بلوچستان کو سنوار دو

تکلم برطرف  |  مشتاق اے سرور

بلوچستان میں ٹرین پر حملہ معمولی واقعہ نہیں، اس واقعہ کے بعد جہاں ہماری سکیورٹی فورسز کی طرف سے بروقت آپریشن کے دوران جس بہادری، مستعدی اور جرأتمندی کا مظاہرہ کیا گیا وہیں اس ضمن میں ہماری کوتاہیوں اور غفلت کا چرچا بھی ہوتا رہے گا۔ہماری مسلح افواج کی شہادتوں سمیت کئی قیمتی جانیں ایسی غفلت، عدم توجہی اور غیر سنجیدگی کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں۔ شورش، بدامنی اور دہشت گردی پر قابو پانا ریاست کی اولین ترجیح ہے مگر حالیہ چند ہفتوں کے دوران دہشت گردی کے پے درپے واقعات واشگاف و بے حجاب اعلان کر رہے ہیں کہ دشمن نہ صرف جاگ رہا ہے بلکہ پہلے سے کہیں زیادہ جامع منصوبہ بندی اور مستعدی کے ساتھ میدان میں اْترا ہے۔ لہٰذا اْس کا مقابلہ کرنے کے لئے اْس سے کہیں زیادہ مستعدی،سٹریٹیجک حکمت عملی، تکنیکی مہارتوں اور توانائی سے بھرپورجذبے کی ضرورت ہے۔ وائے افسوس، ہم یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ہماری غفلت کی وجہ سے مسلح افواج کے جو نوجوان ایسے آپریشنوں کے دوران شہید ہو جاتے ہیں، کیا وہ کسی ماں کے بیٹے نہیں ہوتے، کیا وہ کسی کا سہاگ نہیں ہوتے، کیا کوئی بہن گھر کی چوکھٹ پر ان کا انتظار نہیں کر رہی ہوتی اور کیا اْن کے معصوم بچے ان کی راہ نہیں تکتے۔ 
سیاسی و سماجی حلقوں کو چاہئے کہ وہ اس ضمن میں اپنا کردار ادا کریں اور پاک فوج کے کندھوں پر جو بوجھ ڈال رکھا ہے اسے ختم نہیں کر سکتے تو کم ضرور کریں۔ اس مقصد کے لیے دو کام بہت ضروری ہیں۔ ایک یہ کہ دہشت گردی کے مقابلے کے لئے تمام سٹیک ہولڈراکٹھے ہو کر اگلے محاذ پر دشمن کا مقابلہ کرنے والی فوج کے پیچھے ڈٹ کرکھڑے ہو جائیں۔ دوسرا یہ کہ سب مل کر بلوچستان کی محرومیاں دور کریں، اسے سرسبزو شاداب کر دیں اور صنعتی و کاروباری ترقی اور امن کا گہوارہ بنا دیں۔ اس سے دہشت گردی فوراً ختم نہیں ہوگی مگر دہشت گرد جن نرسریوں سے نئی کھیپ اٹھاتے ہیں وہ بند ہوجائیں گی اور بتدریج اس میں کمی آتے آتے اس کا قلع قمع ہو جائے گا۔
 بلوچستان رقبے کے اعتبار سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے، مگر بدقسمتی سے یہ ہمیشہ سے محرومیوں کا شکار رہا ہے۔ ان محرومیوں کی کئی وجوہات ہیں، جن میں سیاسی، معاشی، سماجی اور ترقیاتی عدم توجہی شامل ہیں۔اگر ان محرومیوں کا مختصر احاطہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ بلوچستان کی معدنی دولت کے باوجود مقامی آبادی کو اس کا فائدہ نہیں پہنچتا۔ گوادر پورٹ جیسے بڑے منصوبے صوبے میں موجود ہیں، مگر اس کے فوائد مقامی لوگوں تک محدود پیمانے پر پہنچ رہے ہیں۔ بے روزگاری کی شرح زیادہ ہے، اور صنعتی ترقی نہ ہونے کے برابر ہے۔ تعلیمی ادارے نہایت کم اور سہولیات سے محروم ہیں۔ شرح خواندگی ملک کے دیگر صوبوں کی نسبت سب سے کم ہے۔ تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی کمی اور بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔بلوچ بچے عصر حاضر کے جدید علوم اور سائنس و ٹیکنالوجی سے کوسوں دور ہیں۔ سرکاری اسپتالوں میں سہولیات کی شدید کمی ہے۔ دیہی علاقوں میں صحت کے مراکز ناپید ہیں، اور لوگوں کو علاج کے لیے دوسرے صوبوں کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ صوبہ طویل عرصے سے امن و امان کے مسائل کا شکار ہے، جس کی وجہ سے ترقیاتی منصوبے متاثر ہوتے ہیں۔ علیحدگی پسند تحریکوں، مسلح جھڑپوں اور دہشت گردی کی کارروائیوں کی وجہ سے عام لوگ سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ بلوچستان کے عوام ہمیشہ شکایت کرتے ہیں کہ ان کی سیاسی آواز کو دبایا جاتا ہے۔ حکومتوں کی طرف سے ترقیاتی منصوبوں میں ان کو کم ترجیح دی جاتی ہے۔ مقامی قیادت کو قومی سیاسی دھارے میں مناسب نمائندگی نہیں دی جاتی۔ سڑکوں، پلوں، ریلوے اور دیگر بنیادی ڈھانچے کی تعمیر نہ ہونے کے برابر ہے۔ دیہی علاقوں میں بجلی اور پانی کی شدید قلت ہے، جس سے زراعت اور عام زندگی متاثر ہو رہی ہے۔ ڈیموں اور واٹر سپلائی کے مناسب منصوبے نہیں بنائے جا رہے۔ یہ تمام مسائل بلوچستان کے عوام میں احساسِ محرومی کو جنم دیتے ہیں اور صوبے کی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے نہ صرف حکومت بلکہ قومی سطح پر اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے تاکہ بلوچستان حقیقی معنوں میں پاکستان کے ترقی یافتہ علاقوں میں شامل ہو سکے۔
 بلوچستان کے ان مسائل اور محرومیوں کے ازالے کے لیے ایک جامع، طویل المدتی اور پائیدار حکمتِ عملی درکار ہے جس سے نہ صرف فوری مسائل حل ہوں بلکہ مستقل بنیادوں پر صوبہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو۔اس ضمن میں ضروری ہے کہ بلوچ سیاسی اشرافیہ کو نوازکر صوبے کا نظم و نسق چلانے اور اپنا ہمنوا بنانے کے بجائے نچلی سطح پر حقیقی جمہوری نمائندگی کی طرف قدم اٹھایا جائے۔ بلوچستان کے عوام کو قومی سیاسی دھارے میں موثر نمائندگی دی جائے اور ان کے حقیقی مسائل کو پارلیمنٹ میں زیر بحث لایا جائے۔ صوبے کے فیصلے مقامی قیادت کے مشورے اور شرکت سے کیے جائیں، تاکہ عوام کا اعتماد بحال ہو۔ ایک خصوصی خودمختار ترقیاتی پیکج متعارف کرایا جائے جس کی بندر بانٹ کے بجائے، فیصلہ سازی کا اختیار مقامی حکومت کو حاصل ہو۔ مقامی وسائل کی منصفانہ تقسیم کرتے ہوئے بلوچستان کے معدنی ذخائر اور گوادر پورٹ سے ہونے والی آمدنی کا زیادہ حصہ صوبے کی ترقی پر خرچ کیا جائے۔ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں خصوصی صنعتی زونز قائم کیے جائیں، جہاں مقامی لوگوں کو روزگار دیا جائے۔ سی پیک اور دیگر بڑے منصوبوں میں بلوچ نوجوانوں کو ملازمت کے مواقع دیے جائیں۔  زراعت کے فروغ کے لیے جدید ٹیکنالوجی متعارف کروائی جائے، ڈیمز تعمیر کیے جائیں اور کسانوں کو مالی معاونت فراہم کی جائے۔ ہر ضلع میں اعلیٰ معیار کی یونیورسٹیاں، کالجز اور اسکولز قائم کیے جائیں۔ بلوچستان کے طلبہ کے لیے ملک کے بہترین تعلیمی اداروں میں مفت تعلیم کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ ٹیکنیکل اور ووکیشنل ٹریننگ انسٹیٹیوٹس قائم کیے جائیں تاکہ مقامی نوجوان ہنر مند بن سکیں۔ صوبے کے ہر علاقے میں جدید اسپتال اور بنیادی صحت کے مراکز قائم کیے جائیں۔ غریب عوام کے لیے صحت کی مفت سہولیات یقینی بنائی جائیں اور بلوچستان کے ڈاکٹروں کو خصوصی مراعات دی جائیں تاکہ وہ وہیں خدمات انجام دیں۔ کسی دوسرے ملک کی انگلیوں پر ناچنے والے علیحدگی پسندوں اور شرپسندوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے لیکن ان کے پراپیگنڈے کا شکار ہونے والے ناراض بلوچوں سے مذاکرات کر کے سیاسی عمل میں شامل کیا جائے تاکہ محرومیوں کا ازالہ ہو سکے۔ ملک دشمن عناصر کی بلوچستان میں مداخلت روکنے کے لیے جدید انٹیلی جنس سسٹم متعارف کرایا جائے۔ بلوچستان کے دور دراز علاقوں کو بہتر سڑکوں اور ٹرانسپورٹ نیٹ ورک سے جوڑا جائے۔ ہر علاقے میں بجلی اور صاف پانی کی فراہمی کے منصوبے شروع کیے جائیں اور سولر انرجی کو فروغ دیا جائے۔ صوبے کے عوام کو جدید ٹیکنالوجی سے جوڑنے کے لیے انٹرنیٹ اور آئی ٹی کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ صوبے میں چھوٹے اور بڑے ڈیمز بنائے جائیں تاکہ پانی ذخیرہ کیا جا سکے۔ بارانی علاقوں میں واٹر ہارویسٹنگ کے نظام متعارف کرائے جائیں تاکہ پانی کا ضیاع روکا جا سکے۔ نلکوں اور ٹیوب ویلز کے بے جا استعمال کو روکنے کے لیے جدید آبپاشی کا نظام متعارف کرایا جائے۔
بلوچستان کی ترقی پورے پاکستان کی ترقی ہے۔ اس کے مسائل کا حل صرف زبانی دعووں سے ممکن نہیں بلکہ عملی اقدامات، دانشمندانہ پالیسیوں اور مقامی عوام کو بااختیار بنانے سے ہی ممکن ہے۔ اگر یہ تجاویز مؤثر انداز میں نافذ کی جائیں تو بلوچستان پاکستان کا سب سے خوشحال اور ترقی یافتہ صوبہ بن سکتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن