خواتین کے کھیلوں پر بھی مردوں کی اجارہ داری
کسی حکومت نے خواتین کھلاڑیوں پر توجہ نہیں دی ، انفرادی کاوشوں سے کھیل میں نام بنایا
فیڈریشن کے عہدیداروں کے ساتھ مرد حضرات ٹیموں کے کوچز بننے میں بھی پیش پیش
ریٹائرمنٹ کے بعدکھلاڑی منتظررہتی ہیں کہ انکی فیڈریشن خواتین کی تربیت کیلئے انکی خدمات حاصل کرے گی
فیڈریشنوں میں خواتین کو نمائندگی محض نمائشی طور پر دی جاتی ہے اوراکژ عہدیداران کا تعلق مرد حضرات کے عزیز و اقارب یا بااثرطبقات سے ہوتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عنبرین فاطمہ
پاکستان میں خواتین کی کھیلوں میں بہتری نہ ہونے کی جہاں سماجی وجوہات ہیں وہیں مالی مسائل ، خواتین آفیشلز اور غیر تربیت یافتہ کوچز اور سپورٹ سٹاف کی کمی قا بل زکر ہیں ۔خواتین کو کھیلوں میں آگے بڑھنے کیلئے قیام پاکستان کے بعد سے کسی حکومت نے کوئی عملی کام نہیں کیا اور کھلاڑی اپنی محنت اور لگن سے کامیابیاں حاصل کرتی رہیں ۔ اسلامی جمہوریہ ہونے کے باوجود خواتین کیلئے الگ سے نہ تو کوئی سپورٹس ڈائریکٹوریٹ قائم کیا گیا اور نہ اس حوالہ سے کوئی پالیسی تشکیل دی گئی جس کے باعث آج ہماری خواتین کھلاڑی دنیا کی دیگر ممالک کی کھلاڑیوں سے پیچھے رہ گئی ہیں۔ کامن ویلتھ کے چند ممالک میںکھیلے جانے اور خطیر مالی وسائل ہونے کے باعث خواتین کی قومی کرکٹ ٹیم بڑے ایونٹس میں کھیلتی نظر آتی ہے لیکن وسائل کی فراوانی کے باوجود وہ بھی آج تک عالمی کپ جیتنے یا آسٹریلیا اور انگلینڈ جیسی بڑی ٹیموں کو شکست دینے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ فٹبال میں سیاست نے مرد و خواتین ٹیموں کو شدید نقصان پہنچایا جبکہ ہاکی میں مالی وسائل کی کمی اور اقربا پروری نے کھیل کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے جبکہ دیگر کھیلوں کا حال تو ان سے بھی برا ہے۔ماضی میں شبانہ اختر اپنی خدا داد صلاحیتوں کی بناء پر جنوبی ایشیاء میں کامیابیوں کے جھنڈے گاڑھتی رہی ہیں جبکہ حال ہی میں کرکٹر ندا ڈار نے ٹی ٹونٹی میں سب سے زیادہ وکٹیں حاصل کرنے کا اعزاز حاصل کیا یہ تمام خواتین کسی سسٹم کے تحت سامنے نہیں آئیں ۔ ندا ڈار کو سب سے پہلے اپنے گھر سے مخالفت کا
سامنا کرنا پڑا جہاں ان کے بھائی کھیلوں میں شرکت کے حق میں نہیں تھے انہیں گرائونڈ جانے کی اجازت نہیں تھی لیکن والد کی سپورٹ کے باعث وہ اس مقام تک پہنچنے میں کامیاب ہوئیں اور ان کے بقول آج وہی بھائی جو انہیں کھیلنے سے روکتا تھا آج فخر سے بتاتا ہے کہ وہ ندا ڈار کا بھائی ہے۔ شبانہ اختر کا تعلق بھی ایک چھوٹے سے گائوں سے ہے جنہیں کھیل کا جنون تھا اپنی انتھک محنت سے وہ بین الاقوامی سطح پر میڈل حاصل کرکے پاکستان کا نام روشن کرتی رہیں اسی طرح کرکٹر ندا ڈار کو بھی گھر والوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تاہم عز م و جذبے کی
حامل خاتون کھلاڑی نے اپنے مقصد کے حصول کی جانب پیش قدمی جاری رکھی۔ ندا ڈار اپنے والد کے ساتھ گوجرانوالہ سے موٹر سائیکل پر لاہور کرکٹ کھیلنے آتیں لیکن انہوں نے ہمت نہ ہاری اور آج دنیا بھر میں ان کی مثال دی جاتی ہے۔ قدامت پسند معاشرہ ہونے کے باعث چند دہائیوں قبل تک خواتین کی کھیلوں میں شمولیت کو اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس سوچ میںتبدیلی آئی ہے اور اب بڑے شہروں کے ساتھ ساتھ چھوٹے شہروں سے بھی خواتین کھلاڑی سامنے آرہی ہیں لیکن موثر انتظامی ڈھانچہ نہ ہونے کے باعث پاکستانی خواتین کھلاڑیوں کو عالمی سطح پر اپنی پہچان بنانے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ خواتین کھلاڑیوں کے لئے اولمپک اور ورلڈ چیمپن شپ جیسے بڑے ایونٹس کیلئے براہ راست کوالیفائی کرنا ایک خواب بن کر رہ گیا ہے اور بس وائلڈ کارڈ کے ذریعے جسے عرف عام میں خیرات کہہ سکتے ہیں کے ذریعے ہی پاکستانی کھلاڑی چند کھیلوںمیں شمولیت کرلیتی ہیں۔خواتین کے سکول، کالج اور یونیورسٹیز میں بھی ماضی کی طرح کھیلوں کی سرگرمیاں دیکھنے میں نہیں آرہی ہیں حتٰی کے کئی کالجز جو ماضی میں غیر نصابی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے آج سالانہ سپورٹس ڈے کا انعقاد کرنے سے بھی قاصر ہیں ۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن اور تعلیمی بورڈز ہر سال خواتین کھلاڑیوں کے مابین مقابلوں کا انعقاد ضرور کرتے ہیں جن پر بھاری رقوم خرچ کی جاتی ہیں لیکن اس کے باوجودکھیلوں کا معیار روز بروز گرتا جارہا ہے ۔
صورتحال کی بہتری کیلئے حکومتی سطح پرکسی قسم کی کوشش دکھائی نہیں دیتی تاہم گزشتہ چند برسوں کے دوران نجی سطح پر سابق خواتین کھلاڑیوں کی جانب سے کھیلوں میں بہتری کی کاوشیں نظر آرہی ہیں ۔ قومی کھیل ہاکی سے تعلق رکھنے والی سابق قومی کھلاڑی رابعہ قادراور سحرش گھمن اپنی ذاتی کاوشوں سے خواتین کو کھیل اور انتظامی شعبوں میں آگے بڑھنے کیلئے کام کر رہی ہیں۔ رابعہ قادر گزشتہ بارہ برسوں سے اپنی آرگنائزیشن گلیکسی سپورٹس اکیڈمی کے ذریعے خواتین کھلاڑیوں کی تربیت کرنے میں مصروف ہیں حال ہی میںانہوں نے کھیل کے ساتھ ساتھ خواتین کو فیصلہ سازی میںشامل کرنے کیلئے خواتین سپورٹس لیڈرز تیار کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے ۔ اس سلسلہ میںانہوںنے گزشتہ برس جنوبی افریقہ سے تعلق رکھنے والی فیفا ریفری اکھونا ماکالیما کو پاکستان مدعو کیا جنہوں نے پاکستان میں پہلی مرتبہ خواتین کا سپورٹس لیڈرشپ کورس منعقد کیا جس کا مقصد ایسی خواتین تیار کرنا تھا جو ہر سطح پر خواتین کی کھیلوں میں شرکت بڑھانے کے ساتھ ساتھ اس کے فروغ کیلئے ہر سطح پر پایسی سازی کا حصہ بھی بنیں ۔ اس کے علاوہ ہاکی کی ہی ایک اور سابق کھلاڑی سحرش گھمن گزشتہ چند برسوں سے اپنی اکیڈمی میں لڑکیوں کو ہاکی کی تربیت فراہم کررہی ہیں جبکہ فیم فٹبال کلب ماڈل ٹائون میںبھی لڑکیوںکو باقاعدگی کے ساتھ ٹریننگ کرائی جاتی ہے۔
کسی حکومت اور کھیلوں کی فیڈریشن نے کھلاڑیوں کے لئے خواتین کوچز، ٹرینر،فزیو اورسپورٹ سٹاف کی تیاری پر توجہ نہیں دی اور خواتین کی کھیلوں میں آج بھی زیادہ تر مردوں ہی کی اجارہ داری ہے۔ پاکستان میں خواتین کی مقبول ترین کھیلوں کرکٹ، ہاکی، فٹبال، والی بال، ٹینس، حتٰی کہ جوڈو اور کراٹے کی قومی ٹیموں کے کوچز بھی مرد حضرات ہیں جس کے باعث کھلاڑیوں کو بہت سے مسائل کا سامنا رہتا ہے لیکن
مناسب شنوائی نہ ہونے کے باعث وہ خاموشی اختیار کرلیتی ہیں۔ کھیلوں کی فیڈریشنوں میں خواتین کو نمائندگی محض نمائشی طور پر دی جاتی ہے اوراکژ عہدیداران کا تعلق مرد حضرات کے عزیز و اقارب یا بااثرطبقات سے ہوتا ہے ۔ متعلقہ کھیل سے تعلق رکھنے والی کھلاڑی ریٹائرمنٹ کے بعد منتظر ہی رہتی ہیں کہ ان کی فیڈریشن خواتین کی تربیت کیلئے ان کی خدمات حاصل کرے گی لیکن ایسا شاذر و ناظر ہی دیکھنے میں آتا ہے۔کھیلوں میں مردوں کی اجارہ داری کے باعث جنسی ہراسیت، گالم گلوچ اور مینٹل ٹارچرکے چند واقعات بھی رونما ہوتے
رہتے ہیں اور ان میں سے زیادہ تر واقعات کو مختلف وجوہات کی بناء پر دبا دیا جاتا ہے جن میں سب سے عام وجہ لڑکی کی عزت ہوتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔
فائنل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔