’’کیا فرق پڑتا ہے اگر‘‘ 




عوامی بہبود کا کوئی بھی پروگرام یا منصوبہ منظور ہوتا ہے تو ہمیشہ کی طرح ’’مخصوص لابی‘‘ پیچھے پڑ جاتی ہے دیکھا دیکھی دوسرے لوگ فوائد کو جانتے بوجھتے ہوئے بھی منصوبہ کے مخالفین کے پیچھے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ پوری قومی تاریخ اُٹھا کر دیکھ لیں سب سے بڑی بُری مثال ’’کالا باغ ڈیم‘‘ ہے جس کو اِسی طرح سیاست زدہ کر دیا گیا تھا ۔اتفاق رائے کے نام پر ۔ کونسا اتفاق رائے ؟؟کچھ بھی نہیں بدلا ۔ نہ حروف ۔ نہ انداز۔ حالیہ افراتفری کا شکار منصوبہ ’’کینالز‘‘ بھی ایسی ہی سازشوں ۔ غیر ضروری شور میں محصور کر دیا گیا ہے۔ اِس ملک میں صرف ایک ہی اتفاق رائے بکثرت ۔ متفق علیہ موجود تھا ہے اور رہے گا وہ ہے لُوٹ مار کی سیاست۔ کرپشن میں حصہ داری پر اٹوٹ اتفاق ۔ میرٹ کا کُھلے عام قتل ۔ عوام کے حقوق پر مکمل ڈاکہ۔
عوام کو ریلیف چاہیے کیا فرق پڑتا ہے کہ پیلیز پارٹی ہے یا ن لیگ۔ گرمی اپنی شدت کی طرف بڑھ رہی ہے۔ بجلی کی قیمتوں میں نمایاں کمی کی ضرورت جتنی موجودہ حالات میں ہے اتنی کبھی بھی نہیں تھی کیونکہ معاشی حالات ہر عام آدمی ۔ درمیانہ طبقہ کے پہلے سے دگرگوں ہو چکے ہیں۔ سٹرکوں پر گاڑیوں کی تعداد ۔ ہوٹلز کی رونق۔ گھروں کے سائز۔ معاش کی صحیح عکاسی نہیں کرسکتے ۔ ’’30کروڑ ‘‘ کے قریب آبادی کا بہت چھوٹا حصہ ہوٹلز کی آمدنی بڑھانے میں مصروف ہے۔ بھلے وقتوں میں آمدنی میں برکت تھی۔ ضروریات کم تھیں ۔ اشیائے صرف کی قیمتیں پٹرول۔ گیس۔ پانی کے نرخ مناسب تھے تو آسانی سے ہر طبقہ کی خواہشات کی تکمیل ہو جایا کرتی تھی۔ بچت کا سائز بھی اُس حساب سے زیادہ بن جاتا تھا۔ تب ’’زمین‘‘ بھی کنالوں کے حساب سے سستی پڑتی تھی (اب ’’گزوں‘‘ میں آچکی ہے۔ اِس کے باوجود خریدنا عام شخص کے بس کا کام نہیں رہا) لوگوں نے بچتوں کو بڑے گھر بنا کر احسن طریقے سے محفوظ کر لیا۔ اب جو حالات ہیں بڑے گھروں کی دیکھ بھال ۔ مرمت کے اخراجات نکالنا ۔ پورے کرنا از حد دشوار ہو چکا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس شخص کا جو حساب ہے وہ اُسی تناسب سے بیحد پریشان ہے۔ بجلی ۔ پٹرول قیمتوں میں کمی کو عوام بھی اپنے بھائیوں کی طرف منتقل نہیں کرتے اب تو ’’حکومت‘‘ سے شکوہ کرنا تو بنتا ہی نہیں ۔ 
حکومت کو چاہیے کہ ایک ہی مرتبہ معتدبہ کمی کر کے لازمی خدمات کے نرخوں کو دو ۔3سال کے لیے منجمد کر دے۔ عالمی مارکیٹ میں تھرتھلی مچی ہوئی ہے اور یقینا ’’صدر ٹرمپ‘‘ کے دور میں ’’تیل’’ 50ڈالر فی بیرل تک آجائے گا ہماری تو دعا ہے کہ ’’ایک ڈالر فی بیرل‘‘ ہو جائے ہمیشہ کے لیے ۔ بہت کما لیا تیل پیدا کرنے والوں َنے۔ کمایا تو ہماری حکومتوں نے اُن سے زیادہ ہے مگر افسوس انتہائی حد تک جا پہنچائی کمائی کے ’’زیرو فیصد‘‘ کو بھی عوام پر کسی نے بھی پہنچانے کی طرف دل سے کوشش نہیں کی۔ عوام کو ریلیف چاہیے کیا فرق پڑتا ہے کہ جماعت اسلامی ہے یا ’’عمران خان‘‘۔ عوام کو صرف اپنے ’’پیٹ‘‘ سے غرض ہے اب تو اپنی حالت ہی اِس قابل نہیں رہ گئی کہ نام نہاد سیاست کے چکر میں گھن چکر بن جائیں ۔ بجلی ۔ تیل۔ پانی ۔ گیس سستی کر دیں۔ ہزاروں فلاحی اسکیموں کی بجائے صرف ایک ہی عوامی فلاح ۔ خوشحالی کا حقیقی منصوبہ لانچ کر دیں کیا فرق پڑتا ہے کہ اگر اُس منصوبہ پر بھلے تمام اکابرین اپنی تصاویر لگا دیں ۔
 ہر شہر کے چوک ۔ گلی میں اشتہار چسپاں کر دیں۔ کچھ بھی کر دیں پر اب کر ہی ریں ۔ ’’یوٹیلیٹی بلز‘‘ سستے کردیں ۔ لیوی۔ ٹیکس ۔ ظاہر۔ پوشیدہ سب ختم کر دیں۔ صرف ایک ’’ٹیکس‘‘ ہو جو سب سے لیں۔ ریڑھی والے سے لیکر زمیندار تک ۔
جب معیشت خوشحالی کو چھو رہی ہے ملک ترقی کے راستے پر گامزن ہو چکا ہے تو پھر ترقیاتی فنڈز کی بجائے عوام کا حق۔ ریلیف کو ’’سٹرک‘‘ کی تعمیر کے لیے مختص کرنا کِس بات کی غمازی کرتا ہے ؟؟ یہ امر باعث اطمینان ہے کہ عوامی مسائل اور تکالیف کا احساس ہر’’ ذی اقتدار‘‘ کو ہے مگر ٹھوس ۔ عملی بچاؤ کی باتیں عمل کی طرف آتی نظر نہیں آرہیں۔ کیا فرق پڑتا ہے کہ اتحادی ہیں۔ مُلکی مفاد سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ۔ ’’نہروں‘‘ کے معاملہ کو نہایت غیر ذِمہ داری سے بگاڑا گیا۔ حقائق کو مسخ نہیں کرنا چاہیے۔ حکومتیں تو آتی جاتی ہیں۔ قومی مفاد کے منصوبے ایک ہی مرتبہ بنتے ہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ ’’نہروں‘‘ کے معاملہ میں ’’سندھ‘‘ سے کوئی نا انصافی ہو رہی ہے سب گروہ اس موضوع پرسیاست بند کر دیں ۔
رمضان المبارک کو رخصت ہوئے زیادہ دن نہیں ہوئے ۔ دن۔ رات میں پورا ‘ پورا خاندان موٹر سائیکلز پر سوار ’’راشن پانی‘‘ کی تلاش میں سٹرکوں پر پھرتے نظر آتے تھے جبکہ پچھلے سال صرف ’’رات‘‘ کو ایسے مناظر دیکھے تھے۔ گھنٹوں سے گھروں کے سامنے بیٹھے ہوئے لوگ راشن کے لیے منتوں ترلوں پر اُتر آتے تھے یہی احوال ذاتی ملازمین کا بھی تھا۔ تقریبا ً ہر شخص نے ہی (درمیانہ غریب سبھی) راشن کی بطور خاص درخواست ڈال دی تھی جبکہ حکومت کی طرف سے بھی اچھی خاصی سبسڈی تھی۔ سستے بازاروں کے علاوہ راشن پیکج بھی تھا اِس کے باوجود مانگنے والوں میں کمی نہیں دیکھی شاید ہماری قوم کو ’’مانگنے‘‘ کی لت زیادہ لگ چکی ہے ؟؟ اِس تصویر میں دیکھیں کہ معاشی صورتحال بہتر ہو چکی ہو تو پھر تو سٹرکیں خالی نظر آنا چاہیے تھیں بھکاریوں سے ۔ ایک ایک پیکٹ گھی۔ چینی کے لیے ترستے لوگ۔ کچھ گھنٹوں کے انتظار کے بعد بھی خالی ہاتھ لوٹتے تھے ۔ ایک تھیلا آٹا کے لیے ہاتھ جوڑتے ۔ دہائیاں دیتے لوگ۔ عادت ہے بھی تو پھر بھی کچھ نہ کچھ کمی تو ہوگی زندگیوں میں جبھی ایسا کرنے پر مجبور تھے اور اِس مرتبہ تو تعداد بھی ڈبل ہو گئی تھی کچھ تو ہے۔

ای پیپر دی نیشن