نہ ہوں۔ تاہم، حالیہ ملاقات جس میں امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی نے وائٹ ہاس کے اوول آفس میں تبادلہ خیال کیا، نے کئی روایتی سفارتی حدود کو توڑ دیا۔ اس ملاقات کے دوران استعمال کی گئی زبان، لب و لہجہ اور جذبات حیران کن تھے، جس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہےکہ کیا ممالک کے سربراہان حقیقت میں اسی انداز میں گفتگو کرتے ہیں؟
عالمی رہنماں کے درمیان ہونے والی سفارتی ملاقاتیں، چاہے نجی ہوں یا عوامی، کچھ غیر تحریری اصولوں کے تحت منعقد کی جاتی ہیں۔ ان اصولوں میں احترام کا برقرار رکھنا، شکایات اور تحفظات کو ایسے انداز میں پیش کرنا کہ کسی بھی فریق کی توہین نہ ہو، اور ایسے ذاتی تنازعات سے گریز کرنا شامل ہیں جو کشیدگی کو بڑھا سکتے ہیں۔ سفارت کاری کی روح ایک منظم اور سوچے سمجھے مکالمے میں مضمر ہے، جہاں سنگین معاملات بھی نپے تلے الفاظ میں بیان کیے جاتے ہیں۔ روایتی طور پر، حریف ممالک کے رہنماں کے درمیان ہونے والی اہم بات چیت میں بھی تحمل اور بردباری کا عنصر غالب رہتا ہے۔ میڈیا کے سامنے جذباتی ردعمل، تند و تیز جملوں کا تبادلہ، یا غصے کا کھلا اظہار سفارتی ملاقاتوں میں شاذ و نادر ہی دیکھا جاتا ہے۔
یہ درست ہے کہ بعض اوقات سربراہانِ مملکت کھل کر اور دو ٹوک انداز میں گفتگو کرتے ہیں، لیکن ایسے لمحات عموماً بند دروازوں کے پیچھے ہی محدود رہتے ہیں۔ تاہم، امریکہ اور یوکرین کے صدور کی حالیہ ملاقات کے دوران جذبات کے کھلے اظہار نے سفارتی آداب کی روایتی سمجھ بوجھ کو چیلنج کر دیا۔ ماضی میں بھی کچھ مواقع پر عالمی رہنماں نے سخت بیانات دیے، لیکن یہ بیانات اکثر سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت دیے گئے تھے، نہ کہ جذبات کے تحت۔ مثال کے طور پر، سرد جنگ کے دوران سوویت اور امریکی رہنماں نے ایک دوسرے کے خلاف سخت الفاظ استعمال کیے، لیکن ان کا انداز اس قدر محتاط اور سفارتی تھا کہ کسی بھی فریق کی کھلے عام تضحیک نہ ہو۔
سفارتی ملاقاتوں کے پروٹوکول کے مطابق، ان کا ہر پہلو پہلے سے طے شدہ ہوتا ہے۔ کسی بھی سربراہِ مملکت کے غیر ملکی دورے سے قبل، ملاقات کا ایجنڈا تفصیل سے طے کیا جاتا ہے، اور دونوں ممالک کے سفارت کار اس امر کو یقینی بناتے ہیں کہ بات چیت کا لب و لہجہ اور اس کا دائرہ کار واضح ہو۔ سرکاری بیانات، بدن بولی (باڈی لینگویج)، اور یہاں تک کہ نشستوں کی ترتیب اور میڈیا رسائی کا تعین بھی پہلے سے کر لیا جاتا ہے، تاکہ ملاقات کا وقار برقرار رہے۔ جب ان پروٹوکول سے انحراف کیا جاتا ہے، تو یہ اکثر کسی خاص سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہوتا ہے، نہ کہ محض جذبات کی رو میں بہنے کا نتیجہ۔
تاریخ میں کچھ مواقع ایسے بھی آئے ہیں جہاں سربراہانِ مملکت نے سفارتی روایات سے ہٹ کر رویہ اختیار کیا۔ اس کی نمایاں مثال پہلے دور حکومت میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اُن کے درمیان ہونے والی گفتگو ہے۔ ان کے بیانات میں بعض اوقات کھلے عام تضحیک اور دھمکیوں کا عنصر شامل رہا، جو جدید سفارت کاری میں شاذ و نادر ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ تاہم، ان کے باہمی اجلاس سفارتی اصولوں کے مطابق ہی منعقد ہوئے۔ اسی طرح، سابق برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن بھی بین الاقوامی فورمز پر روایتی سفارتی انداز سے ہٹ کر بعض اوقات مزاح یا دو ٹوک گفتگو سے کام لیتے رہے، لیکن پھر بھی وہ بنیادی سفارتی آداب کی خلاف ورزی سے گریز کرتے رہے۔
اس کے برعکس، امریکی اور یوکرینی صدور کے درمیان وائٹ ہاس میں ہونے والی گفتگو کئی سفارتی اصولوں کے برعکس دکھائی دی۔ ان کے جذبات کا کھلا اظہار، الفاظ میں نرمی کا فقدان، اور مایوسی کی نمایاں جھلک غیر معمولی تھی۔ اس سے یہ خدشہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا اب عالمی سفارت کاری میں حکمت عملی کے بجائے ذاتی جذبات کو زیادہ اہمیت دی جا رہی ہے۔ رہنماں سے یہ توقع نہیں کی جاتی کہ وہ مکمل طور پر جذبات سے عاری ہوں، لیکن ان کے الفاظ محض ذاتی جذبات نہیں بلکہ عالمی سیاست پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ کسی بھی اعلیٰ سطحی ملاقات کے دوران دیا گیا بیان بین الاقوامی تعلقات پر اثر ڈال سکتا ہے، اتحادیوں کے تعلقات کو متاثر کر سکتا ہے، اور تنازعات کو ہوا دے سکتا ہے۔
یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا یہ واقعہ ایک منفرد استثنا تھا یا پھر عالمی سفارت کاری کے اصولوں میں واقعی تبدیلی آ رہی ہے؟ اگر عالمی رہنما جذبات کی بنیاد پر سفارت کاری کرنے لگیں، تو اس کے نتائج ناقابلِ پیش گوئی ہو سکتے ہیں۔ طاقت کا توازن، خاص طور پر ایسے تنازعات میں جہاں متعدد ممالک ملوث ہوں، ہمیشہ محتاط اور حکمت عملی پر مبنی رابطے پر منحصر ہوتا ہے۔ عوامی سطح پر جذباتی اظہار، خاص طور پر یوکرین-روس جنگ جیسے نازک تنازع میں، پالیسی میں ابہام پیدا کر سکتا ہے اور فیصلہ سازی میں عدم استحکام کا اشارہ دے سکتا ہے۔
سفارت کاری صدیوں سے اس لیے قائم ہے کیونکہ یہ طے شدہ اصولوں کے تحت چلتی ہے، خواہ رہنماں کے درمیان ذاتی تعلقات کیسے بھی ہوں۔ تاریخ میں ایسے لمحات بھی آئے جب عالمی جنگ کا خطرہ تھا، مگر سفارتی آداب کی پاسداری نے تباہی کو روکا۔ مثال کے طور پر، 1962 کے کیوبا میزائل بحران کے دوران، امریکی صدر جان ایف کینیڈی اور سوویت رہنما نکیتا خروشیف نے محتاط سفارتی ذرائع استعمال کیے تاکہ جنگ کو روکا جا سکے۔ ان کے پیغامات سخت ضرور تھے، لیکن ان میں ایسا کوئی عنصر شامل نہ تھا جو حالات کو بگاڑ سکتا۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نازک سفارتی مذاکرات میں نپے تلے الفاظ کس قدر اہم ہوتے ہیں۔
یہ دیکھنا باقی ہے کہ امریکی اور یوکرینی صدور کی حالیہ گفتگو ایک الگ تھلگ واقعہ تھی یا عالمی سفارت کاری کے بدلتے ہوئے رجحانات کی علامت۔ جذباتی اپیلیں سیاسی فوائد ضرور رکھتی ہیں، لیکن انہیں سفارتی استحکام کی قیمت پر نہیں آنا چاہیے۔ دنیا عالمی رہنماں کے ہر لفظ کو غور سے سنتی ہے، اور ان کی گفتگو کا اثر صرف اسی کمرے تک محدود نہیں رہتا جہاں وہ موجود ہوتے ہیں، بلکہ پوری دنیا پر مرتب ہوتا ہے۔ سفارت کاری کے اصول کسی خاص وجہ سے وضع کیے گئے ہیں—تاکہ تنا کے لمحات میں بھی مکالمہ مصالحت کا ذریعہ بنے، تقسیم کا نہیں۔

ای پیپر دی نیشن