یہ دیے بجھا دیں تو اندھیرا ہی بچتا ہے۔۔۔۔۔!!!

نیوز روم/امجد عثمانی 

افسوس کہ کچھ" بے حدیے" جوش خطابت اور کچھ زعم صحافت میں "حفظ مراتب" بھی بھول گئے۔۔۔اختلاف کرنے کے بھی" کچھ آداب" ہوتے ہیں۔۔۔۔سوال اٹھانے کے بھی "کچھ قرینے" ہوتے ہیں مگر صد افسوس کہ یہاں اختلاف نہیں طوفان بدتمیزی برپا ہے۔۔۔ سوال نہیں انگلیاں اٹھائی جارہی ہیں اور وہ بھی بزرگان دین کی جانب۔۔اور بزرگان دین بھی خواجہ معین الدین چشتی۔۔۔سید علی ہجویری۔۔۔۔پیر مہر علی شاہ۔۔۔۔۔امداد اللہ مہاجر مکی۔۔۔مولانا اشرف علی تھانوی۔۔۔ مولانا رشید احمد گنگوہی اور مولانا زکریا کاندھلوی ایسے باکرامت کہ جن کو  کے اکرام میں زمانے سر نگوں رہیں گے۔۔۔۔۔اپنے نہیں بیگانے بھی جھکتے رہیں گے۔۔۔۔اپنی بات کہوں تو علمائے کرام کی صحبت میں بیٹھنے کا فائدہ یہ ہوا کہ زندگی میں ٹھہرائو سا آگیا۔۔۔ایک اور فائدہ کہ چند ایک صوفیائے کرام مصافحہ اور معانقہ بھی ہوگیا ورنہ ساری زندگی پچھتاوا رہتا۔۔۔۔مولانا عبدالحفیظ مکی ان میں سے ایک تھے۔۔۔۔زندگی شہر امن مکہ مکرمہ میں بتانے والے مولانا زکریا کاندھلوی کے شاگرد رشید اور خلیفہ۔۔۔۔۔مولانا زکریا کو دیکھا نہ سنا لیکن مکہ کے بیت الکبیر سے لاہور کے سبزہ زار کی خانقاہ میں مولانا مکی کو بڑے قریب سے دیکھا اور ان کے قدموں میں بیٹھا۔۔۔۔کیا ہی متبسم اور مںکسرالمزاج آدمی تھے۔۔۔۔۔مکی صاحب کو دیکھ کر رشک آتا کہ اگر شاگرد ایسا باوقار ہے تو استاد کتنا بلند پایہ  ہوگا؟اپنے عہد کے بڑے اخبار نویس جناب جاوید جمال ڈسکوی نے کئی سال پہلے اپنے سفرنامہ حج "میرے حضور کے دیس میں"کیانتساب میں لکھا:پیر طریقت مولانا عبدالحفیظ مکی کے نام کہ حضرت جی مولانا زکریا کے اس خلیفہ اجل کو دیکھ کر میں ہمیشہ حیران ہوتا ہوں کہ پیروں کی بھیڑ میں یہ کتنا مختلف پیر ہے….!!!!مولانا زکریا ایسے بزرگان دین کو کسی ایک حوالے کی پاداش میں کٹہرے میں لا کھڑا کرنے پر مکہ مکرمہ میں اقامت پذیر نامور اسلامی سکالر جناب ڈاکٹر سعید احمد عنایت اللہ کی سوال کے نام پر بدنیتی پر   کہی ایک اصطلاح یاد آگئی۔۔۔ڈاکٹر صاحب مکہ مکرمہ کے مدرسہ صولتیہ کے سابق شیخ الحدیث اور  مولانا عبدالحفیظ مکی کے خلیفہ اور ان کے بعد انٹرنیشنل ختم نبوت کے دوسرے امیر ہیں۔۔۔۔وہ ختم نبوت سے متعلقہ اہم موضوعات سمیت کئی منفرد کتابوں کے مصنف بھی ہیں جن میں سے ایک کا دیباچہ امام کعبہ الشیخ عبد الرحمان السدیس نے تحریر کیا جبکہ ایک کتاب کی تقریظ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم جناب ابو القاسم نعمانی نے لکھی۔۔۔۔کوئی ڈیڑھ دہائی پہلے شریف برادران کے کزن میاں طارق شفیع مرحوم  کے گھر ان کا انٹرویو کیا۔۔۔۔تب دہشتگردی کا زمانہ تھا اور میں ایک قومی اخبار کے لئے علمائے کرام کی اسلامی رائے پر مبنی آرٹیکل لکھنا چاہتا تھا۔۔۔۔۔میں نے سوال کیا کہ کیا اسلام تلوار سے پھیلا؟انہوں نے جواب دینے سے پہلے کہا کہ عربی اصطلاح میں ایسے سوال،جس میں اپنے "مطلب "کا جواب لینے کی نیت چھپی ہو، کو "سوال خبیث" کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔پھر بولے درست سوال یہ ہے کہ اسلام کیسے پھیلا؟ اور جواب یہ ہے کہ بے شک اسلام دعوت سے پھیلا مگر جب ضرورت پڑی تو تلوار بھی چلی یعنی جہاد بھی اپنی جگہ اہم ہے۔۔۔۔۔سچی بات ہے کہ میرا ایجنڈا یہی تھا کہ وہ کہیں کہ اسلام صرف دعوت سے پھیلا اور ہمارے ایڈیشن کی سرخی بن جائے۔۔سوال یہ ہے کہ کیا بزرگان دین کے خلاف حالیہ مکروہ مہم بھی کسی ایجنڈے کا حصہ ہے؟کیا یہ وہی سوال خبیث نہیں جس کا بھانڈا ڈاکٹر سعید عنایت اللہ نے برسوں پہلے پھوڑا تھا۔۔۔۔۔مولانا زکریا کے شاگرد رشید کا ذکر چلا تو ایک دو اور۔۔۔۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بستی جنت البقیع  میں اپنے مرشد مولانا زکریا کاندھلوی کے پہلو میں ابدی نیند سوئے مولانا عبدالحفیظ مکی کے سفر آخرت کی کہانی بھی بڑی قابل رشک ہے…..ڈیزائن آف نیچر بھی عجب ہوتا ہے کہ زندگی کہاں طلوع اور کہاں غروب ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔مولانا عبدالحفیظ مکی نے ہنستے مسکراتے مکہ مکرمہ سے جنوبی افریقہ کے روحانی دورے کے لیے جدہ ائیرپورٹ سے  فلائی کیا اور افریقہ کی ایک شاہراہ پر "سلام قولا من رب رحیم" پڑھتے اللہ کے حضور کے پیش ہوگئے…..ادھر سے میت براستہ جدہ مدینہ منورہ پہنچی۔۔۔۔مسجد نبوی شریف میں نماز فجر کے بعد جنازہ ہوا اور روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پڑوس میں جنت البقیع میں متبرک مٹی کی چادر اوڑھ لی۔۔۔۔۔۔۔۔مکہ مکرمہ  سے جنوبی افریقہ اور جنوبی افریقہ سے مدینہ منورہ کا سفر "زہے نصیب" کی دل پذیر کہانی کہتا ہے۔۔۔کیا کوئی اپنی مرضی سے جنوبی افریقہ میں مر کرسکتا اور جنت البقیع میں دفن ہو سکتا ہے؟؟فقیر مدینہ ڈاکٹر احمد علی سراج نے مولانا مکی کے سفر آخرت پر دل چھو لینے والا جملہ کہا….جب ایک عرب نے ان سے پوچھا یہ کس بزرگ کا جنازہ ہے تو ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا کہ یہ وہ درویش ہیں جو زندگی بھر مکی کہلوائے مگر موت کے بعد قیامت تک کے لیے مدنی ہو گئے ہیں۔۔۔۔۔یادش بخیر۔۔۔۔۔۔جناب ڈاکٹر احمد علی سراج کو شیخ الحدیث مولانا زکریا کاندھلوی کے نواسے مولانا شاہد صاحب سہارن پوری نے  مدینہ منورہ میں ہی اچھے انجام کی"خوش خبری" دی تھی۔۔۔۔۔۔دو ہزار چودہ کہ بات ہے کہ شہر رسول مدینہ منورہ  میں مولانا عبدالحفیظ مکی کے بھتیجے کے گھر ایک مجلس کے دوران مکی صاحب نے مولانا شاہد حسین سے ڈاکٹر احمد علی سراج  کا تعارف کرایا کہ یہ ہمارے ڈاکٹر صاحب ہیں۔۔۔۔کویت کی "زرق برق"چھوڑ کر مدینہ منورہ کوچ کر آئے ہیں۔۔۔۔۔۔مولانا شاہد حسین  نے مکی صاحب کی بات سنی اور "دعائیہ لہجے"میں کہا کہ اللہ کریم ڈاکٹر صاحب کا انجام بخیر کرنا چاہتے ہیں۔۔۔۔!!مولانا مکی کی مکہ خانقاہ میں مولانا زکریا کے نواسے مولانا شاہد حسین کا تزکیہ نفس پر لیکچر بھی کبھی نہیں بھولے گا۔۔۔ایسا دل نشین لیکچر کہ دل کی دنیا ہی بدل گئی۔۔۔کسی کور چشم کو کیا اندازہ کہ نگاہ مرد مومن کیا ہوتی اور کیسے لوگوں کی کایا پلٹتی ہے۔۔۔۔؟؟ اور یہ بھی کہ اللہ والوں کے ہاں سمندر سا گہرا سکوت کیا ہوتا ہے۔۔۔۔اچھل کودیوں کی زبان درازیاں دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ برصغیر پاک و ہند میں خواجہ معین الدین چشتی۔۔۔۔سید علی ہجویری۔۔۔۔پیر مہر علی شاہ۔۔۔۔امداداللہ مہاجر مکی۔۔۔۔مولانا اشرف علی تھانوی۔۔۔رشید احمد گنگوہی اور مولانا زکریا ایسے بزرگان دین کے "دیے" بجھا دیے جائیں تو باقی بچتا کیا  ہے۔۔۔۔؟ہو کا عالم اور اندھیرا ہی اندھیرا۔۔۔۔۔!!!

ای پیپر دی نیشن