امریکی سرمایہ کاروں کے وفد کا دورہ پاکستان اور  بیرونی دنیا میں پاکستان کا امیج بہتر ہونے کا ٹھوس پیغام

پاکستان کا دورہ کرنے والے امریکی سرمایہ کاروں کے وفد کے سربراہ اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے قریبی بزنس پارٹنر جینٹری پیچ نے کہا ہے کہ انکے خیال میں رچرڈ گرینل کو پاکستان کے بارے میں ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کے ذریعے گمراہ کیا گیا تھا اور گرینل نے جو بات کی وہ انہوں نے پاکستان سے متعلق اپنی انڈرسٹینڈنگ کے مطابق کہا ہوگا۔ اب پاکستان کے بارے میں پہلے سے زیادہ بہتر انڈرسٹیڈنگ ہے۔ گزشتہ روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان میں مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کے وسیع مواقع ہیں۔ صدر ٹرمپ کی سربراہی میں پاکستان کے ساتھ تعلقات کے نئے دور کا آغاز ہو رہا ہے۔ پاکستان امریکہ تعلقات دہائیوں پر محیط ہیں۔ پاکستان سے متعلق غلط فہمیاں دور کرنے کی ضرورت ہے۔ انکے بقول بائیڈن انتظامیہ نے چار سال جو کچھ پاکستان کے ساتھ کیا‘ وہ مناسب نہیں تھا۔ دنیا میں امن اور ترقی کے نئے دور کا آغاز ہو چکا ہے۔ امریکی سرمایہ کار پاکستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں۔ امریکی سرمایہ کار مصنوعی ذہانت‘ رئیل اسٹیٹ اور معدنیات میں سرمایہ کاری کے خواہش مند ہیں۔ جینٹری پیچ کا کہنا تھا کہ پاکستان کی موجودہ قیادت نئی امریکی قیادت کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔ امریکی سرمایہ کاروں کا وفد مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کیلئے پاکستان آیا ہے۔ 
ماضی میں امریکی عوام کو پاکستان کی صحیح تصویر نہیں دکھائی گئی۔ رچرڈ گرینل کی اب پاکستان کے بارے میں پہلے سے بہتر انڈرسٹینڈنگ ہے۔ پاکستان کی موجودہ صورتحال کا گرینل کو آج سے زیادہ بہتر ادراک ہوگیا ہوگا جبکہ ٹرمپ انتظامیہ پاکستان کی موجودہ سیاسی قیادت کو احترام کی نظر سے دیکھتی ہے۔ 
دریں اثناء وزیراعظم محمد شہبازشریف نے کہا ہے کہ حکومت غیرملکی سرمایہ کاروں کو سہولتیں دینے کیلئے پرعزم ہے۔ انہوں نے امریکی سرمایہ کار جینٹری پیچ کی قیادت میں پاکستان آنے والے سرمایہ کاروں کے وفد سے اسلام آباد میں ملاقات کے دوران انہیں یقین دلایا کہ سازگار کاروباری ماحول‘ تیزتر اور پائیدار عملدرآمد اور مضبوط ادارہ جاتی تعاون کو یقینی بنایا جائیگا۔ وزیراعظم نے امریکی وفد کی پاکستان میں کاروباری مواقع میں گہری دلچسپی کا شکریہ ادا کیا اور امریکی سرمایہ کاروں کے ساتھ مضبوط ادارہ جاتی تعاون یقینی بنانے کے عزم کا اظہار کیا۔ وزیراعظم کے بقول عالمی سرمایہ کاری کی منزل کے طور پر پاکستان منفرد منظرنامے کا حامل ملک ہے۔ وفد نے حکومت پاکستان کی سرمایہ کاری دوست پالیسیوں کو سراہا اور ملک کی مستقبل کی ترقی کی رفتار پر اعتماد کا اظہار کیا۔ 
یہ امر واقع ہے کہ سابق حکمران اور موجودہ اپوزیشن جماعت پی ٹی آئی نے انتشار اور افراتفری کی سیاست کا راستہ اختیار کرتے ہوئے ملکی اور قومی مفادات کو بٹہ لگانے کی کوشش کی اور بیرونی دنیا میں ملک کا تشخص اور ساکھ خراب کرنے میں کبھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ بطور ریاست ملک کے ناکام ہونے اور اس کی معیشت کے دیوالیہ ہونے کا پراپیگنڈہ خود بانی پی ٹی آئی کرتے رہے جنہوں نے عدم اعتماد کی تحریک کی بنیاد پر اقتدار سے فارغ ہونے کے بعد ریاستی اداروں کو ہدف تنقید بنایا، اسے سیاسی حکمت عملی کا حصہ بنایا اور اس ارض وطن کیلئے یہ بددعائیں دیتے نظر آتے رہے کہ اس پر ایٹم بم چل جائے‘ اسکے چار ٹکڑے ہو جائیں۔ انہوں نے افواج پاکستان کے ٹکڑوں میں بٹنے کی بھی نہ صرف ہزرہ سرائی کی بلکہ اس کیلئے سازشی منصوبہ بھی تیار کیا جو 9 مئی 2023ء کے سانحہ کی صورت میں منظر عام پر آیا۔ پی ٹی آئی کی اس سیاست کے تابع ہی بیرونی دنیا بالخصوص امریکہ میں پاکستان اور حکومت پاکستان کیخلاف پراپیگنڈہ کیلئے لابیز فرمیں ہائر کی گئیں جن کے ذریعے ریاستی اداروں بالخصوص افواج پاکستان اور اسکی قیادت کیخلاف زہریلے پراپیگنڈے کیلئے سوشل میڈیا کو استعمال کرنے کی بدترین مثالیں قائم کی گئیں۔ 
بانی پی ٹی آئی نے اقتدار سے ہٹنے کے بعد بطور اپوزیشن لیڈر اپنی جارحانہ تحریک کا آغاز امریکہ کیخلاف اپنے ’’ایبسولیوٹلی ناٹ‘‘ اور ’’ہم کوئی غلام ہیں‘‘ کے نعرے کے ساتھ کیا اور ایک پبلک جلسے میں کاغذ کا ایک ٹکڑا فضا میں لہرا کر یہ تاثر دیا کہ یہ وہ سائفر ہے جو امریکی سفیر نے انکی حکومت گرانے کیلئے تیار کرایا تھا۔ تاہم جب ڈونلڈ ٹرمپ اقتدار میں آئے تو پی ٹی آئی نے یہ تاثر دینا شروع کر دیا کہ عمران خان سے قریبی دوستی کے ناطے ٹرمپ صدر کا منصب سنبھالنے کے بعد پہلا حکم پاکستان کو عمران خان کی رہائی کا صادر کریں گے۔ اسی حوالے سے امریکہ میں ہائر کی گئی لابی فرم کے ذریعے ٹرمپ کے مشیر خاص رچرڈ گرینل تک رسائی حاصل کر کے ان کے ذریعے عمران خان کی گرفتاری پر مبینہ طور پر امریکی تشویش کا اظہار کرایا گیا اور انہیں رہا کرنے کا تقاضا کیا گیا۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ امریکہ میں ری پبلکن اور ڈیموکریٹس میں سے جو بھی پارٹی اقتدار میں ہو‘ اسے صرف امریکی مفادات سے سروکار ہوتا ہے چنانچہ بیرون ملک کی جو پارٹی امریکی مفادات کی بہتر پاسداری کرتی نظر آئے وہ امریکہ کی آنکھ کا تارا بن جاتی ہے اور جس حکومت کی پالیسیاں امریکی مفادات سے مطابقت نہ رکھتی ہوں‘ اسے کمزور کرنے اور گرانے کی سازش کرنا بھی امریکی خارجہ پالیسی میں شامل ہو جاتا ہے۔ اس تناظر میں کسی ملک کی جمہوری حکومت امریکہ کو عزیز ہوتی ہے نہ آمرانہ حکومت امریکہ کی دشمن نظر آتی ہے۔ امریکہ نے اکثر اوقات اپنے مفادات کی بنیاد پر پاکستان کی جمہوری حکومتوں سے زیادہ فوجی آمریت والی حکومتوں کے ساتھ تعلقات استوار کرنے میں آسودگی محسوس کی ہے۔ اس حوالے سے بش ہوں‘ اوباما ہوں‘ جوبائیڈن ہوں یا ٹرمپ‘ ہر امریکی صدر نے اپنی خارجہ پالیسی میں امریکی مفادات کو ہی ترجیح اول بنایا ہے۔ اسی تناظر میں ٹرمپ کے بطور امریکی صدر دوبارہ انتخاب کے بعد ان سے بھی امریکی مفادات کے مطابق ہی اپنی پالیسیاں وضع کرنے کی توقع تھی جس میں پاکستان کے اپوزیشن لیڈر عمران خان کیلئے کسی ہمدردی اور خصوصی مراسم کے ناطے پاکستان کو ڈکٹیٹ کرنے کی توقع کرنا ہی عبث تھا مگر پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا سیل نے ٹرمپ عمران بھائی بھائی کی فضا استوار کرنے  میں ایڑی چوٹی کا زور لگادیا۔ رچرڈ گرینل کا بیان بھی اسی سازش کا حصہ تھا جس کے بارے میں پاکستان کا دورہ کرنے والے امریکی سرمایہ کاروں کے وفد کے سربراہ جینٹری پیچ نے وزیراعظم شہبازشریف سے ملاقات کے دوران رچرڈ گرینل کے حوالے سے اصل صورتحال کی وضاحت کر دی ہے اور کہا ہے کہ اب پاکستان کے حوالے سے گرینل کی غلط فہمی بھی دور ہو چکی ہے۔ 
امریکی سرمایہ کاروں کے وفد کا پاکستان آنا اور یہاں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کا عندیہ دینا بھی پاکستان میں سرمایہ کاری کی سازگار فضا کی گواہی دینے کے مصداق ہے۔ بے شک امریکہ اور دوسرے ممالک بشمول چین‘ سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات کے سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کرینگے تو اس سے نہ صرف پاکستان کی معیشت مستحکم ہوگی بلکہ بیرونی دنیا میں پاکستان کی خراب کی گئی ساکھ بھی بہتر ہو جائیگی۔ یہ فضا یقینی طور پر پاکستان کے اچھے مستقبل کا عندیہ دے رہی ہے۔

ای پیپر دی نیشن