’’پاتھیاں پن کے ویر نہیں مکدے‘‘

 گلوبل ویلج                
مطلوب احمد وڑائچ
matloobwarraich@yahoo.com
ہالی ووڈ کبھی کسی کو ہیرو بنا کر لے آتا ہے، کبھی کسی اور کو۔ پھر ان ناموں سے جیسے راکی، ریمبو، ٹارزن وغیرہ، دنیا بھر میں اربوں ڈالر کماتے ہیں اور ورلڈ وائیڈ بزنس کرتے ہیں۔ کبھی ہیری پوٹر جیسے کردار لے آتے ہیں۔ انڈیا بھی انہی بنیادوں پر چل رہا ہے۔ اس نے فلموں کے ذریعے خود کو پوری دنیا میں مشہور کر رکھا ہے۔یہ فلمیں اکثر سوئٹزرلینڈ، فرانس، اٹلی اور جرمنی میں بنتی ہیں لیکن دیکھنے والے کو لگتا ہے جیسے یہ سب کچھ انڈیا میں فلمایا گیا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ انڈیا میں غربت کی انتہا ہے۔ چالیس کروڑ لوگوں کو یہ تک معلوم نہیں کہ ٹوائلٹ کیا ہوتا ہے، بیس کروڑ نے آج تک بجلی کا بلب نہیں دیکھا۔
بھارت کی سولہ ریاستوں میں آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں، جو کسی وقت بھی آتش فشاں بن کر پھٹ سکتی ہیں۔ ان کے پاس کچھ نہیں بچے گا۔ آج بنگلہ دیش نے ان کے ساتھ جو سلوک کیا ہے، وہ دنیا کے سامنے ہے۔ پھر افغانستان میں بیٹھ کر بھارت نے پاکستان میں دہشت گردی کی منصوبہ بندی کی۔ مگر ان کا پورا پلان فیل ہو چکا ہے۔اج پھر پاکستان میں افغانستان کے اندر سے دار اندازی ہوئی ہے پاک فورسز کی طرف سے 54 فتنہ الخوارج کے دہشت گردوں کو منطقی انجام تک پہنچا دیا گیاہے۔گویا پورا پاکستان اور فورسز پہلے سے بھی زیادہ الرٹ ہو گئے ہیں۔
اب ایک بار پھر بھارت نے پہلگام میں ڈرامہ رچایا ہے، بالکل اسی طرح جس طرح 1995 میں پہلگام میں پانچ مغربی ممالک کے سیاحوں کو اغوا کیا گیا تھا۔ ایک کا سر قلم کر دیا گیا تھا، باقیوں کا آج تک پتہ نہیں چلا۔ اس کا الزام بھی پاکستان پر لگا دیا گیا۔بعد میں یہ بھارتی ڈرامہ ثابت ہوا۔کلنٹن جب سن 2000 میں بھارت کے دورے پر آئے تو اس موقع پر چٹی سنگھ پورہ میں 37 سکھوں کو گھروں سے نکال کر قتل کر دیا گیا، اور الزام پاکستان پر لگا دیا گیا۔ یہ بھی ڈرامہ بازی ثابت ہوئی۔ صدر کلنٹن نے اپنی کتاب میں باقاعدہ اس کا تذکرہ کیا کہ یہ سارا کچھ شدت پسند ہندوؤں کی طرف سے کیا گیا تھا۔
دنیا نے دیکھا کہ پٹھان کوٹ حملہ، بمبئی دھماکے، سمجھوتہ ایکسپریس سانحہ اور دیگر فالس فلیگ آپریشنز بھارت کی اپنی منصوبہ بندی کے تحت کیے گئے تھے۔ تمام الزامات پاکستان پر لگائے گئے، لیکن خود بھارت کے اندر سے آوازیں اٹھنے لگیں کہ یہ سب جھوٹ ہے۔ 2019 میں پلوامہ حملہ ہوا، جس کے بعد بھارت نے پاکستان پر سرجیکل اسٹرائیک کا ڈرامہ رچایا۔ 26 فروری کو بھارتی طیارے پاکستان کی حدود میں داخل ہوئے، لیکن 27 فروری کو پاکستان کی فضائیہ نے دو بھارتی طیارے مار گرائے اور ایک پائلٹ ابھی نندن کو گرفتار کر لیا۔
اب پھر پہلگام میں دہشت گردی کروا کر پاکستان پر الزام لگایا گیا ہے اور بھارت اسی طرح کی جنگی تیاری کر رہا ہے جیسے پلوامہ حملے کے بعد کی تھی۔ سندھ طاس جیسے معاہدے معطل کر دیے گئے، سفارتکاروں کی تعداد کم کر دی گئی، پاکستانی سفارتکاروں کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دے کر نکالا گیا اور بارڈر بند کر دیا گیا۔یہ سب کچھ اس وقت ہوا جب پہلگام کے مقتولین کی لاشیں بھی سنبھالی نہ گئی تھیں۔ بغیر کسی تصدیق کے، بغیر کسی تحقیق کے، پاکستان پر الزامات لگاتے ہوئے عملی اقدامات اٹھا لیے گئے۔اگر سندھ طاس معاہدہ معطل یا ختم ہوتا ہے تو بھارت کو زیادہ نقصان ہوگا، پاکستان کو نہیں۔ دریا سندھ، چناب اور جہلم تو پاکستان کو ملے ہوئے ہیں، یہ تو بہتے ہی رہیں گے۔ جو دریا  ایوب خان کی حماقت کی وجہ سے بھارت کو دے دیے گئے تھے، یعنی ستلج، بیاس اور راوی، وہ بھی پاکستان کو واپس مل سکتے ہیں۔
بھارت کسی حد تک ہی پاکستان کا پانی بند کر سکتا ہے۔ کیا بھارت بارشوں اور گلیشیئر پگھلنے کے پانی کو گھڑوں میں سمیٹے گا؟ یا بڑے بڑے ڈیم بنا کر پانی کو روک لے گا؟ بھارت نے 33 دریا آپس میں جوڑ لیے ہیں۔ جتنا پانی استعمال کر سکتا ہے کرے گا، باقی کا کیا کرے گا؟ لہٰذا سندھ طاس معاہدے کی معطلی یا ختم ہونے سے پاکستان کے لیے کوئی بڑی پریشانی نہیں ہے۔
پہلگام میں ہونے والی دہشت گردی کی پوری دنیا مذمت کر رہی ہے۔ پوری دنیا دہشت گردی کے خلاف کھڑی ہے اور پاکستان بھی دنیا کے ساتھ ہے۔ لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ دنیا بھارت کے ساتھ ہے اور پاکستان کے خلاف ہے۔ پاکستان نے بجا طور پر کہا ہے کہ کسی بھی فورم پر تحقیقات کروا لی جائیں۔ یہاں تک کہ بھارت کو آفر دی گئی ہے کہ وہ خود تحقیق کاروں کو نامزد کر لے، لیکن بھارت اس کے لیے تیار نہیں کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس کا جھوٹ بے نقاب ہو جائے گا۔
بھارت میں پاکستان کے خلاف بغض اور تعصب رکھنے والا بڑا طبقہ ہے، جو فوری طور پر حملے کی تجاویز دے رہا ہے۔ بھارتی بدنیت حکمران بھی ایسی ہی آراء سننا چاہتے ہیں۔
کچھ تجزیہ نگار اسرائیل اور غزہ کی مثال دے کر بھارت کو اکسا رہے ہیں کہ پاکستان کے خلاف ویسا ہی عمل کرے۔ یہ سب بکواس ہے۔ غزہ کے پاس نہ وسائل تھے، نہ توپیں، نہ ٹینک، نہ فوجیں، نہ جہاز۔
پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے، اور پوری دنیا نے اسے تسلیم کیا ہے۔پاکستان میں بھی کچھ لوگ اپنے ولاگز کے ذریعے عوام کا مورال گرا رہے ہیں، لیکن ہم اپنی فوج کے ساتھ ہیں۔
دنیا کے ممالک میں اسٹیبلشمنٹ کام کرتی ہے، جیسے امریکہ میں ٹرمپ کے ساتھ پنگے چلتے رہے، فرانس، اٹلی اور دیگر ممالک میں بھی اسٹیبلشمنٹ متحرک رہتی ہے تو اگر پاکستان میں بھی ایسا ہے تو یہ ہمارا اندرونی معاملہ ہے۔جنگ ہوئی تو ہم جنگ کریں گے، اور اگر پیار کی بات ہو تو ہم جتنا پیار کوئی نہیں کر سکتا۔
بھارت میں کانگریس نے کشمیر میں انتخابات سے پہلے سڑکیں، پل، اور ٹنلز بنائیں، لیکن پھر بھی عوامی پذیرائی حاصل نہ کر سکی۔ مودی کا یہ آپریشن اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، کیونکہ کشمیر پر ان کا ناجائز قبضہ ہے۔جب بھارت نے پاکستان میں سیاسی عدم استحکام دیکھا، جیسے سیاسی رہنماؤں کی گرفتاری اور عوامی ناراضی، تو اس نے سوچا کہ یہ حملے کے لیے بہترین موقع ہے۔لیکن اس کی یہ سوچ بالکل غلط ہے۔
جب بات انڈیا کے خلاف آئے گی تو پاکستان میں تمام سیاسی جماعتیں اور عوام یکجا ہوں گے اور دشمن کے سامنے ایک دیوار بن کر کھڑے ہوں گے۔
چلتے چلتے یہ بھ سن لیں کہ بھارتی انتہاء پسندوں نے لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن پر حملہ کردیا۔عمارت کے شیشے توڑ دیئے، رنگ بھی پھینکا۔برطانوی پولیس نے حملہ کرنیوالے ایک ہندو انتہاء کو گرفتار کرلیا، دیگر ملزمان کی گرفتاری کیلئے کوششیں جاری ہیں۔پوری دنیا میں احتجاج کا حق تسلیم کیا گیا ہے۔برطانیہ ایسے ممالک میں سر فہرست ہے۔وہاں پہ گرفتاری اسی صورت میں ہوتی ہے جب کوئی غیر قانونی حرکت کرتا ہے۔یہ جو کچھ پاکستان کے سفارت خانے پر برطانیہ میں کیا گیا سراسر غیر قانونی اور شر پسندی ہے۔جو بھارت کے ایما پر ہی کی گئی ہے۔بھارتی حکومت اس سے کیا باور کروانا چاہتی ہے۔اس طرح کی گھٹیا حرکتوں سے دشمنی نہیں لی جاتی۔جیسے پنجابی کا محاورہ ہے۔’’پاتھیاں پن کے ویر نہیں مکدے‘‘

ای پیپر دی نیشن