غازی احمد حسن کھوکھر
یوم مئی محنت کشوں کا دن پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی بڑے جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ اس دن سرکاری سطح پر تعطیل ہوتی ہے،جس کا سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو شہید کے دور حکومت میں آغاز کیا گیا۔ اس دن سرکاری و غیر سرکاری سطح پر شہداء شکاگو کو خراج عقیدت اور دنیا بھر میں مزدوروں کے حقوق کیلئے جدوجہد کرنے والوں کیساتھ اظہار یکجہتی کیا جاتا ہے۔ موجودہ حکومت میں بھی ’’لیبر ڈے‘‘ سرکاری سطح پر منانے کی پرانی روایات موجود ہیں۔ اس سال قومی صنعتی تعلقات کمیشن کے چیئرمین جناب جسٹس ریٹائرڈ شوکت صدیقی کی خصوصی دلچسپی اور ہدایت پر کنونشن سینٹر اسلام آباد میں مزدور کی عظمت کے اعتراف میں کنونشن منعقد کیا جا رہا ہے جس میں وفاقی وزیر قانون جناب اعظم نذیر تارڑ کے علاوہ وفاقی و صوبائی وزراء محنت و اعلیٰ حکام کے علاوہ ملک بھر کے مزدوروں کے نمائندے شریک ہونگے۔
یوم مئی کا اصل مقصد کیا، شاید ہم بھول جاتے ہیں کہ اس دن کی تاریخ محنت کشوں کے خون سے عبارت ہے۔ یہ ڈیڑھ صدی پرانا واقعہ ہے۔ یکم مئی 1886ء کے دن امریکہ کے شہر شکاگو میں ریاستی اداروں نے نہتے مزدوروں کا قتل عام کیا تھا۔ ان شہداء کی یاد میں دنیا بھر کے مزدور یکم مئی کے دن ان کی جدوجہد و قربانی کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے مزدور ڈے مناتے ہیں۔ امریکہ کے شہر شکاگو جسے اس وقت سے لیکر آج تک صنعتی شہر ہی تسلیم کیا جاتا ہے یہاں صنعت کاروں کی طرف سے محنت کشوں کا استحصال جاری تھا، گویا کہ کارخانے مزدوروں کیلئے بے گار کیمپ بنے ہوئے تھے۔ کوئی مزدور اعتراض کرنے کی جرات کرتا نہ کوئی شنوائی ہوتی۔بالآخر مزدوروں نے ہمت کرکے احتجاج کی راہ نکالی اور پھرمزدوروں کا مل کر چلنا تحریک کی شکل اختیار کر گیا ۔ پورے شکاگو کے مزدور ایک آواز پر اکٹھے ہوگئے۔
مزدوروں نے تنخواہوں میں اضافہ، مستقل ملازمت، مقررہ ڈیوٹی ٹائمنگ اور تعطیلات کے مطالبات کر دیئے۔ صنعت کاروں کیلئے محنت کشوں کی یہ روش بغاوت، گستاخانہ حرکت محسوس ہوئی اور ان کی اناء کا مسئلہ تھی کہ ان کے غلام، بیگاری اور رحم و کرم پر رہنے والے بے زبان انسان نما مشینری کے پرزے ان کے سامنے بولنے لگے۔صنعت کاروں نے مختلف حربے استعمال کرنے شروع کئے مگر مزدوروں کے عزم و حوصلے میں ’’رَتی‘‘ بھر فرق نہ آیا بلکہ وہ دن بدن مضبوط ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے حوصلے بلند ہوتے گئے۔ بالآخر یکم مئی 1886ء کی صبح مزدوروں کیلئے جہاں ظلم و ستم اور ریاستی سفاکی، جبر و بربریت لے کر آئی تو ساتھ ہی ناانصافیوں کے خاتمے اور خوشی و کامیابیوں کا سورج بھی شام کی سیاہی میں غروب ہوگیا۔ کیونکہ ریاستی اداروں نے نہتے مزدوروں کے پر امن احتجاج پر ظالمانہ کاروائیوں کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا پھر یکم مئی کے دن فیصلہ کن مرحلہ آن پہنچا۔ نہتے مزدوروں پر گولیاں چلا کر شکاگو کی گلیوں کو خون کی ندیوں میں بدل دیا گیا۔ مزدور لیڈروں کو تختہ دار پر لٹکایا گیا۔ غیرت مند مزدور لیڈروں نے ظلم کے سامنے سر نہ جھکایا بلکہ پھانسی کے پھندوں کو خوشی سے پھولوں کے ہار سمجھ کر گلے میں ڈالتے ہوئے کہا کہ تم ظلم و سفاکیت کے اقدامات سے ہمیں حق کے راستے سے نہیں ہٹا سکتے۔ ایک مزدور لیڈر نے پھانسی پر چڑھنے سے پہلے کہا کہ تم ہماری جان لے سکتے ہو مگر ہماری آواز کو قیامت تک نہیں دبا سکو گے بلکہ محنت کشوں مزدوروں کے حقوق کیلئے نکلی ہوئی یہ آواز ہمیشہ ہر ظالم، جابر، غاصب کا تعاقب کرتی رہے گی۔
جب مزدوروں کے خلاف گولیوں، پھانسیوں جیسے حربے بھی ناکام ہوگئے تو ریاستی اداروں اور کارخانہ داروں نے فیصلہ کیا کہ محنت کشوں سے مذاکرات کئے جائیں تو پھر آجروں، محنت کشوں اور ریاستی اداروں نے مذاکرات کئے اور مزدوروں کے واجبات، حقوق و مراعات، تعیناتی اور برطرفی کے اصول وضوابط طے ہوئے۔ ڈیوٹی ٹائم 8 گھنٹے، ہفتہ وار رخصت اور ماہانہ، سالانہ تعطیلات، سالانہ ترقی، بونس، طبی، رہائشی، تعلیمی سہولیات، معذور ہونے، دوران ملازمت وفات پر مراعات، کام کی جگہ پر مناسب ماحول و سہولیات طے پائیں، ’’ہائر اینڈ فائر‘‘ کے درمیان ریاستی اداروں سے رائے لینے اور اختیار حاصل کرنے کے بعد فیصلے کیلئے ثالث مقرر کئے گئے۔ یوں محکمہ لیبر ویلفیئر، لیبر کورٹس، سوشل سیکورٹی جیسے ادارے معرض وجود میں آئے۔ صنعتی اداروں میں رہائشی کالونیاں تعمیر کی گئیں، عبادت گاہیں اور تفریح جیسے ماحول بنانے کیلئے کوشش کی گئی۔ پھر امریکہ کے شہر شکاگو میں مزدوروں کے ساتھ مذاکرات اور طے ہونے والے حقوق پوری دنیا میں رائج ہونے لگے اور ترقی یافتہ یا ترقی پذیر ممالک نے بھی ایسے حالات سے بچنے کیلئے ازخود ہی مزدوروں کے حقوق تسلیم کئے۔
اقوام متحدہ کے وجود میں آنے کے بعد (ILO) انٹر نیشنل لیبر آرگنائزیشن کا ادارہ وجود میں آیا تو پاکستان بھی آئی ایل او کا ممبر بن گیا اور ILO قراردادوں پر دستخط کر رکھے ہیں۔ جس کی وجہ سے دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی محکمہ لیبر، ویجز ایکٹ اتھارٹی، لیبر کورٹس، اپیلنٹ لیبر ٹربیونلز، قومی صنعتی تعلقات کمیشن (NIRC)، سوشل سیکیورٹی جیسے ادارے معرض وجود میں آچکے ہیں اور مزدوروں کو یونین سازی کا حق دے دیا گیا ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ قیام پاکستان سے تاحال صنعتی اداروں کے مالکان، سرکاری اداروں کی افسر شاہی، سول بیوروکریسی اور جوڈیشری جاگیردار،سرمایہ دار،سیاستدانوں نے خودار، حق پرست، مثبت سوچ کے نظریاتی ٹریڈ یونینز لیڈروں کو ذاتی انتقام کا نشانہ بنانے کا سلسلہ ترک نہ کیا،سرکاری اداروں میں یونینز بنتی ہیں ان کے افسران نے اپنی کرپشن چھپانے کیلئے اس کی ہمیشہ نفی کی۔ صنعتی اداروں کے ما لکان نے محنت کشوں کے استحصال، ٹیکس، بجلی، گیس چوری کے باوجود خود کو معزز بنا کر ریاستی اداروں اور عدلیہ میں یونینز کا غلط چہرہ پیش کیا، سٹیل ملز، پی آئی اے، فرٹیلائزر ادارے، ایریگیشن، زراعت، کالونی ملز سمیت صنعتی اداروں کی تباہی کے ذمہ دار تنہا مزدور تو نہیں ہیں۔ افسوس ہے کہ لیبر عدالتوں میں جن ججز صاحبان کو تعینات کیا جاتا ہے ان میں سے اکثریت غیر فعال رہ کر آجر کی طرفداری کرتی ہے ۔افسوس ہے کہ اگر لیبر کورٹس،لیبر ٹربیونلز،سروسز ٹربیونلز،قومی صنعتی تعلقات کمیشن کے تمام بنچز کی روزانہ،ہفتہ وار، ماہانہ اور سالانہ مقدمات کی تفصیل دیکھی جائے تو ملازمین و مزدور کے حق میں فیصلوں کی تعداد ’’آٹے میں نمک‘‘ کے برابر بھی نہیں ہوگی۔یوم مئی تو ہمیں مزدوروں کی جدوجہد، ہمت و حوصلے کا درس دیتاہے۔ اس موقع پر حکومت پاکستان کو چاہئے کہ صنعتی مزدور کی کم از کم تنخواہ 60ہزار روپے ماہانہ، ڈیوٹی ٹائمنگ 8گھنٹے مقرر کرے۔اس کے علاوہ گزٹڈ چھٹیوں و دیگر مروجہ قوانین کے مطابق مراعات بھی دیئے جانے کا حکم جاری کرے اور آئی ایل او قراردادوں پر سختی سے عمل درآمد کروائے۔صنعتی ترقی کیلئے صنعت کاروں کو بجلی،گیس اور ٹیکسز میں چھوٹ دے، صنعت کا پہیہ رواں دواں رکھنے کیلئے بجلی،گیس کے واجبات کی وصولی کو کم سے کم پانچ سال کیلئے فریز کردیا جائے۔زراعت کی ترقی کیلئے غیر آباد رقبے خودکاشت کاری سکیم کے تحت پانچ ایکڑ فی خاندان کو کم از کم 31سالہ لیز پر دی جائے جس میں پانچ سال تک کوئی واجبات وصول نہ کئے جائیں،مزدور نمائندوں کو سینٹ،قومی وصوبائی اسمبلی میں مخصوص نمائندگی دی جائے، یونین کو نسل،ٹاؤن اور ضلعی اسمبلیوں میں مزدوروں کی مخصوص نشستیں مقرر کی جائیںاور ملک سے بے روزگاری کے خاتمے کیلئے اقدامات کئے جائیں۔ لیبر کیلئے عدالتوں میں اصلاحات لائی جائیں،قومی صنعتی تعلقات کمیشن (NIRC)کا پرانا دائرہ کار بحال کیا جائے تاکہ حصول انصاف کیلئے کسی بھی صنعتی و سرکاری ادارے کا ملازم یا مزدور فوری انصاف کیلئے این آئی آر سی سے رجوع کرسکے۔